وفاقی کابینہ نے نجی یونیورسٹیوں اور دیگر تمام اداروں کیلئے لفظ نیشنل استعمال کرنے پر پابندی عائد کردی‏عوامی اضطراب- کیا وجہ؟‏چین میں سیلاب‏Ubermenschپونے دوپاکستان میں ہر سال 10 لاکھ مکانات کی ضرورت ہےایران نے اسرائیل پر ڈرون اور میزائیلوُں سے حملہ کر دیا ہےگوجرانوالہ- سیالکوٹ- وزیر آباد- گجرات اور لالہ موسی، بنا بنا اکنامک زونسیاچن کے محاز پر پاکستان کی فوجپاکستان کے شمالی علاقہ جاتمعاشرے کی سوچ کو بدلنا ریاست کو ماڈرن بنانے سے کہیں زیادہ ضروری ہےمعاشرےمعاشرے کی سوچ کو بدلنا ریاست کو ماڈرن بنانے سے کہیں زیادہ ضروری ہےاگر ہمّت ہو تو معزوری کوئی رکاوٹ نہیں ہوتیمیلہ 6 ستمبروہ لمحہ جب 7.4 شدت کے زلزلے نے تائیوان کو ہلا ڈالامہنگائی کی شرح ۲۰% پر آ گئی-اپنی صحت کا خیال رکھیں- سوشل میڈیا سے دور رہیںصدر ارگان کی پارٹی کو ترکی میں بلدیاتی انتخابات میں شکستافغان سرزمین دہشتگردوں کی محفوظ آماجگاہ ہے ؛ فنانشل ٹائمچولستان میں زمینوں کو آباد کرنے کا منصوبہسائنوٹیک سولر پرائیویٹ لمیٹڈ کی پاکستان میں سرمایہ کاری

دخل اندازی


تحریر: ڈاکٹر عتیق الرحمان

اپنا کام چھوڑ کر دوسروں کو ان کا کام سمجھانے چل پڑنا دخل اندازی کہلاتا ہے- پنجابی میں اسے پنگا اور انگلش میں intervention کہتے ہیں- یہ ایک خطرناک اور متعدی بیماری ہے-
ماضی بعید میں یہ وبا پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے- اسے imperialism اور colonialism کہتے تھے – تقریبا دو اڑھائی صد یوں تک مغرب اور امریکہ کی پنگے بازی کے اثرات دنیا آج تک بھگت رہی ہے- اگر صدیوں تک دنیا میں امریکہ اور یورپ کا راج نہ ہوتا تو آج دنیا کا نقشہ اور علم کی ترویج کے زاویے مختلف ہوئے- بالآخر دوسری جنگ عظیم میں کروڑوں ہلاکتیں imperialism کا تریاق ثابت ہوئی- یورپ تو کسی حد تک باز آ گیا لیکن امریکہ اور روس دخل اندازی کے دائمی مریض بن گے- اب آہستہ آہستہ یہ وبا چین تک پہنچ چکی ہے- امریکہ کی پاکستان کے اندرونی معاملات میں ڈوئی پھیرنے کی عادت نے پاکستانی کی سیاست، معیشت اور معاشرت پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں- صدیوں تک برطانیہ کا تسلط، آزادی کے بعد کولڈ وار کے اثرات, پھر چین اور سعودی عرب کی دخل اندازی – ہمارا اپنا وجود تو کہیں گم سا گیا ہے- ہماری اپنی فاش غلطیوں سے تو مفر نہیں لیکن ہمیں یہاں تک پہنچانے میں بیرونی دنیا کی مداخلت کا بہت ہاتھ ہے-
دخل اندازی اب ہمارا بھی قومی مرض بن چکا ہے- ہم خود بھی اپنا کم اور دوسروں کے کام پر زیادہ توجہ دیتے ہیں- موبائل نے یہ کام اور بھی آسان کر دیا ہے-جیسے جیسے انٹر نیٹ کی سپیڈ تیز ہو رھی ہے ویسے ویسے دخل اندازی نے بھی پرورش پائی ہے- انٹر نیٹ اور کمپیوٹر نے دخل اندازی کے علاوہ گالیاں نکالنا، جگتیں کرنا، لائن مارنا، مخبریاں کرنا، سب آسان کر دیا ہے- سب اپنا کام چھوڑ کے دوسرے کا کر رھے ہیں –
ھمیں ایک دوسرے کو اپنے حال پر چھوڑ دینا چاہیے- سیاست سیاستدانوں کا کام ہے ، انہیں کرنے دیں- ریٹائرڈ فوجی حضرات آرام کریں یا سی ایم ایچ رجوع -ان کے مشورے اب صائب نہیں- جس طرح ریٹائرڈ پولیس سوسائٹی ، ریٹائرڈ سول سروس سوسائٹی کوئی نہیں ہے، ایکس سروس مین سوسائٹی کی بھی ضرورت نہیں ہے- سوسائیٹیاں اب صرف رہائشی کالونیوں کے نام ہیں-وکیل آپس میں نہ لڑیں ، مقدمے لڑیں – بیوروکریسی ٹویٹر چھوڑ کر کام کرنا شروع کرے- صحافی سیاست پر صرف رپورٹنگ کریں –
دنیا کی تمام جمہوریتوں میں سیاسی جماعتیں پارلیمنٹ کا رپلیکا ہوتی ہیں- ہر وہ چیز جو پارلیمنٹ کے اندر ہونا ھوتی ہے سیاسی جماعتیں اس پر پارٹی سیاست میں عمل در آمد کرتی ہیں- پارٹی کا منشور ہوتا ہے، الیکشن ہوتا ہے، ریاست اور عوام کی فلاح کے لئے ایک لائحہ عمل بنتا ہے کہ اگر حکومت ملی تو کرنا کیا ہے اور کیسے کرنا ہے-جمہوری روایات کی شروعات سیاسی جماعتوں کے اندر سے ہوتی ہے-
قدرت کی کارسازی میں ہمارے لئے سب سے نمایاں نشانی پابندی، ربط اور سلیقہ ہے- تنوع ہے-جیسےاچھی موسیقی تان اور سر کا ملاپ ہوتی ہے ،اچھوتی تحریر الفاظ اور پیراگراف کا ربط ھوتی ہے – ایسے ہی خواہشات اور کام کے طریقہ کار میں ربط ہونا چاہیے- سوچ وچار اور مثبت رویوں سے کسی بھی مسئلے پر قابو پایا جا سکتا ہے- نیک نیتی سے بنائی گئی پالیسی ناکام ہو ہی نہیں سکتی چاہے وہ کتنی بھی خراب کیوں نہ ہو- اور بدنیتی سے بنائی گئی پالیسی کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی چاہے وہ کتنی بھی اچھی کیوں نہ ہو- ہر جھوٹ اور سازش بالآخر آشکار ہو جاتی ہے- دخل اندازی چھوڑیں اور اپنا کام کریں-

https://twitter.com/hashtag/Pakistan

https://twitter.com/hashtag/Column

https://twitter.com/hashtag/Politics

You might also like