‏عوامی اضطراب- کیا وجہ؟‏چین میں سیلاب‏Ubermenschپونے دوپاکستان میں ہر سال 10 لاکھ مکانات کی ضرورت ہےایران نے اسرائیل پر ڈرون اور میزائیلوُں سے حملہ کر دیا ہےگوجرانوالہ- سیالکوٹ- وزیر آباد- گجرات اور لالہ موسی، بنا بنا اکنامک زونسیاچن کے محاز پر پاکستان کی فوجپاکستان کے شمالی علاقہ جاتمعاشرے کی سوچ کو بدلنا ریاست کو ماڈرن بنانے سے کہیں زیادہ ضروری ہےمعاشرےمعاشرے کی سوچ کو بدلنا ریاست کو ماڈرن بنانے سے کہیں زیادہ ضروری ہےاگر ہمّت ہو تو معزوری کوئی رکاوٹ نہیں ہوتیمیلہ 6 ستمبروہ لمحہ جب 7.4 شدت کے زلزلے نے تائیوان کو ہلا ڈالامہنگائی کی شرح ۲۰% پر آ گئی-اپنی صحت کا خیال رکھیں- سوشل میڈیا سے دور رہیںصدر ارگان کی پارٹی کو ترکی میں بلدیاتی انتخابات میں شکستافغان سرزمین دہشتگردوں کی محفوظ آماجگاہ ہے ؛ فنانشل ٹائمچولستان میں زمینوں کو آباد کرنے کا منصوبہسائنوٹیک سولر پرائیویٹ لمیٹڈ کی پاکستان میں سرمایہ کاریپیٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 9 روپے 66 پیسے کا اضافہ –

کرنل محمد خاں کی بزم آرائیاں سے اقتباس


میرا نام محمد خان ہے لیکن ادبی حلقوں خصوصاً ناشروں نے میرے عہدے کو بھی میرے نام کا حصہ بنا دیا ہے یعنی جیسے بعض سکھوں کا نام کرنیل سنگھ ہوتا ہے۔بےشک میری کرنیلی سردار جی کی کرنیلی سے زیادہ اصلی یا جینوئین Genuine ہے اور مجھے اس کی علیحدہ خوشی یا فخر ہے تاہم حصہء نام کے طور پر میں اس سے علیحدگی چاہتا ہوں اور اس کیلئے آپ کے تعاون کا خواستگار ہوں۔ آخر کتنے دوسرے محمد خان کتابیں لکھ چکے ہیں کہ ان کے ساتھ کنفیوژن کا خطرہ ہو؟۔ بلکہ پاکستان میں تا دم تحریر ١٩٨٠ ء جہاں مصنف محمد خان ایک ہی ہے‘ وہاں کرنل محمد خان کم و بیش ایک درجن ہیں اور یہ تعداد کبھی گھٹنے کی نہیں کہ پیچھے سے سینکڑون لفٹین اور کپتان محمد خانوں کی ٍکمک اوپر آرہی ہے۔ آج تک اگر کسی محمد خان سے کنفیوژن واقع ہوا ہے تو اس کی کرنیلی کی وجہ سے ہوا ہے نہ کہ اس کی محمد خانی کے باعث۔
علوی صاحب لکھتے ہیں: ”میں مری کے پنڈی پوائنٹ پر سیر کر رہا تھا کہ اچانک آپ کے بنگلے کے سامنے سے گزر ہوا۔ گیٹ کی تختی پر جلی قلم سے کرنل محمد خان لکھا ہوا تھا۔ سوچا کیوں نہ دو گھڑی گپ لگائیں اور مل کر چائے پیئں۔ اندر گیا۔ نوکر سامنے آیا۔ پوچھا:کرنل صاحب گھر پر ہیں؟ بولا جی ہاں۔ آپ ڈرائنگ روم میں تشریف رکھیں۔ میں انہیں خبر کرتا ہوں۔“ پھر کرنل صاحب آئے’ بڑے پیارے آدمی تھے مگر وہ آپ نہ تھے۔ یہ صاحب مغالطے پر ذرا برہم نہ ہوئے۔ بڑے تپاک سے ملے۔ تواضع کی اور جب اٹھنے لگا تو بولے:
”اس گرما میں آپ کرنل محمد خان)مصنف( کے چوتھے مہمان ہیں۔ جو میری چائے پی کر جا رہے ہیں۔
اس شخص کو جا کر مشورہ دیں کہ یا تو اپنا نام بدل لے ورنہ چائے کے بل ادا کرے۔“
سو عرض ہے کہ بطور مصنف میں نے اپنا نام کرنل محمد خان سے بدل کر محمد خان رکھ لیا ہے اور آئندہ مجھے اسی نام سے پکارا جائے۔
محمد خان
راولپنڈی
ستمبر١٩٨٠

You might also like