‏فوج کے ماتحت فلاحی اداروں کے ٹیکس اور اخراجات بارے میرے سوال پر ترجمان افواج پاکستان میجر جنرل احمد شریف نے پاک فوج اور اس کے فلاحی اداروں کی طرف سے ادا کیے جانے والے ٹیکسز کی تفصیلات بھی پیش کردیںفوج‏فوج کے ماتحت فلاحی اداروں کے ٹیکس اور اخراجات بارے میرے سوال پر ترجمان افواج پاکستان میجر جنرل احمد شریف نے پاک فوج اور اس کے فلاحی اداروں کی طرف سے ادا کیے جانے والے ٹیکسز کی تفصیلات بھی پیش کردیںسینٹکام کے کمانڈر جنرل مائیکل ایرک کوریلا کا جی ایچ کیو کا دورہ، آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر سے ملاقات، باھمی دلچسپی کے امور بالخصوص علاقائی سلامتی کے معاملات میں تعاون پر تبادلہ خیالLeadership Dilemmaنیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد میں پاک برطانیہ علاقائی استحکام کے موضوع پر چھٹی (6)کانفرنس منعقد ہوئیچین کے بڑے شہر اپنے ہی وزن سے دب رھے ہیںTransformation of Political Conflictوفاقی کابینہ نے نجی یونیورسٹیوں اور دیگر تمام اداروں کیلئے لفظ نیشنل استعمال کرنے پر پابندی عائد کردی‏عوامی اضطراب- کیا وجہ؟‏چین میں سیلاب‏Ubermenschپونے دوپاکستان میں ہر سال 10 لاکھ مکانات کی ضرورت ہےایران نے اسرائیل پر ڈرون اور میزائیلوُں سے حملہ کر دیا ہےگوجرانوالہ- سیالکوٹ- وزیر آباد- گجرات اور لالہ موسی، بنا بنا اکنامک زونسیاچن کے محاز پر پاکستان کی فوجپاکستان کے شمالی علاقہ جاتمعاشرے کی سوچ کو بدلنا ریاست کو ماڈرن بنانے سے کہیں زیادہ ضروری ہےمعاشرےمعاشرے کی سوچ کو بدلنا ریاست کو ماڈرن بنانے سے کہیں زیادہ ضروری ہےاگر ہمّت ہو تو معزوری کوئی رکاوٹ نہیں ہوتیمیلہ 6 ستمبروہ لمحہ جب 7.4 شدت کے زلزلے نے تائیوان کو ہلا ڈالا

تہتر (۷۳) لانگ کورس

رپورتاژ
(عتیق الرحمان )

یہ خاص طور پر اُن 311 کی کہانی ہے جو ۱۳ مارچ ۱۹۸۶ کو بارش ھونے کے باعث ڈرل گراؤنڈ کی بجائے بٹالین میس میں پاس آؤٹ ھوئے-
لیکن یہ ہر پاکستانی فوجی آفیسر کی آپ بیتی بھی ہے – یہ ان لمحوں کی کہانی ھے جو پاکستان کے ہر خطے اور طبقے سے آئے اٹھارہ، انیس سال کے نوجوانوں کو ایک لڑی میں پرو دیتی ہے اور پھر مرنے تک وہ اس لڑی میں بندھے رھتےہیں-
پنجاب میں ایک روایت ھے کہ جب کسی کی شادی پر بارش ھو تو توقع کی جاتی ہے کہ اس دونوں فریقین میں سے ایک نے ھانڈیان چاٹی ھون گی- تہتر نے شاید خالد پلاٹوں کی ٹی بریک پر یلغار کا خراج عطا کیا-

چالیس سال تک فرائض کی ادائیگی کے بعد بالآخر شطرنج کے مہرے واپس اپنے اپنے خا نوں میں پارک ھو چکے ہیں- OEI سے میڈیکل prescription تک ، جی سی نمبر سے لے کر دادا ابو ، نانا ابو بننے تک کا سفر انتہائی دلچسپ اور پرلطف رھا- بے شک تم اپنے اللہ رب کی کن کن نعمتوں کا شکر بجا لاؤ گے-
یہ تہتر کی کہانی کا دوسرا سیزن ھے-
جتنے بھی پتنگ باز سجناں ہیں ان کو پتا ھو گا کہ کوئی پتنگ لپھو ھوتی ہے تو کوئی کنی مارتی ہے- جب پی ایم اے میں داخل ہوئے تھے تو وھی لپھو اور کنی مارنے والی پتنگیں تھیں – بڑی محنت سے سٹاف ، پلاٹون کمانڈروں، چاچوں نے مل کر ہوا کے ساتھ اونچا اڑنے والا گُڈا بنایا- جس کی جتنی اڑان تھی خوب اڑا – بو کاٹا تو بسنت کی رونق ہے- اگر بو کاٹا نہیں ہو گا تو نئے گڈے کیسے اپنا رنگ جمائیں گے- اڑتی پتنگ کا پیچے ڈال کر کٹ جانا اچھا شگن ہے-
‏Spinoza ، بہت بڑا فلاسفر تھا، کہتا ہے کہ life is all about understanding””
میں Spinoza کے خیالات کی برابری نہیں کر سکتا – وہ صیح کہتا ہے- میرا ماننا ہے کہ زندگی میں تشکر بھی ضروری ہے- شکر اس ذات کا جس نے یہ زندگی کی نعمتیں عطا کیں اور سمجھ بوجھ عطا کی، جس کی بدولت ہم یہ زندگی کا سفر طے کر پائے- زندگی ،سمجھ بوجھ اور تشکر کا نام ہے- دونوں ایک دوسرے کو دوام بخشتے ہیں –
پی ایم اے تک پہنچنے سے پہلے ایک مختصر اور بے فکر لڑکپن تھا- پھر بھر پور تیاری کروا کے پہلوانوں کو بڑی کُشتی کے لئے اکھاڑۓ میں اتارا گیا- عمر کا یہی حصہ دراصل حاصل زندگی ہے- زندگی کے باقی رہ جانے والے ماہ و سال، سیاچن کی بلندیوں ، لائن آف کنٹرول، صحراؤں، سندھ کے جنگلوں، فاٹا، مغربی سرحد پر گزرے پُر مسرت اور فخریہ لمحوں کو یاد کر کے گزاریں گے- ان تمام مورچوں پر آج بھی ھماری سپاہ مورچہ زن ہے ، جہاں کبھی ہم تھے یا ہم سے پہلے تھے- یہ فرائض کی ادائیگی کا سلسلہ ہی قوموں کو دوام بخشتا ہے-
ریٹائر منٹ اور موت سب کو برابر ٹریٹ کرتی ھیں –
ریٹائرمنٹ کے بعد سب سے بڑا جھٹکا این سی بی سے دستبرداری ہے- والدین کی دعاؤں کے بعد سب سے بڑا سہارہ این سی بی ہی رھا- آپ کی ہر مشکل میں مدد کرتا ہے- – آپ جب دن رات سرکاری کام میں یا کورس میں پڑھائی میں مصروف ہوتے ہیں تو وہی آپ کے انتظام و انصرام کا خیال ماں کی طرح رکھتا ہے- رات کو دو بجے بھی آئیں تو وہ انتظار کرتا ہوا ملے گا-
فوجی زندگی میں مجھے جو یاد بہت ستاتی ھے وہ موسم سرما اور گرما کی سالانہ مشقیں ہیں- تقریبا جنگ کا ماحول – ہر سال دو دفع سامان باندھ کر اور harness yoke پہن نکل کھڑے ھوتے – سردیوں کی یخ بستہ راتوں میں نائٹ مارچ، لانگ مارچ ، پٹرولنگ، نائٹ اٹیک ،دن کو فیلڈ فائرنگ ، ریکیاں، TEWTs, فیلڈ میس کا کھانا،اور پھر رات گئے تک اپریشن روم اور اگلے دن کی تیاریاں ، گرمیوں میں آگ کی طرح تپتے اور سردیوں میں برف کی طرح ٹھنڈے ٹینٹ-
ہم 1986 میں تازہ تازہ لفٹین بنے ہی تھے کہ نومبر ،دسمبر میں بھارتی دھمکیوں نے ھمیں اگلے مورچوں پر پہنچا دیا- پاکستان سب کچھ سہہ لیتا ھے لیکن بھارتی گیدڑ بھبھکیوں کو برداشت نہیں کرتا-
پاکستان نے کبھی بھی بھارت کو پھن پھیلانے کا موقع نہیں دیا-
وہ ہمارے لئے پہلا موقع تھا-پھر ہماری زندگی چل پڑی اور اتنی تیز چلی کہ تھمنا مشکل تھا- ایک ٹرنک تھا، جس پر ہمارا نام لکھا ھوا تھا، بستر بند ، ہم اور ہمارا یار این سی بی- سفر میں ہی رھے- پہنچتے بعد میں تھے، اگلی منزل کا پروانہ پہلے مل جاتا تھا
ایبٹ آباد شہر کے عین اوپر "سربن ڈھاکا” ہے- جی ، یہ پہاڑ کا نام – آپ پی ایم اے کے odd کورسز سے پوچھیں کہ "سر بن ڈھاکا” کیا ہے- اور even کورسز سے "منگل نالے ” کا پوچھ لیں – ھزاروں کہانیاں ان راستوں پر بکھڑی پڑیں ہیں-بلند پہاڑوں کو دور سے دیکھنا اور big pack اور ایل ایم جی کے ساتھ ان کو عبور کرنا دو مختلف چیزیں ہیں- دوسری ٹرم میں یرموک اور باکسنگ ، دو شگن ہیں ، جن کو پورا کئے بغیر آپ فوجی افسر نہیں بن سکتے ہیں – یرموک سادہ ترین الفاظ میں بھی، بڑے پٹھو کے ساتھ، انتہائی کٹھن پیدل مارچ ھے جو پانچ دن جاری رھتا ھے- یر موک ( yarmoke) کے شروع ھونے کے دو گھنٹے بعد ہی سربن ڈھاکا متھے لگ گیا – سربن ڈھاکا کے درمیان تک پہنچتے پہنچتے میں فیصلہ کر چکا تھا کہ ” بس اب اور نہیں” – یہ تو یاروں کی یاری ہے جو آخر تک چلتے رھے- یرموک جب پانچ دن بعد ختم ھوتی ہے تو قدم حقیقتا ” آبلہ پا” ہو چکے ھوتے ہیں-۱۹۸۴ دسمبر میں سربن ڈھاکا اور پی ٹی گراؤنڈ میں دوڑے ون میل ،پش اپ، بیم اور سب سے بڑھ کر مشکل حالات میں مستقل مزاجی کے ساتھ کھڑے رھنے کا اعتماد جو پی ایم اے میں ملا، اسی نے باقی فوجی زندگی میں چیلنجز کا سامنا کرنے کا حوصلہ دیا-
کہتے ہیں جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں ، بالکل ایسا ہی ھوتا ھو گا- ہمیں تو اتنا علم ھے کہ باکسنگ pair پی ایم اے اور میں بنتے ہیں- باکسنگ کا نتیجہ اتنا اھم نہیں ھوتا بس معرکہ ذرا مشکل ھوتا ھے- مکے مارنے اور کھانے ہیں- ھوتے تو تین منٹ ھی ہیں لیکن ان تین منٹوں کا دورانیہ ماپنا گھڑی کے بس کی بات نہیں- ایک میل ٹیسٹ بھی پانچ منٹ بیس سیکنڈ میں کرنا ھوتا ھے لیکن ان پانچ منٹ اور بیس سیکنڈ کا حساب رکھنا بھی گھڑی کے بس کی بات نہیں- تمام فوجی ادارے لمحوں کو گھڑی سے نہیں ، آپ کی جرات سے ماپنے کی عادت ڈالتے ہیں – اور یہی سولجرز کا سرمایہ حیات ھے-
کپتانی سے میجر اور پھر آگے کا سفر بھر پور مصروفیت کا دور تھا- دفتر، مشقیں، فائرنگ، کورسز- ہم ان خوش قسمت سپاھیوں میں سے ہیں جہنوں نے روائتی جنگ ، اور دھشت گردی کے خلاف غیر روائتی جنگ ، موسم سرما اور گرما کی مشقیں ، مشرقی، مغربی، میدانی اور صحرائی علاقے اور جنگل ، ہر جگہ فرائض انجام دیئے- بال سفید بھی ہوئے، گرتے بھی رھے، وزن بڑھتا رھا- ایک ایک لمحہ فخر ، خوشی اور عاجزی کا تھا- سپاھی ھونے کا فخر صرف ایک سپاھی ھی سمجھ سکتا ھے- اپنے وطن کی خاطر، مورچے میں دشمن کی طرف منہ کر کے اندھری رات ، بیس ھزار فٹ بلند گلئسیر پر ،منفی درجہ حرارت، میں بندوق تانے کھڑا رھنے کے فخر کو لفظوں میں بیان نہیں کر سکتے- یہ کوئی احسان نھیں تھا فرض تھا- جسے آج بھی یاد کر کے سینہ فخر سے چوڑا ھو جاتا ھے-
جھپٹنا ، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ-
میجر بننے کے بعد کھلنڈرے پن سے نکل کر ایک ذمہ دارفوجی آفیسر کی زندگی شروع ہو چکی تھی- ایک قلیل تنخواہ میں میس کا بل اور گھر کا خرچہ چلانے والا دور تھا- اللہ کا شکر ہے اس نے ھمت دی -رینک پروموشن زندگی کا حصہ ہے، سب نے اپنا اپنا فرض خوب نبھایا- جو ھم سے جدا ھو کر ابدی سفر پر روانہ ھو چکے ہیں، اللہ تعالی ان کے درجات بلند کرے-
تہتر 73 لانگ کورس کو اللہ تعالی نے بہت عزت بخشی- سب سے بڑھ کر بھائی چارہ ، رواداری اور محبت کا رشتہ- پانچ لیفیٹینٹ جنرل، چودہ میجر جنرل بہت بڑی کامیابی ہے-
جو دفاع وطن کا فریضہ ادا کرتے ہوئے شہید ہوئے اور جو اعلی عہدوں تک پہنچے وہ سب داد کے مستحق ہیں-
ھم ہر سرکاری افسر کو گھر میں اپنی مقبولیت کا اندازہ ریٹائرمنٹ کے بعد ہوتا ہے-ایک پورے فوجی یا سول بیورو کریٹ کو ۲۴ گھنٹے گھر میں برداشت کرنا گھر والوں کا ہی حوصلہ ہے-
ریٹائرمنٹ کے وائرس کے اثرات ، سول و عسکری حکام پر یکساں ہوتے ہیں – صبح اٹھ کر مصروفیت ڈھونڈنی پڑتی ہے- اگر گھر میں لان یا کچن گارڈن ہے تو بہتر ھے ورنہ اپنی کہانیاں سنانے کے لئے بندے ڈھونڈنے پڑتے ہیں – اور بندے مل بھی جاتے ہیں – لیکن پھر ان کی کہانیاں بھی سننی پڑتی ہیں- دنیا میں دکھ سکھ ساتھ چلتے ہیں، لیکن غیر اہم ( irrelevant) ہونا بہت تکلیف دہ ہے- ساری عمر سیکھتے رھے، پڑھتے رھے ، اتنا تجربہ لے کے ریٹائر ہوئے ہیں، کوئی پوچھتا تک نہیں کہ امور مملکت کیسے چلانے ہیں – سیاست کا یہی فائدہ ھے کہ جب تک دل کرے الٹا سیدھا بولتے رہیں – کبھی نہ کبھی گرینڈ ڈائیلاگ کے لئے بُلا ہی لیتے ہیں- Businessman کو اولاد نہیں جینے دیتی- دولت کے لالچ میں ابے کو گھر بٹھا دیتے ہیں –
73 والو ھمارا آپس میں کیا رشتہ ہے ، جو دل نہیں بھرتا- ہم آپس میں کیا لگتے ہیں-
ستر اور تین ، تہتر ،بس ایک فگر ہی تو ہے- اس میں کیا ہے ایسا جو ہم جڑے ہوئے ہیں-
یہ وہ پیرا گراف ھے جس پر آ کر میں چپ ھو گیا- کیا ھم بھائیوں کی طرح ہیں ، بالکل نہیں۔ بھائیوں کے درمیان اتنی دور تک بے تکلفی نہیں ہو سکتی- کیا ہم collegue ہیں، اوں ھوں ،کولیگ بڑا واجبی سا تعلق ہے- تو پھر کیا ہیں – کورس میٹ ہونا رس گلے کی طرح ، جب بھی چکھو شہد کی طرح میٹھا ، اور اپنائیت سے بھرا ملے گا-
۷۳ لانگ کورس ہماری پہلی اور مضبوط شناخت ہے، دوسری بڑی شناخت ہماری یونٹ ہے- ایک شناخت زندگی کو دوام دیتی ھے تو دوسری پیشہ وارانہ بھائی چارے کو- 73 میں سب برابر ہیں – کوئی کسی کو کسی بھی طرح مخاطب کر کے کچھ بھی بات کر سکتا ہے- یہی وہ احساس ہے جو باقی رشتوں کو مات دیتا ہے- یونٹ والوں سے بھی دل کا اور احترام کا رشتہ ہے-
یہ سفر جب شروع ہوا تو لگتا تھا وقت رک گیا ہے- پی ایم اے کے ابتدائی دنوں تو لگتا تھا پھرکی سے باندھ دیا ھے- نہ سونے دیتے تھے نہ وقت پر کھانا- فرنٹ رول، گورکھا، فراگ جمپ – صبح چار بجے اٹھتے تو سات بجنے کا انتظار کرتے، پھر نو ہی نہیں بجتے تھے- نو بجے ناشتہ – پھر گیارہ نہیں بجتے تھے – دن اور رات گزارنا مشکل تھے- فوج توڑ کے بناتی ھے لیکن بکھرنے نہیں دیتی-
پھر پی ایم اے مہربان ہو گیا، ہم انٹر، اپر،سینئر ھوگئے- رگڑے کی جگہ باقاعدہ فوجی تربیت شروع گئی – خاکی کلف لگی یونیفارم میں کیڈٹ صاحب باقاعدہ نیم لفٹین نظر آنے لگے-باقاعدہ انگلش میں bully سیکھ لی -اب لگتا ھے کہ پلک جھپکنے میں چالیس سال گزر گئے- کتنا تھوڑا تھا یہ وقت- کچھ تو چلے بھی گئے، باقی تیار بیٹھے ہیں – وقت کی بھی سمجھ نہیں آتی ، کبھی اتنا آہستہ کہ منٹ نہ گزرے اور کبھی دھائیاں سیکنڈ بن جائیں – واہ مولا، تیرے رنگ نرالے-
کیا ھے حاصل زندگی؟ کیا کھویا ، کیا پایا ہم نے- میرے نزدیک
ہم خوش قسمت ترین لوگ ہیں ، ہمیں اپنے وطن کی حفاظت کا موقع ملا، فوج میں نوکری سے بڑھ کر مادر وطن کی حفاظت ایک نعمت خداوندی ھے-ھمیں فخر ھے کہ ہم سپاھی تھے ، ہیں اور سپاھی ہی مریں گے-
73 لانگ کورس سولجرز فار ایور