Leadership Dilemmaنیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد میں پاک برطانیہ علاقائی استحکام کے موضوع پر چھٹی (6)کانفرنس منعقد ہوئیچین کے بڑے شہر اپنے ہی وزن سے دب رھے ہیںTransformation of Political Conflictوفاقی کابینہ نے نجی یونیورسٹیوں اور دیگر تمام اداروں کیلئے لفظ نیشنل استعمال کرنے پر پابندی عائد کردی‏عوامی اضطراب- کیا وجہ؟‏چین میں سیلاب‏Ubermenschپونے دوپاکستان میں ہر سال 10 لاکھ مکانات کی ضرورت ہےایران نے اسرائیل پر ڈرون اور میزائیلوُں سے حملہ کر دیا ہےگوجرانوالہ- سیالکوٹ- وزیر آباد- گجرات اور لالہ موسی، بنا بنا اکنامک زونسیاچن کے محاز پر پاکستان کی فوجپاکستان کے شمالی علاقہ جاتمعاشرے کی سوچ کو بدلنا ریاست کو ماڈرن بنانے سے کہیں زیادہ ضروری ہےمعاشرےمعاشرے کی سوچ کو بدلنا ریاست کو ماڈرن بنانے سے کہیں زیادہ ضروری ہےاگر ہمّت ہو تو معزوری کوئی رکاوٹ نہیں ہوتیمیلہ 6 ستمبروہ لمحہ جب 7.4 شدت کے زلزلے نے تائیوان کو ہلا ڈالامہنگائی کی شرح ۲۰% پر آ گئی-اپنی صحت کا خیال رکھیں- سوشل میڈیا سے دور رہیں

اگر شیشہ نہ ہوتا؟


ہماری سوچ مکمل طور پر جلیبی کی طرح ہے- شیرہ اندر کہاں سے گھستا ہے نظر نہیں آتا-
ہم اچھے کپڑے ، بناؤ سنگھار اپنی مرضی کا کرتے ہیں اور توقع رکھتے ہیں کہ دوسرے اسے پسند کریں- اگر شیشہ ایجاد نہ ہوتا ہو دنیا میں خود نمائی اور تکبر بہت کم ہوتا- آپ اندازہ کریں ، شیشہ نہ ہوتا تو ہم ساری زندگی اپنی شکل ہی تلاش کرتے رھتے کہ میں کیسا ہوں ؟ صنم بد دماغ نہ ہوتے اور شاعر خوار نہ ہوتے- اس کا مطلب ہے شیشہ بنیادی جڑ ہے اس تکبر اور گھمنڈ کے فساد کی-

ایک اور تضاد دیکھیں
زندگی کی خوشگوار شروعات کا اس سے بڑا دھوکا کیا ہو گا کہ رشتہ دیکھنے
سا س اور نندیں جاتی ہیں-

ھماری زندگی کی زیادہ پریشانیاں حسد اور نقالی کی پیداوار ہیں – محروم طبقہ ، بینک سے ادھار لے کر گاڑی اور پلا ٹ کی فائلیں خرید لیتا ہے، کریڈٹ کارڈ رکھے ہوئے ہیں – مشہور برانڈز ، بینک اور رئیل اسٹیٹ اسی سوچ کا فائدہ اٹھا رہی ہے- کیپیٹلزم ادھار اور سود پر کھڑا ہے اور دنیا نیزے پر چڑھی ہو ئی ھے

ہماری گفتگو کی بھی ترجیحات شہنشاھانہ ہیں-
انتہائی بد اخلاقی سے بات کر کے اگلے سے ہم عزت و احترام کے متمنی ہوتے ہیں- زندگی بھر کتاب کو ہاتھ نہیں لگاتے اور سارا دن نصیحتیں کرتے گزر جاتا ہے-

دوسروں کے ساتھ زندگی گزارنے کے ہمارے سلیقے کے بھی کیا کہنے – جو ارد گرد اور قریب ہیں ان کی طرف دیکھتے بھی نہیں اور ھزاروں میل دور بیٹھے ہوئے سے Chat ہو رھی ہے-

تجارت کا سن لیں
سستے داموں بہترین چیز خریدنا چاھتے ہیں- اور دوکاندار جب سستی چیز کو اچھا کر کے دکھائے تو مان بھی لیتے ہیں- اس اعلی خریداری کے کیا کہنے- شوھر سارا دن سمجھاتا رھے کبھی نہیں سننی، دوکاندار ایک دفع کہ دے باجی یہ پرنٹ پورے شہر میں نہیں ، تو فورا سوٹ خرید لیں گی-

ریاستوں اور معاشروں کا المیہ یہ ہے کہ جو سیاست ، معیشت ، سائنس، تاریخی علوم پر عبور رکھتے ہیں ان کا حکومتی امور میں کوئی لینا دینا نہیں- اور جو حکومت کرتے ہیں ان کا علم سے کوئی واسطہ نہیں- یہ صدیوں پہلے طے ہو چکا ہے کہ حکمرانی اشرافیہ کرے گی اور علم و دانش کے معاملات پڑھا لکھا طبقہ دیکھے گا- اور حکمرانوں نے حکمرانی کیسے کر نی ہے یہ سیٹھ طے کرے گا- دانش ور کو صرف وظیفہ ملے گا-
حکمرانوں اور دانشوروں کے رابطہ کار بیربل ہونگے جنہیں ہم بیوروکریسی کہتے ہیں اور اس ساری اشرافیہ ، حکمران، سیٹھ ، دانشور، بیربل کے بیک وقت آلہ کار بھی اور متاثرین بھی رعایا ہو گی جنہیں اب عوام کہا جاتا –

You might also like