وفاقی کابینہ نے نجی یونیورسٹیوں اور دیگر تمام اداروں کیلئے لفظ نیشنل استعمال کرنے پر پابندی عائد کردی‏عوامی اضطراب- کیا وجہ؟‏چین میں سیلاب‏Ubermenschپونے دوپاکستان میں ہر سال 10 لاکھ مکانات کی ضرورت ہےایران نے اسرائیل پر ڈرون اور میزائیلوُں سے حملہ کر دیا ہےگوجرانوالہ- سیالکوٹ- وزیر آباد- گجرات اور لالہ موسی، بنا بنا اکنامک زونسیاچن کے محاز پر پاکستان کی فوجپاکستان کے شمالی علاقہ جاتمعاشرے کی سوچ کو بدلنا ریاست کو ماڈرن بنانے سے کہیں زیادہ ضروری ہےمعاشرےمعاشرے کی سوچ کو بدلنا ریاست کو ماڈرن بنانے سے کہیں زیادہ ضروری ہےاگر ہمّت ہو تو معزوری کوئی رکاوٹ نہیں ہوتیمیلہ 6 ستمبروہ لمحہ جب 7.4 شدت کے زلزلے نے تائیوان کو ہلا ڈالامہنگائی کی شرح ۲۰% پر آ گئی-اپنی صحت کا خیال رکھیں- سوشل میڈیا سے دور رہیںصدر ارگان کی پارٹی کو ترکی میں بلدیاتی انتخابات میں شکستافغان سرزمین دہشتگردوں کی محفوظ آماجگاہ ہے ؛ فنانشل ٹائمچولستان میں زمینوں کو آباد کرنے کا منصوبہسائنوٹیک سولر پرائیویٹ لمیٹڈ کی پاکستان میں سرمایہ کاری

رچرڈ نکسن کی ” لیڈرز”

ورلڈ وار ون کی تباھی سے دنیا ابھی پوری طرح سنبھل بھی نہ پائی تھی کہ ورلڈ وار ٹو نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا- ورلڈ وار ٹو میں جرمنی، فرانس، جاپان، تباھی کی زد میں آئے اور جنگ کے بعد امریکہ اور روس میں شروع ہونے والی کولڈ وار نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا- جیو پالیٹکس ، کولڈ وار دور کی ہی سوچ ہے- اسی دور میں rationale choice کا آغاز ہوا اور خارجہ پالیسیاں دباؤ کا شکار ہوئیں- یہی وہ مشکل دور ہے جس میں ونسٹن چرچل، ڈیگال، یوشیدہ، ایڈنار، ژواین لائی، ماؤزے تنگ، خروشیف اور برزنیف جیسے لیڈروں نے دنیا کو اندھیروں سے نکالنے کی جدوجہد شروع کی- چین، جاپان، روس، امریکہ، برطانیہ کے یہ لیڈر اپنی قوموں کو دوام بخش گئے-
امریکی سابقہ صدر رچرڈنکسن کی تصنیف
‏” Leaders” اپنے وقت کے پراثر عالمی لیڈروں کی سوچ اور زندگیوں کا احاطہ کرتی ہے- ورلڈ وار ٹو کے بعد ان عالمی لیڈروں نے دنیا کو نئے سرے سے ترقی کی راہ پر ڈالا- مغرب معاشرے ترقی کر گئے اور مشرق اسی ادھیڑ بن میں رھا کہ ہم نے کس کا ساتھ دینا ہے- آج ہم اسی ادھیڑ بن کا خراج ادا کر رھے ہیں –
افراتفری کے آج کے دور میں عالمی اور قومی سطح کے بحرانوں سے نمٹنے کے لئے جس دانشمند قیادت کی دنیا کو ضرورت وہ ناپید ہے- یا شاید یہ کہنا بھی بجا ہے کہ موجودہ بحران پیدا ہونے کی وجہ عالمیاور ملکی قیادت میں دور اندیشی کا فقدان، مسئال کے حل کے لئے غیر سنجیدہ رویہ اور غیر ضروری اھداف کا تعین ھے-
رچرڈ نکسن اپنی کتاب ” لیڈرز” میں لکھتے ہیں کہ عظیم قیادت دراصل ایک منفرد فن ھے جس کے لئے نہ صرف بے انتہا طاقت بلکہ اولین مقصد بھی درکار ھوتا ھے۔
لیڈر کی سوچ کا دائرہ نہ ھی محدود ھوتا ھے اور نہ ھی غیر لچکدار کیونکہ اس کا ھدف شخصی نھی عوامی مفاد ھوتا ھے۔ اس کا مطمع نظر لاکھوں ،کروڑوں زندگیوں کی حفاظت اور ان کو روز مرہ زندگی کے وسائل مہیا کرنا ھے –
یہ صیح ھے کہ ریاست کی ترقی کا دارو مدار ، اداروں کی مضبوطی میں پنہاں ھے۔ لیکن آپ جرمنی کی انجیلا مرکل ، برطانیہ کی مارگریٹ تھیچر ،موجودہ چینی صدر شی جنگ کی شخصیت اور ۱ن کے سیاسی کردار کو سامنے رکھیں تو اندازہ ھو گا کہ لیڈر کی شخصیت کس قدر ملکی ترقی پر اثر انداز ھوتی ھے۔
وہ قومیں بہت خوش قسمت ھوتی ہیں جن کی سیاسی قیادت اکٹھے ھو کر ان کے مفاد لئے سوچے۔ مشہور کتاب ” قومیں کیوں فیل ھوتی ہیں ” میں اسی غلطی کی نشاندھی کی گئی ھے کہ عوامی مفاد کے لئے فیصلے نہ کرنا قوموں کے زوال کی سب سے بڑی وجہ ھے۔
پاکستان کی سیاست بہت خطرناک طریقے سے بٹی ھوئی ھے اور اس کی بڑی وجہ ذاتی سیاسی مفادات ہیں۔
رچرڈ نکسن نے اپنی کتاب میں جن عظیم لیڈروں کے کردار کا احاطہ کیا ھے۔ ان سب میں ایک چیز مشترک تھی۔ وہ اپنے ملک اور عوام کے لئے بے لوث خدمت کا جزبہ رکھتے تھے اور اپنے ملک اور قوم کے لئے کوئی بھی قربانی دینے کو تیار تھے۔ان عظیم لیڈروں نے اپنے ملکوں اور قوموں کو مشکلات سے نکالنے کے لئے خود غرضی کی چادر پھینک کر انتہائی جزبے سے کام کیا۔

رچرڈ نکسن ، چرچل کا ذکر کرتے ھوئے لکھتے ہیں ونسٹن چرچل نے کبھی بھی ذاتی مفاد کے لئے طاقت کی جستجو نھی کی ، چرچل کا مطمعہ نظر ھمیشہ قومی اور ملکی مفاد تھا اور یہی اس کی کامیابی کا راز تھا۔
فرانس کے صدر چارلس ڈیگال کا ذکر کرتے ھوئے نکسن لکھتے ہیں ڈیگال ایک انتہائی بے غرض اور مضبوط کردار کے لیڈر تھے- دس سال سے زائد عرصہ فرانس کے صدر رھے ، ھمیشہ فرانس اور فرانسیسی عوام کا مفاد مد نظر رکھا – ترقی یافتہ فرانس کی داغ بیل ڈالی
جنرل ڈگلس مکارتھر جو کہ امریکی تھے لیکن جنگ عظیم دوئم کے بعد ان کو جاپان کی نئے سرے سے تعمر وترقی کا کام ملا جسے انہوں نے آٹھ سال کے انتہائی قلیل وقت میں بے لوث جزبے سے دن رات محنت کر کے پورا کر دیا۔
کیا خود غرضی کی چادر میں لپٹی ھماری سیاسی قیادت کی بے حسی ھمارے روشن مستقبل کا تعین کرپائے گی۔ کیا روزانہ کا شکوہ اور جواب شکوہ ان مسائل کا حل ہے۔

مشکل حالات سے نکلنے کے لئے لیڈر کا کردار بہت اھم ھوتا ھے۔ لیڈر مسائل کی وجہ نھیں ، مسائل کا حل بنتے ہیں۔وسیع سوچ اور دور اندیشی لیڈر کا طرہ امتیاز ھے۔ لیڈر ماضی سے سبق سیکھتا ھے، موجودہ حالات کا تجزیہ کرتا ھے اور پھر مستقبل لا لائحہ عمل تیار کرتا ھے۔
۰-۰-۰-۰-
ڈاکٹر عتیق الرحمان