گوگل نے "سائیکا مور ” کوانٹم کمپیوٹر بنا کر تہلکا مچا دیا-امریکی ڈالر سب پر بھاریکانگو میں ایم پی اوکس وائرس کی ایک خطرناک قسم کا انکشاف: گاڈینسعودی عرب دنیا کی سب سے بڑی تعمیراتی منڈی بننے کے لیے تیار ٹرمپ ، بائیڈن ٹاکراڈیجیٹل ورلڈ میں برق رفتاری سے ہو رہی تبدیلیاںبھارت  انگلینڈ کو 68 رنز سے ہرا کر T20 ورلڈ کپ کے فائنل میں پہنچ گیا شمالی کوریا روس کے لئے ایک انجنئرنگ بٹالین بھیجے گاٹی 20 ورلڈ کپ سیمی فائنل، افغانستان کو شکستمین سٹریم میڈیا ویب سائیٹ آج بھی خبروں کا  سب سے مستند ذریعہ ہیںلندن میں موبائل چوری کی وارداتوں میں اضافہ6 پاکستانی خواتین K-2 سر کرنے نکل پڑیںعلم ، طاقت اور انفارمیشن  کا گٹھ بندھن ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ سیمی فائنل ۲۷ جون ، جمعرات کو کھیلے جائیں گےجولین اسانج، ویکی لیکس کے بانی بارہ سال بعد جیل سے رھاعالمی سیاست کا مرکزی نقطہمودی کی فاسشٹ طرز حکومت کے خلاف جنگ کریں گے؛ راھول گاندھیسپین میں سمندر کی لہروں کی وجہ سے چٹان پر پھنسے ایک اطالوی سیاح کو ہیلی کاپٹر کی مدد سے ریسکیو کیا گیاروس کا Black Sea کے اپنے علاقے کو نو فلائی زون ڈیکلئر کرنے کا عندیہٹی 20 ورلڈ کپ سپر 8 مرحلے میں بھارت نے آسٹریلیا کو شکست دی دی

علم ، طاقت اور انفارمیشن  کا گٹھ بندھن 

مچل فوکو کو بیسویں صدی کے عظم محقّق اور فلسفی کے طور پر جانا جاتا ہے- فوکو کا نظریہ کہ علم طاقت کا منبع ہے اور طاقت علم کو آگے بڑھاتی ہے بہت جاندار نظریہ ہے- فوکو نے ایک صدی قبل جب یہ نظریہ پیش کیا تو علم کتابوں اور ذہنوں سے نکل کر معاشروں اور ریاستوں کی ترقی کا زینہ بن ہی رہا تھا جب جنگ عظیم دوئم شروع ہو گئی- فوکو کا کہنا تھا کہ sovereign یا موروثی طاقت جو ہمیں ریاست کے اعلی ایوانوں میں نظر آتی ہے یہ اصل طاقت نہیں- top-down طاقت کا نظریہ بہت محدود ہے- اصل طاقت وہ ہے جو ہر جگہ موجود ہے- ہر شخص کے پاس طاقت ہے- ڈاکٹر، پروفیسر، انجنئر ، ماہرین ، ہنر مند یہ طاقت کے اصل ماخذ ہیں – یہ با صلاحیت افراد اپنے علم کی طاقت سے ریاست کو مضبوط بناتے ہیں- discursive practice , ریاست کی اصل طاقت ہے- ریاست کا جو discourse ہو گا وہی اس کی طاقت ہے- 

انفارمیشن بھی طاقت کی طرح ہر جگہ پیدا ہو رہی  اور ساتھ ہی ساتھ شیئر بھی ہو رہی ہے- 

جب طاقت بھی ہر جگہ ہے، انفارمیشن بھی ہر جگہ ہے تو ریاست کو اپنی طاقت ان جگہوں میں تلاش کرنی ہے – اور یہی بڑا چیلنج ہے-  

 امریکہ جنگ عظیم دوئم کے بعد سے اپنی علمی صلاحیت اور discourse کی بدولت دنیا پر راج کر رہا ہے- عالمی سیاست اور خارجہ پالیسی اور ریاست کی سیکورٹی کا 90% علم امریکہ اور مغرب سے ہمارے پاس آیا ہے- 

۱۹۹۲ میں لکھی گئی کتاب The development dictionary میں بڑی وضاحت کی گئی ہے کہ ترقی صرف معاشی ترقی نہیں ہوتی- ترقی ایک ہماجُہت سوچ کا نام ہے جو کہ ریاست کے ہر کونے میں تبدیلی لاتی ہے- ریاست کے شہری اس کی اصل طاقت ہیں-

دراصل انفارمیشن کی برتری اور ہنر مند شہری  ہی اصل طاقت ہے-اچین اور بنگلہ دیش نے اپنی آبادی کو ہنر مند بنا کر اسے اپنی طاقت بنایا- بھارت اپنے discourse کے ذریعے دنیا میں اپنا نام پیدا کرنے اور پاکستان کو بدنام کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے- 

دنیا جس افراتفری کا شکار ہے اس کی بڑی وجہ یہی ھے کہ ریاستیں طاقت کے بڑھتے اور بکھرتے ماخذ کو منظم نہیں کر پایئں- طاقت اصل مراکز سے سرک کر نان سٹیٹ ایکٹرز، کیپیٹلزم، اور دوسرے کونے کھدروں میں چلی گئی- اس بکھری طاقت کو ریاستیں ایک دوسرے کے خلاف استعمال کر رہی ہیں-

بھارت ، امریکہ ، فرانس، میں انتہاء پسند  تنظیمیں، امریکہ میں سئنٹالوجی کلٹ کے نظریات  ,    Rothschild bank کی طرح کے سینکڑوں دوسرے معاشی ادارے،  کھربوں ڈالر اثاثوں کی مالک عالمی کمپنیاں، shell کمپنیاں، ڈارک ویب، AI اور دوسرے ہزاروں، لاکھوں ڈھکے چھپی ذیلی تنظیمیں ان مسائل کی جڑ ہیں-

سہیل امان اللہ، ایک پاکستانی آسٹریلین نے casual layered analysis میں مسائل کے حل کے لئے انہیں کونوں کھدروں میں ڈھونڈنے کو کہا ہے- 

ان پیچیدہ مسائل کا حل کسی ایک فیصلے، کسی ایک پالیسی میں نہیں ہے- 

علم اور تحقیق کو بنیاد بنا کر ان مسائل کا حل کونے کھدروں میں ملے گا- discourse کو لے کے چلیں- عوامی طاقت کو channelize کریں-  

فرانس میں ہونے جا رھے انتخابات میں far rights سیاسی پارٹی کی جیت کے امکانات ہیں جو کہ فرانس اور یورپ کے لئے ایک نیا مسئلہ ھے-