وفاقی کابینہ نے نجی یونیورسٹیوں اور دیگر تمام اداروں کیلئے لفظ نیشنل استعمال کرنے پر پابندی عائد کردی‏عوامی اضطراب- کیا وجہ؟‏چین میں سیلاب‏Ubermenschپونے دوپاکستان میں ہر سال 10 لاکھ مکانات کی ضرورت ہےایران نے اسرائیل پر ڈرون اور میزائیلوُں سے حملہ کر دیا ہےگوجرانوالہ- سیالکوٹ- وزیر آباد- گجرات اور لالہ موسی، بنا بنا اکنامک زونسیاچن کے محاز پر پاکستان کی فوجپاکستان کے شمالی علاقہ جاتمعاشرے کی سوچ کو بدلنا ریاست کو ماڈرن بنانے سے کہیں زیادہ ضروری ہےمعاشرےمعاشرے کی سوچ کو بدلنا ریاست کو ماڈرن بنانے سے کہیں زیادہ ضروری ہےاگر ہمّت ہو تو معزوری کوئی رکاوٹ نہیں ہوتیمیلہ 6 ستمبروہ لمحہ جب 7.4 شدت کے زلزلے نے تائیوان کو ہلا ڈالامہنگائی کی شرح ۲۰% پر آ گئی-اپنی صحت کا خیال رکھیں- سوشل میڈیا سے دور رہیںصدر ارگان کی پارٹی کو ترکی میں بلدیاتی انتخابات میں شکستافغان سرزمین دہشتگردوں کی محفوظ آماجگاہ ہے ؛ فنانشل ٹائمچولستان میں زمینوں کو آباد کرنے کا منصوبہسائنوٹیک سولر پرائیویٹ لمیٹڈ کی پاکستان میں سرمایہ کاری

ٹویٹر ، ہیرو اور سیاست

اگر آپ بھولے نھی تو ایک سکندر نامی شخص نے ۲۰۱۳ میں ایک ریوالور کی مدد سے اپنی ہی بیوی اور بچے کو یرغمال بنا کر بالواسطہ 6 گھنٹے تک اسلام آباد اور پورے ملک کو ہیجان میں مبتلا کئے رکھا ۔ وہ تو بھلا ھو زمرد خاں کا جنہوں نے انتہائی ڈرامائی انداز میں سکندر کو قابو کیا ورنہ سکندر اس ڈرامے کو اور طول دے سکتا تھا۔ ڈرامے کا اختتام ہوا تو سکندر ہیرو سے زیرو بن چکا تھا-
‏70 اور 80 کی دھائی میں پاکستانی سینما پر سلطان راہی کا راج تھا- ان کی فلموں میں بہت ڈرامائی موڑ آتے تھے اور ہر بار ہیرو بچ کے نکل جاتا ہے- بالآخر، فلم کا ہیرو جو گنڈاسے سے کشتوں کے پشتے لگاتا جاتا ہے اسے پولیس گھیر لیتی ہے- پھر سپیکر پر اعلان ہوتے ہیں کہ پولیس نے علاقے کو چاروں طرف سے گھیر لیا ہے – بھاگنے کے تمام راستے بند ہو چکے ہیں – ہتھیار پھینک کر سرنڈر کر دیں- آپ کے تمام ساتھیوں نے اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کر دیا ہے- ہیرو ادھر ادھر فون کر تا ہے لیکن فون سننے والے بھی سرنڈر کر چکے ہوتے ہیں – بالآخر قانون جیت جاتا ہے-
‏فلم بین ، قانون کی جیت سے خوش نہیں ہوتے، حالانکہ یہی منطقی انجام ہے لیکن ابھی فلم بینوں کو کون سمجھائے کہ حقیقی زندگی میں ہیرو نہیں ہوتے – ھیرو کی گڈ لکس صرف پردے کے لئے ہوتی ہے- بروسلی کی فلم دیکھنے کے بعد فلم بین تھوڑی دیر کے لئے خود کو بروسلی سمجھنے لگتے ہیں-تماشائی اپنے ہیرو کوکنگ کانگ کی طرح ہر طرف تباھی پھیلاتا دیکھنا چاھتے ہیں- یہی انسانی فطرت ہے کہ دوسروں کو کٹتا دیکھ کر دل میں ٹھنڈ پڑ جاتی ہے-
‏جو کام پہلے سینما سکریں ، نسیم حجازی کے ناول یا ڈائجسٹ کیا کرتے تھے وہ موجودہ دور میں ٹویٹر کر رھا ہے؛” ہیرو بنانا "- ٹویٹر ھیش ٹیگ ، لائکس اور ویوز موجودہ دور کے سکرپٹ رائیٹر ہیں – یہ فکشن سے ملتا جلتا میڈیم ہے- کبھی کبھی خبریں ٹرینڈ بنتی ہیں ورنہ فکشن ہی چل رہی ھوتی ہے، نعرے بازی ، الزام تراشی، گالم گلوچ وغیرہ وغیرہ-صحافت اسی لئے سوشل میڈیا سے الگ ہے- رپورٹنگ میں آپ تھوڑی بہت اونچ نیچ کر سکتے ہیں ، ریڈ لائینیں نہیں کھینچ سکتے اور نہ ہی ہیرو تراش سکتے ہیں- البتہ آئیڈیاز کو پھیلانے کی میڈیا میں بدرجہ اتم گنجائش موجود ہے- ٹویٹر ہیروز کا منطقی انجام تو یہی ہے کہ ٹرینڈ گیا تو ہیرو گیا- سیاست ایک حقیقت ہے اور معاشروں کی تشکیل کا اعلی ترین نسخہ بھی- سیاست اور صحافت کا نعم البدل، سوشل میڈیا نہیں ہو سکتا- ⁦‪#PakistanEconomicCrisis‬⁩ ⁦‪#SocialMedia‬⁩ ⁦‪#TwitterTrends

You might also like