وفاقی کابینہ نے نجی یونیورسٹیوں اور دیگر تمام اداروں کیلئے لفظ نیشنل استعمال کرنے پر پابندی عائد کردی‏عوامی اضطراب- کیا وجہ؟‏چین میں سیلاب‏Ubermenschپونے دوپاکستان میں ہر سال 10 لاکھ مکانات کی ضرورت ہےایران نے اسرائیل پر ڈرون اور میزائیلوُں سے حملہ کر دیا ہےگوجرانوالہ- سیالکوٹ- وزیر آباد- گجرات اور لالہ موسی، بنا بنا اکنامک زونسیاچن کے محاز پر پاکستان کی فوجپاکستان کے شمالی علاقہ جاتمعاشرے کی سوچ کو بدلنا ریاست کو ماڈرن بنانے سے کہیں زیادہ ضروری ہےمعاشرےمعاشرے کی سوچ کو بدلنا ریاست کو ماڈرن بنانے سے کہیں زیادہ ضروری ہےاگر ہمّت ہو تو معزوری کوئی رکاوٹ نہیں ہوتیمیلہ 6 ستمبروہ لمحہ جب 7.4 شدت کے زلزلے نے تائیوان کو ہلا ڈالامہنگائی کی شرح ۲۰% پر آ گئی-اپنی صحت کا خیال رکھیں- سوشل میڈیا سے دور رہیںصدر ارگان کی پارٹی کو ترکی میں بلدیاتی انتخابات میں شکستافغان سرزمین دہشتگردوں کی محفوظ آماجگاہ ہے ؛ فنانشل ٹائمچولستان میں زمینوں کو آباد کرنے کا منصوبہسائنوٹیک سولر پرائیویٹ لمیٹڈ کی پاکستان میں سرمایہ کاری

الیکشن ۲۰۲۴ کیسا ھو گا؟

امریکہ، برطانیہ، بھارت دنیا کے تین بڑے جمہوری ملک ہیں-
دنیا بھر میں انتخابات کے معیار کے بارے میں شواہد اکٹھے کرنے کے لیے، 2012 میں ہارورڈ اور سڈنی یونیورسٹیوں میں ایک آزاد تحقیقی پروجیکٹ کے طور پر الیکٹورل انٹیگریٹی پروجیکٹ (EIP) قائم کیا گیا تھا۔ نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ ماہرین نے امریکی انتخابات کو تمام مغربی جمہوریتوں میں غیر شفاف قرار دیا – اور بہت سے ریفارمز تجویز کئے تھے اور کہا تھا کہ اگر ان پر عمل نہ ہوا تو امریکی حکومت پر عوام کا اعتماد کمزور ہوتا جائے گا-
برطانوی الیکشن پر تحقیقی رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ کالادھن اور سوشل میڈیا سے سیاسی پارٹیاں ووٹر پر اثر انداز ہوتی ہیں- الیٹورل رولز مکمل بھی مکمل نہیں ہیں- اور بھی بہت سے دوسرے خلاء کی نشاندھی کی گئی تھی-
حال ہی میں بھارت کی
‎پانچ ریاستوں میں، بی جے پی کو ۳۴۲ سیٹیں ملیں ، اور کانگریس کو ۲۳۵ سیٹیں ۔ لیکن ان ریاستوں میں بی جے پی کے مقابلےمیں کانگرس نے دس لاکھ ووٹ زیادہ حاصل کئے-لیکن اس کے باوجود، کانگریس ان میں سے تین ریاستوں میں ہار گئی، جس سے انتخابی عمل کی شفافیت کے بارے میں سنگین خدشات پیدا ہوئے۔
اس کے علاوہ بھی بی جے پی پر الیکشن پر دوسرے طریقوں سے اثر انداز ہونے کے شواھد کی نشاندھی کی گئی ھے-
الیکشن کا عمل پوری دنیا میں شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے-
کہتے ہیں مستقبل کا پتا لگانا ہو تو ماضی کو تھوڑا کھنگال لیں- پاکستان کا پورا سیاسی نظام، معاشرہ، الیکشن کے قوانین، طریقہ کار وہی ھے جو ۲۰۰۸ میں تھا، جو ۲۰۱۳ میں تھا، ۲۰۱۸ میں تھا- تو ۲۰۲۴ کے الیکشن کا رزلٹ کیا ہو نا چاھیے-
۲۰۱۳ میں اےاین پی اور پیپلز پارٹی کے امیدوار باھر نہیں نکل سکتے تھے- ۲۰۱۸ میں نون کی حالت یہی تھی-
موجودہ سیاسی صورتحال کا تھری ڈی تجزیہ تو یہی ہے کہ الیکشن میں چھ دن رہ گئے ہیں- پولنگ صبح نو بجے شروع ھو گی اور شام پانچ بجے ختم ھو گی- ہماری سیاسی تاریخ سے تو یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ یہ والا الیکشن بھی ماضی میں ہونے والے الیکشنوں کی طرح ہو گا- اور الیکشن کا رزلٹ آتے ہی دھاندلی کا شور و غوغہ شروع ہو جائے گا-
ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے – جیسا کرو گے ویسا بھرو گے- پچھلی حکومتوں نے معاشرے میں polarization کی پرورش کی ہے تو اس حساب سے ووٹ بٹے گا کیونکہ معاشرہ برے طریقے سے تقسیم ہے-
کسی بھی تبدیلی کے لئے جب تک انڈیپنڈنٹ ویری ایبل تبدیل نہیں ھو گا نتیجہ پرانے والا ہی نکلے گا-
البتہ موجودہ الیکشن میں ٹرن آؤٹ فیصلہ کن کردار ادا کر سکتا ھے-
۰-۰-۰-
ڈاکٹر عتیق الرحمان

You might also like