وفاقی کابینہ نے نجی یونیورسٹیوں اور دیگر تمام اداروں کیلئے لفظ نیشنل استعمال کرنے پر پابندی عائد کردی‏عوامی اضطراب- کیا وجہ؟‏چین میں سیلاب‏Ubermenschپونے دوپاکستان میں ہر سال 10 لاکھ مکانات کی ضرورت ہےایران نے اسرائیل پر ڈرون اور میزائیلوُں سے حملہ کر دیا ہےگوجرانوالہ- سیالکوٹ- وزیر آباد- گجرات اور لالہ موسی، بنا بنا اکنامک زونسیاچن کے محاز پر پاکستان کی فوجپاکستان کے شمالی علاقہ جاتمعاشرے کی سوچ کو بدلنا ریاست کو ماڈرن بنانے سے کہیں زیادہ ضروری ہےمعاشرےمعاشرے کی سوچ کو بدلنا ریاست کو ماڈرن بنانے سے کہیں زیادہ ضروری ہےاگر ہمّت ہو تو معزوری کوئی رکاوٹ نہیں ہوتیمیلہ 6 ستمبروہ لمحہ جب 7.4 شدت کے زلزلے نے تائیوان کو ہلا ڈالامہنگائی کی شرح ۲۰% پر آ گئی-اپنی صحت کا خیال رکھیں- سوشل میڈیا سے دور رہیںصدر ارگان کی پارٹی کو ترکی میں بلدیاتی انتخابات میں شکستافغان سرزمین دہشتگردوں کی محفوظ آماجگاہ ہے ؛ فنانشل ٹائمچولستان میں زمینوں کو آباد کرنے کا منصوبہسائنوٹیک سولر پرائیویٹ لمیٹڈ کی پاکستان میں سرمایہ کاری

اعلی تعلیم یافتہ لوگوں کے نام

یہ25 سال پرانا سو فیصد سچا واقعہ ہے ۔ پاکستان کے پسماندہ ضلع ڈیرہ بگٹی اور کشمور کے درمیانی علاقے میں ایک بلوچ نوجوان موٹر سائیکل پر جارہا تھا کہ مخالف برادری کا کتا اس کی موٹر سائیکل کے نیچے آکر مرگیا ۔ مخالف برادری کے لوگوں نے اگلے دن موٹر سائیکل سوار کی برادری کا گدھا یہ کہہ کر ماردیا کہ انہوں نے ہمارا حرام جانور مارا ہے لہٰذا ہم نے بھی جواب میں ان کا حرام مار دیا۔ دو دن گزرے جس برادری کا گدھا مارا تھا انہوں نے پھر بدلہ لینے کیلئے ان کی کھلے عام چرتی ہوئی گائے اندھا دھند فائرنگ کر کے مار دی۔اب پہلی برادری کا گرینڈ جرگہ ہوا اور فیصلہ ہوا کہ اب چونکہ گائے ماری گئی ہے جو کہ حلال تھی لہٰذا حلال کا بدلہ تو زیادہ بڑا ہوگا ۔ بس پھر کچھ دن بعد ہی رات کے اندھیرے میں تین راکٹ لانچر فائر ہوئے اور مخالف برادری کے بچوں سمیت 7 افراد مارے گئے ۔

بلوچ قوم کی ایک داستان مشہور ہے کہ جنگلی کرلا جسے گوہ کہتے ہیں ، کو بچے مار رہے تھے کہ وہ بھاگ کر ایک گھر میں داخل ہوگئی بچے بھی اس کے پیچھے گھر میں داخل ہوگئے اور انہوں نے گوہ کو مار دیا۔ اب جس برادری کے بلوچوں کے گھر میں گوہ کا ’’ قتل ‘‘ ہوا تھا انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ چونکہ گوہ ان کی پناہ میں آگئی تھی اور اس گوہ کی حیثیت ایک مہمان کی سی تھی جسے مارا گیا ہے اب کھلا اعلانِ جنگ ہے ۔کہتے ہیں کہ دو قبیلوں کی ’’ گوہ پر ‘‘ اس لڑائی میں ہزاروں افراد مارے گئے اور یہ جنگ تین صدیوں تک جاری رہی تھی ۔

بارہا لکھ چکا ہوں کہ نئے پاکستان میں تباہی کے ذمہ دار سہولت کار ہیں جو ہرجگہ موجود ہیں ، میں نے بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی اوربلوچ کلچر کی مثالیں دیں۔ چلیں مان لیا کہ وہاں تعلیم کی کمی اور سردارانہ نظام رائج ہے مگر جو کچھ تعلیم یافتہ افرادکے گروہ نے منڈی بہاؤالدین میں کیا وہ تو جہالت، رعونت ، تکبر اور اخلاقی پستی کی شرمناک مثال ہے ۔ یہ بالکل ایسا ہی ہوا کہ بچوں کی لڑائی پر پہلے دوخاندان اور پھر پورا محلہ ہی آٹپکا۔ معاملہ ہسپتالوں ،تھانوں اور قبرستانوں تک جاپہنچا تو وہی بچے چند روزبعد اسی محلے میں اکٹھے کھیلتے دکھائی دئیے ۔ جھگڑا تو کوارٹر کی الاٹمنٹ پر دوملازمین کے درمیان تھا ۔ کہاں گئی سول سروسز اکیڈمی کی تربیت ،کہاں گئیں اعلی تعلیم اور ڈگریاں، جوناقابل اشاعت قسم کی گندی گالیاں تعلیم یافتہ افراد کی طرف سے عدالت میں اپنے سے عمر میں بڑے جج کو دی گئیں وہ ملک بھر میں سوشل میڈیا کے ذریعے ہر کسی نے سنیں کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ چند افراد نے کس قسم کی تربیت پہلے اپنے گھر ، پھر تعلیمی اداروں اورا سکے بعد معاشرے سے حاصل کر رکھی ہے۔ یقینی طو رپر یہ بے ادبی گھر ہی سے سیکھی گئی ہوگی اور یہ بدتمیزی اوائل عمری ہی سے انکے تحت الشعور میں گھر کر گئی کہ اپنے سے بڑوں کے ساتھ کس قسم کا سلوک روا رکھنا ہے ۔

کوارٹر کی الاٹمنٹ کا جھگڑا ابھی بھی وہیں ہے اور ڈپٹی کمشنر منڈی بہاؤالدین طارق بسرا ، ڈی پی او ساجد کھوکھر ، اسسٹنٹ کمشنر امتیاز بیگ اور ڈی ایس پی شبیر احمد سمیت متعدد ٹرانسفر ہوئے اور یوں سارا ضلع اتھل پتھل ہوگیا۔صدر بار وکلاء اور سیکرٹری بار کے خلاف دہشتگردی کی دفعات کے تحت ایف آئی آر درج ہوئی ۔ بار کے ان معزز عہدیداروں نے اپنے سے عمراور مرتبے میں بڑے جج راؤ عبد الجبار کو کس طرح ان کی کرسی سے اٹھایا ، گھسیٹا ، دھکے دئیے ، گالیوں سے نوازا، بار روم میں محبوس کیا اور پھر دھکیلتے ہوئے ان کو گاڑی تک لیجاکر جو کچھ کیا وہ بہت سے لوگوں نے دیکھا ۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر جج راؤ عبد الجبارنے سزا دے دی تھی تو علامتی طور پر ہی سہی ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر اس کا اقرار کرتے ہوئے چند منٹ کیلئے ہی خود کو گرفتار کروا لیتے تو شام تک یہ معاملہ ویسے ہی ختم ہوجاتا۔ ہائیکورٹ نے بغیر وارننگ دئیے سزا پر عمل درآمد روک کر انہیں اگلی پیشی پر طلب کرلیا تو اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں تھاکہ ملزمان اب بری ہوچکے ہیں ۔حیرت ہے ریلیف اور بریت کا فرق اعلی افسران بھی نہ سمجھ سکے ۔

خفیہ رپورٹس کے مطابق ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر نے اپنے دفاتر میں واپس آکر منصوبہ بندی کے تحت جج پر حملہ کروایا۔ اب تھانہ سول لائن منڈی بہاؤ الدین میں راؤ عبدالجبار کی مدعیت میں مقدمہ نمبر 1231/21 درج ہوا ہے جس کے ملزمان جنرل سیکرٹری بار یاسر عرفات، مطیع الرحمن رانجھا، اورنگزیب گوندل ، ذیشان گوندل ودیگر وکلاء نے جج کے ساتھ بدتمیزی کی ، ایف آئی آر کے متن کے مطابق یہ سب ڈپٹی کمشنر طارق بسرا اور اسسٹنٹ کمشنر امتیاز بیگ ، رانا محبوب انویسٹی گیشن آفیسر اور زاہد گوندل صدر بار کی ایماء پر ہواہے ۔ اب یہ سارے باعزت، بارسوخ ،اعلی تعلیم یافتہ اور معزز شہری دہشتگردی سمیت مختلف دفعات کے ملزم ہیں ۔ یہ وہ فصل ہے جو گزشتہ چالیس سال سے بیجی جارہی تھی اور اب خوب پھل پھول گئی ہے ۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔

 پس تحریر ’’ پاکستانی شودر ‘‘ کے عنوان سے لکھے گئے کالم پر بہت دلچسپ رد عمل آیا ہے جبکہ وزیر اعظم پورٹل پر اس حوالے سے دی جانے والی درخواست پر ڈپٹی کمشنر لودھراں سے رپورٹ طلب کرلی گئی ہے ۔ آئی جی پنجاب راؤ سردار علی کی طرف سے جو رپورٹ مانگی گئی تھی اس پر کیا ہونا ہے کیونکہ جب ظلم کے سہولت کار خود ہی رپورٹ دینے والے ہوں گے تو منو بھائی کی مشہور زمانہ نظم’’ احتساب دے چیف کمشنر صاحب بہادر ‘‘ کے اشعار کے مطابق کون اپنے گلے میں خود پھندا ڈالے اور کون اپنے جرم کی خود گواہی دے ۔

ڈی پی او لودھراں عبدالرؤف بابر قیصرانی کے ایک سہولت کار جرنلسٹ نے جب مجھے بتایا کہ وہ تو بہت شریف آدمی ہیں اور اس عمر میں قرآن حفظ کررہے ہیں تو میری حیرت اور نا اُمیدی مزید بڑھ گئی ، جسے قرآن حفظ کرنے کا تو علم ہے مگر یہ علم نہیںکہ قرآن مجید عمل کی کتاب ہے اور وہ اپنے عمل سے ظالم کے سہولت کار بن چکے ہیں ۔ انہوں نے اپنے ہی ملازم کے بچوں کے پاؤں تلے سے زمین اور انکے باپ پر رزق کے دروازے بند کر دئیے ، جب اعلیٰ ترین کتاب قرآن مجید کا رٹہ تو لگالیا جائے اور عمل نہ کیا جائے تو پھر اسی طرح سے ہوگا جو کچھ ہورہا ہے ۔

You might also like