بند صندوق


یہ وہ والا بھاری بھر صندوق نہیں، جس میں ہم درجن بھر سفید نیکریں، آدھے بازو والی شرٹیں اور جینز رکھ کر ۱۹۸۴ میں پی ایم اے پہنچے تھے- پی ایم اے تشریف آوری کے چوبیس گھنٹے بعد ہی ہمیں یہ عیّاں ہو گیا کہ ہماری مرضی اور جینز کی یہاں کوئی گنجائش نہیں ہے- جینز کی تو ہلکی پھلکی گنجائش بعد میں نکل آئی لیکن مرضی والا معاملہ ریٹائرمنٹ تک لٹکا رھا- اب اپنی مرضی کرنے کی تو اجازت ہے لیکن اب ” اپنی مرضی” رہی نہیں – اپنی مرضی میں ویسے بھی کیا رکھا ہے – زوال اور اکھاڑ پچھاڑ کی پہلی سیڑھی "اپنی مرضی ” ہی ہے- بغیر تحقیق، علم، دلیل ، حالات سے بے خبری اور انا کی بھٹی میں پل کر جوان ہوئی ” اپنی مرضی” سے بڑا مرض کوئی نہیں-
اپنی مرضی سے ون وے اور ٹریفک سگنل توڑنا ، اپنی مرضی سے ذخیرہ اندوزی، جعل سازی اور اپنی مرضی سے عوام کو ورغلانے کی عادت یہ فرد سے ہوتی ہوئی، معاشروں اور ریاستوں کو لے ڈوبتی ہے- ” اپنی مرضی” کے مرض پر قابو پانے کے لئے ہی ڈاکٹر حضرات قانون اور ، چیک اینڈ بیلنس کے انجکشن تجویز کرتے ہیں –
انسان اپنے لالچ اور خوف کے صندوق میں بند ہیں-مگر لالچ اور خوف کی نوعیت مختلف ہے- مچھیرے کا گہرے سمندر میں لالچ مچھلیاں ہیں تو خوف ، طوفان- کوئی دو وقت کی روٹی کی فکر میں ھے تو کہیں اربوں روپے کی سرمایہ کاری ڈوبنے کا خوف ، کہیں پروموشن کا لالچ سب کچھ کروا رہا ہے تو کہیں محبت سر چڑھ کر بول رہی ہے- مغربی معاشرے میں نظم و ضبط ہے مگرٹیکس، گھر، میڈیکل انشورنس ، دوران تعلیم لئے گئے قرضوں کی واپسی کا خوف بھی ہے- یہ سب انسانی سوچ کے بہت وزنی صندوق ہیں، جن کے اندر سے شور کی گونج آ رہی ہے- ان بند صندوقوں کے اندر سے آتی آہو فغاں کو کم کرنے کے لئے صندوق میں چھوٹے چھوٹے سوراخوں کی ضرورت رہتی ہے تاکہ تازہ ہوا کا گزر ہو- یہ سوراخ صندوق والا خود بناتا ہے – وقتا فوقتا اپنے خوف اور لالچ کا تجزیہ بہت سود مند رہتا ہے کیونکہ یہ دونوں صرف سوچ میں بستے اور پروان چڑھتے ہیں – بے جا خوف اور اندھی سوچ انسان کی اپنی کاوش ہے- صندوق میں سوراخ مکمل آزادی تو نہیں لیکن ٹھنڈی ہوا کے جھونکے ضرور دے جاتے ہیں-
غورو فکر ( meditation) سے صندوقوں کے سوراخ کھلتے جاتے ہیں اور تازہ ہواسے تشکّی ملتی ہے- نکلیں بند صندوقوں سے
۰-۰-۰-
atiquesheikh2000@gmail.com