چین کے بڑے شہر اپنے ہی وزن سے دب رھے ہیںTransformation of Political Conflictوفاقی کابینہ نے نجی یونیورسٹیوں اور دیگر تمام اداروں کیلئے لفظ نیشنل استعمال کرنے پر پابندی عائد کردی‏عوامی اضطراب- کیا وجہ؟‏چین میں سیلاب‏Ubermenschپونے دوپاکستان میں ہر سال 10 لاکھ مکانات کی ضرورت ہےایران نے اسرائیل پر ڈرون اور میزائیلوُں سے حملہ کر دیا ہےگوجرانوالہ- سیالکوٹ- وزیر آباد- گجرات اور لالہ موسی، بنا بنا اکنامک زونسیاچن کے محاز پر پاکستان کی فوجپاکستان کے شمالی علاقہ جاتمعاشرے کی سوچ کو بدلنا ریاست کو ماڈرن بنانے سے کہیں زیادہ ضروری ہےمعاشرےمعاشرے کی سوچ کو بدلنا ریاست کو ماڈرن بنانے سے کہیں زیادہ ضروری ہےاگر ہمّت ہو تو معزوری کوئی رکاوٹ نہیں ہوتیمیلہ 6 ستمبروہ لمحہ جب 7.4 شدت کے زلزلے نے تائیوان کو ہلا ڈالامہنگائی کی شرح ۲۰% پر آ گئی-اپنی صحت کا خیال رکھیں- سوشل میڈیا سے دور رہیںصدر ارگان کی پارٹی کو ترکی میں بلدیاتی انتخابات میں شکستافغان سرزمین دہشتگردوں کی محفوظ آماجگاہ ہے ؛ فنانشل ٹائم

پاکستان سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور حکومت پر ایک نظر یاد تو آتی ہو گی

11 اگست 1943 کو دہلی میں پیدا ہونے والے جنرل (ر) پرویز مشرف نے 1999 میں نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ کر ، ملک میں مارشل لاء لگا کر چیف ایگزیکٹو کا عہدہ سنبھالا تھا اور یوں وہ 2001 سے 2008 تک صدر پاکستان کے عہدے پر براجمان رہے۔

پرویز مشرف کی ترجیحات
نچلی سطح پر اقتدار کی منتقلی کے ذریعے لوگوں کو بااختیار بنانا۔

حکومت اور مقننہ کے تمام درجوں پر خواتین کو بااختیار بنانا۔

غیرت کے نام پر قتل کے خلاف قانون سازی کی گئی ، اور "تحفظ خواتین بل” پاس کرایا گیا۔

مشترکہ رائے دہندگان کے ساتھ ساتھ مخصوص نشستوں کے ذریعے اقلیتوں کو بااختیار بنایا گیا۔

ووٹر کی عمر 21 سے کم کر کے 18 سال کر کے نوجوان نسل کو بااختیار بنانا۔

پریس اور پرنٹ میڈیا کی مکمل آزادی اور معلومات تک رسائی کی اجازت دے کر میڈیا کو بااختیار بنایا۔

وسیع پیمانے پر معاشی اصلاحات کے ذریعے معیشت کو مستحکم کیا۔

سائنس ، ٹیکنالوجی ، تعلیم اور صحت کے شعبوں کے لیے ریکارڈ رقم مختص کی گئی۔ انسانی وسائل کی ترقی پر زور دیا۔

آزادانہ، منصفانہ، شفاف اور پرامن انتخابات ان کی خاص ترجیحات میں تھا۔

مشرف دور میں پاکستان نے لبرلائزیشن، ڈی ریگولیشن اور نجکاری کی مستقل اور سازگار پالیسیوں پر عمل کیا۔

معاشی بحالی، ادارہ جاتی اصلاحات اور گڈ گورننس ان کی ترجیحات میں شامل تھیں۔

معاشی بحالی کے لیے، حکومت نے میکرواکنامک پالیسی متعارف کرائی ، اور پائیدار ترقی کے لیے خود ساختہ اصلاحات متعارف کرائیں۔

جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے صرف چار سال کے عرصے میں پاکستان کی شرح نمو ترقی کرتے ہوئے 7 فیصد پر پہنچ گئی اور یہ ترقی 2004 اور 2005 میں 9 فیصد کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔

صنعتوں کی پیداواری نمو 1999-00 میں 3.6 فیصد تھی جو تیزی سے ترقی کرتی ہوئی 2000-07 میں 11.31 سالانہ تک پہنچ گئی۔

تجارتی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں اضافے کے باوجود شرح مبادلہ مستحکم رہی جو واضح طور پر بیرونی وسائل کی مضبوط آمد کی نشاندہی کرتی تھی۔

مشرف دور میں زرمبادلہ کے ذخائر 16 بلین امریکی ڈالر سے تجاوز کر چکے تھے جبکہ فی کس آمدنی 526 امریکی ڈالر سےبڑھ کر 925 امریکی ڈالر تک پہنچ گئی تھی۔

ریونیو کلیکشنز
محصولات 1999 میں 308 ارب روپے سے بڑھ کر 2007 کے دوران 846 ارب روپے تک پہنچ گئے۔

جی ڈی پی
جی ڈی پی کی نمو جو کہ 1999-00 میں 3.9 فیصد تھی 2000-07 کے دوران اوسطاً 6 فیصد سالانہ کی شرح سے بڑھی۔

ایف ڈی آئی
1988-99 کےدوران غیرملکی سرمایہ کاری 4.87 ارب ڈالر تھی جو مشرف کے دور اقتدار میں بڑھ کر 13.195 ارب ڈالر تک پہنچ گئی۔

مائیکرو کریڈٹ اور لون
معاشرے کے نچلے طبقے کو ترقی دینے کے لیے 11.454 ارب روپے کے قرضے فراہم کیے گئے۔

کاشتکاروں کو 596.44 ارب روپے کے زرعی قرضے فراہم کیے گئے۔

اسٹاک مارکیٹ
12 اکتوبر 1999 میں کے ایس ای 100 انڈیکس 1,257 پوائنٹس پر اسٹینڈ کررہا تھا جبکہ 2006-07 کے اختتام پر کے ایس ای 100 انڈیکس 13 ہزار 772 پوائنٹس پر اسٹینڈ کررہا تھا۔

غیر ملکی قرضوں کی حالت
1989-99 کے 11 سالوں کے دوران غیر ملکی قرضوں اور واجبات میں اوسطاً 7.4 فیصد سالانہ کی شرح سے اضافہ ہوا۔ 1989 میں کل قرضہ 20.522 بلین ڈالر تھا جو 1999 میں بڑھ کر 38.922 بلین ڈالر ہو گیا۔

اگر یہ سلسلہ جاری رہتا تو پاکستان کے بیرونی قرضے اور واجبات 60 ارب ڈالر سے تجاوز کرجاتے مگر مشرف دور میں بیرونی قرضے گھٹ کر 38.86 بلین ڈالر تک پہنچ گئے۔

تعلیم کا پھیلاؤ
81 نئی یونیورسٹیاں بشمول ڈگری دینے والے ادارے (DAI) اور 14,117 اسکول/کالج کھولے گئے۔

ضرورت مند طلباء کو 1,267,519 وظائف دیئے گئے۔

47,546,520 طلباء کو کتابیں مفت فراہم کی گئیں۔

تعلیمی اداروں میں 127,623 مسنگ سہولیات فراہم کی گئیں۔

خواتین کو بااختیار بنانا
خواتین کی ترقی اور بااختیار بنانے کی قومی پالیسی کا اعلان 7 مارچ 2002 کو کیا گیا۔

قومی اسمبلی میں خواتین کی 20% نشستوں کی ریزرویشن (60 مخصوص نشستوں کے مقابلے میں قومی اسمبلی کی 72 خواتین اراکین تھیں)۔

سینیٹ میں خواتین کے لیے 18% نشستیں ریزرویشن (سینیٹ کی 17 خواتین اراکین تھیں)۔

صوبائی اسمبلیوں میں خواتین کی نشستوں کا تحفظ (128 مخصوص نشستوں کے مقابلے میں صوبائی اسمبلیوں کی 139 خواتین اراکین تھیں)۔

خواتین کی قانونی اور سماجی بااختیاری
فوجداری قانون (ترمیمی) ایکٹ، 2004 (غیرت کے نام پر قتل بل) نافذ ہوا۔

سنٹرل سپیریئر سروسز سمیت سرکاری ملازمتوں میں خواتین کے لیے کوٹہ کا مختص کیا گیا۔

صدارتی آرڈیننس 8 جولائی 2006 کو جاری کیا گیا، "ضابطہ فوجداری (ترمیمی) آرڈیننس، 2006” نے دہشت گردی اور قتل کے استثناء کے ساتھ تمام الزامات میں قید خواتین کے لیے ضمانت کی اجازت دی۔ 6000 سے زیادہ جیل میں بند خواتین میں سے تقریباً 1000 کو رہا کر دیا گیا۔

خواتین کے تحفظ کا ایکٹ، 2006 جو پاکستان کی ترقی کے لیے خواتین کو برابر کے شراکت دار کے طور پر کام کرنے کے لیے ایک منصفانہ اور محفوظ ماحول فراہم کرتا ہے۔

غربت کا خاتمہ
حکومت کی کوششوں کے نتیجے میں غربت جو 2001 میں 34.4 فیصد تھی ، 2005 میں 23.9 فیصد تک کمی لائی گئی۔

اس طرح ایک کروڑ 27 لاکھ (12.7 ملین) لوگ غربت کی لکیر سے باہر آگئے۔

بجلی اور گیس کی فراہمی – 1999-2007

ولیج الیکٹریفیکیشن (واپڈا):
1947-1999 کے دوران بجلی سے چلنے والے دیہات: 67,180

1999-2007 کے دوران بجلی سے چلنے والے دیہات: 54,50

نئے کنکشن لگائے گئے: 1.36 ملین

نئے کنکشنز سے فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد : 9.53 ملین

کل رقم خرچ کی گئی: 26.60 بلین روپے

گیس کی فراہمی:
1999 سے 2007 تک 11 ہزار 494 قصبوں ، دیہاتوں اور دیگر علاقوں کو گیس فراہم کی گئی۔

خارجہ پالیسی کے مقاصد اور چیلنجز

علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر ایک پرامن ماحول کو فروغ دینے اور پاکستان کی سماجی، اقتصادی اور تکنیکی ترقی کے لیے سازگار ماحول پیدا کیاگیا۔

تنازعات خاص طور پر جموں و کشمیر کا پرامن حل تلاش کرنے کی کوشش کی گئی۔

علاقائی امن و سلامتی

بھارت کے ساتھ کشیدگی کو کم کرنے اور پاک بھارت تعلقات کو استوار کرنے کی کوشش کی گئی تاکہ دونوں ممالک اور خطے کے مفاد میں بہترہو۔

مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کے لیے صدر پرویز مشرف نے بھارت کا دورہ بھی کیا ، وہ الگ بات کہ بھارتی ہٹ دھرنی کی وجہ سے مسئلہ جوں کا توں رہا۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارت میں اضافہ ہوا ہے۔ لیکن تجارت اور بات چیت خاص طور پر ثقافتی شعبوں میں اعتماد کا فقدان رہا۔

صوبوں کا مخصوص ڈیٹا
بلوچستان سب سے کم ترقی یافتہ صوبہ ہونے کی وجہ سے ترقی پر خصوصی توجہ دی گئی۔

1999-07 کے 8 سالوں کے دوران بلوچستان میں وفاقی منصوبوں کے لیے 108.3 ارب روپے مختص کیے گئے۔

بلوچستان میں مختلف شعبوں میں 185 ترقیاتی منصوبے شروع کیے گئے۔ ان پر 216 ارب روپے لاگت کا تخمینہ لگایا گیا تھا۔

2006-07 کے دوران ان منصوبوں کے لیے 30.6 بلین روپے مختص کیے گئے تھے، مالی سال (2007-08) کے لیے PSDP میں 46.60 بلین روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔

ڈیمز
میرانی ڈیم کو (مکمل) کیا گیا۔

سبکزئی ڈیم کو (مکمل) کیا گیا۔

کوئٹہ شہر / گردونواح میں پینے کے پانی کو ذخیرہ کرنے اور سپلائی کے لیے منگی ڈیم اور پانی کی ترسیل کا نظام وضع کیا گیا۔

غربت کا خاتمہ
زرعی ترقیاتی بینک اور خوشحالی بینک کی جانب سے 514 ملین روپے مائیکرو کریڈٹ لون کے طور پر فراہم کیے گئے۔ تمام بینکوں کو چھوٹے کاروباری اسکیموں کے لیے ضرورت مند لوگوں کو مائیکرو کریڈٹ دینے کی اجازت دی گئی۔

4,026 ملین روپے ضرورت مند کسانوں کو زرعی قرضے کے طور پر فراہم کرتے ہیں۔

صوبائی بیت المال نے 1999 سے 2008 تک 603,648 ضرورت مند خاندانوں میں 950 ملین روپے تقسیم کیے ہیں۔

مشرف دور کے تاریک پہلو
جنرل (ر) پرویز مشرف نے 12 اکتوبر 1999 کو نواز شریف کی حکومت کو معزول کرکے ملک میں مارشل لاء نافذ کردیا۔ آئین کو معطل کردیا گیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے کوچیئرمین آصف علی زرداری ، میاں محمد نواز شریف سابق وزیراعظم ، میاں شہباز شریف سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور کئی دیگر رہنماؤں کو پابند سلاسل کردیا گیا۔

میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کو فیملی کو زبردستی جلاوطنی پر مجبور کیا گیا۔

بلوچستان میں آپریشن کرکے نواب اکبر بگٹی کو شہید کردیا گیا ، جس کے بعد آج تک بلوچستان کے حالات اپنی ڈگر پر نہیں آسکے۔

میڈیا پر قدغن لگا دی گئی ، یہاں تک کے پاکستان کے سب بڑے میڈیا ہاؤس جنگ اور جیو نیوز پر بین لگا دیا گیا جس کے وجہ سے جیو نیوز کی نشریات 3 ماہ تک معطل رہیں۔

کئی صحافیوں کو بین کیا گیا اور متعدد سینئر صحافیوں کو قیدوبند کی صوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔

مشرف نے 2002 میں آئین کو بحال کیا، قانونی فریم ورک آرڈر (LFO) کے ذریعے 1973 کے آئین میں متعدد ترامیم کی گئیں۔ پارلیمانی انتخابات اکتوبر 2002 میں ہوئے اور 2003 کے آخر میں قانون ساز اسمبلی نے LFO کی بیشتر دفعات کی توثیق کر دی تھی۔

2007 میں جنرل پرویز مشرف نے ایک مرتبہ پھر صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کی کوشش کی ، مگر اس مرتبہ سپریم کورٹ نے اپنے آرڈر میں کہا کہ آئین کے مطابق کوئی شخص صدر اور سرکاری عہدہ ایک ساتھ نہیں رکھ سکتا ، جنرل مشرف چیف جسٹس کو معطل کرنے کے احکامات جاری کردیے ، تاہم عدالت نے چیف جسٹس کو معطل کرنے کی کوشش ناکام بنا دیا۔

نومبر میں ایک مرتبہ پھر جنرل (ر) پرویز مشرف نے آئین کو معطل کرتے ہوئے ایمرجنسی کا نفاذ کردیا۔

اپوزیشن کے سیاسی رہنماؤں کو گرفتار کیا، اور آزاد پریس اور میڈیا پر پابندیاں لگائیں۔ اس مہینے کے بعد ازسر نو تشکیل شدہ سپریم کورٹ نے ان کے دوبارہ انتخاب کے آخری قانونی چیلنجوں کو مسترد کر دیا، اور انہوں نے سویلین صدر بننے کے لیے اپنے فوجی عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ مشرف نے دسمبر کے وسط میں ایمرجنسی کا خاتمہ کر دیا، حالانکہ آئین کو بحال کرنے سے پہلے، انہوں نے اس میں کئی ترامیم کیں جو ایمرجنسی کے دوران نافذ کیے گئے اقدامات کو تحفظ فراہم کرتی تھیں۔

اور بلاآخر فروری 2008 کے عام انتخابات میں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف عوام نے مسترد کردیا۔ اگست 2008 میں پرویز مشرف کے خلاف مواخذے کی کارروائی شروع کی گئی ، جس کے بعد انہوں نے خودساختہ جلاوطنی اختیار کرلی۔#Karachi ‎#PervezMusharraf‎#Dubai ‎

You might also like