Leadership Dilemmaنیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد میں پاک برطانیہ علاقائی استحکام کے موضوع پر چھٹی (6)کانفرنس منعقد ہوئیچین کے بڑے شہر اپنے ہی وزن سے دب رھے ہیںTransformation of Political Conflictوفاقی کابینہ نے نجی یونیورسٹیوں اور دیگر تمام اداروں کیلئے لفظ نیشنل استعمال کرنے پر پابندی عائد کردی‏عوامی اضطراب- کیا وجہ؟‏چین میں سیلاب‏Ubermenschپونے دوپاکستان میں ہر سال 10 لاکھ مکانات کی ضرورت ہےایران نے اسرائیل پر ڈرون اور میزائیلوُں سے حملہ کر دیا ہےگوجرانوالہ- سیالکوٹ- وزیر آباد- گجرات اور لالہ موسی، بنا بنا اکنامک زونسیاچن کے محاز پر پاکستان کی فوجپاکستان کے شمالی علاقہ جاتمعاشرے کی سوچ کو بدلنا ریاست کو ماڈرن بنانے سے کہیں زیادہ ضروری ہےمعاشرےمعاشرے کی سوچ کو بدلنا ریاست کو ماڈرن بنانے سے کہیں زیادہ ضروری ہےاگر ہمّت ہو تو معزوری کوئی رکاوٹ نہیں ہوتیمیلہ 6 ستمبروہ لمحہ جب 7.4 شدت کے زلزلے نے تائیوان کو ہلا ڈالامہنگائی کی شرح ۲۰% پر آ گئی-اپنی صحت کا خیال رکھیں- سوشل میڈیا سے دور رہیں

بیٹا اور بیٹی کی یکساں پرورش کی ضرورت

تحریر؛ ڈاکٹر عتیق الرحمان

عورت کو اس کا اصل مقام دیئے بغیر کوئی بھی معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا- مضبوط اور مہذب قوم کی ترقی میں خواتین کا وہی کردار ہے جو جسم میں ریڑھ کی ہڈی کا- مغرب اور مشرق کی ترقی میں سائنسی ایجادات، بلندو بانگ عمارتوں ، ہموار اور چوڑی شاہراہوں ،انسانی حقوق کی پاسداری کے ساتھ ساتھ عورت کو اس کا جائز مقام بھی اہم ترین فرق ہے- مغرب میں عورت مردوں سے کسی بھی لحاظ سے کم درجہ نہیں- تعلیم، روزگار ، شخصی آزادی ، رشتوں میں احترام ، انسانی حقوق ہر جگہ عورت اور مرد برا بر ہیں- یہی وجہ ہے کہ عورت جب ماں کے روپ میں اولاد کی پرورش کرتی ہے تو پہلے سے بہتر نسل پروان چڑھتی ہے-مشرق میں عورت کے ساتھ غیر مساوی رویہ ہمارے معاشرے کی کسمپرسی کی سب سے بڑی وجہ ہے- ایک ناخواندہ، کمزور، ظلم کی چکی میں پسی ہوئی ماں کیسے ایک روشن خیال نسل پروان چڑھا سکتی ہے – کوئی بھی انسان صرف وہی دے سکتا ہے جو اس کے پاس ہو- اگر کامیاب نسل چاہیے تو عورت کو مضبوط اور مرد کے ہم پلہ کرنا ہو گا- صرف قومی اور صوبائی اسمبلیوں ، کالجوں اور یونیورسٹی میں عورت کو بھیج دینے سے مساوات نہیں آتی- عورت کی سوچ اور ان کی زندگی سے مردوں کو اپنے آپ کو الگ کرنا ہو گا- وہ کیسے سانس لیں گی، کیا کھائیں گی، کیا پہنیں گی، کیا کریں گی، کس سے شادی کریں گی یہ ان کا ذاتی فیصلہ ہونا چاہیے- عورت اگر مرد کے تابع رہے گی تو آئندہ آنے والی نسلیں بھی ذہنی غلامی کا طوق گلے میں ڈالے پروان چڑہیں گی- ھماری معاشرتی زندگی میں اگر آپ افراد اور گروہی رویوں کا مشاہدہ کریں تو عورتوں کے ساتھ جبر و تشدد اور ناآنصافی سب سے نمایاں نظر آئے گی-گھر کا ہر وہ کام جو کم تر سمجھا جاتا ہے وہ عورت کرے گی چاھے وہ کتنی بھی تعلیم یافتہ کیوں نہ ہو اور مرد صرف گھر میں حکمرانی اور آرام کرے گا چاھیے وہ مکمل ان پڑھ ہی کیوں نہ ہو- یہ رویہ سمجھ سے بالا تر ہے- پھر جسمانی تشدد اور ذہنی اذیت دینا بھی مرد کا حق سمجھا جاتا ہے- یہ عمومی رویے نہ صرف قابل قبول مانے جاتے ہیں بلکہ اتنے عام ہو چکے ہیں کہ ان کے خلاف آواز اٹھانا گناہ کبیرہ تصور کیا جاتا ہے-اس سلسلے میں ریاست سے زیادہ افراد اور خاندانوں کا کردار ہے- آج کے ترقی یافتہ دور میں عورت کو مکمل آزادی اور عزت و احترام دینا ہو گا- بیٹیوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ بیٹوں کی طرح پرورش کرنی ہو گی- ان کو وہی آزادی دیں جو بیٹوں کو ہے-عورت اگر ماں باپ کے گھر میں مضبوط ہو گی تو معاشرے کا کارآمد جز بن سکے گی- بیٹیوں کو مضبوط بنا کر سسرال بھیجیں تاکہ وہ کامیاب نسل کی پرورش کر سکیں – یقین جانیں ترقی کا یہ زینہ وقت کی بہت ہی اہم ضرورت ہے-

You might also like