وفاقی کابینہ نے نجی یونیورسٹیوں اور دیگر تمام اداروں کیلئے لفظ نیشنل استعمال کرنے پر پابندی عائد کردی‏عوامی اضطراب- کیا وجہ؟‏چین میں سیلاب‏Ubermenschپونے دوپاکستان میں ہر سال 10 لاکھ مکانات کی ضرورت ہےایران نے اسرائیل پر ڈرون اور میزائیلوُں سے حملہ کر دیا ہےگوجرانوالہ- سیالکوٹ- وزیر آباد- گجرات اور لالہ موسی، بنا بنا اکنامک زونسیاچن کے محاز پر پاکستان کی فوجپاکستان کے شمالی علاقہ جاتمعاشرے کی سوچ کو بدلنا ریاست کو ماڈرن بنانے سے کہیں زیادہ ضروری ہےمعاشرےمعاشرے کی سوچ کو بدلنا ریاست کو ماڈرن بنانے سے کہیں زیادہ ضروری ہےاگر ہمّت ہو تو معزوری کوئی رکاوٹ نہیں ہوتیمیلہ 6 ستمبروہ لمحہ جب 7.4 شدت کے زلزلے نے تائیوان کو ہلا ڈالامہنگائی کی شرح ۲۰% پر آ گئی-اپنی صحت کا خیال رکھیں- سوشل میڈیا سے دور رہیںصدر ارگان کی پارٹی کو ترکی میں بلدیاتی انتخابات میں شکستافغان سرزمین دہشتگردوں کی محفوظ آماجگاہ ہے ؛ فنانشل ٹائمچولستان میں زمینوں کو آباد کرنے کا منصوبہسائنوٹیک سولر پرائیویٹ لمیٹڈ کی پاکستان میں سرمایہ کاری

سیرالیون یو این مشن – ڈاکٹر ڈیوڈ کنگ

تحریر: ڈاکٹر عتیق الرحمان


یہ ایک, ڈاکٹر ڈیوڈ کنگ کی انسانی خدمت اور ریسرچ کیلئے کی گئی محنت اور لگن کی کہانی ہے، جن سے میری ملاقات ۲۰۰۲ میں سیرالیون میں ہوئی- ڈاکٹر ڈیوڈ کنگ نوجوانی میں ۱۹۸۰ کی دھائی میں آسٹریلیا سے دو سال کے لئے سیرالیون آئے اور فری ٹاؤن شہر سے کوئی دو سو کلومیٹر دور گھنے جنگلوں کے درمیان ایک دور افتادہ گاؤں ( شایدنجائما) میں والنٹئر کی حثیثت سے بحثیت استاد پڑھانا شروع کیا – دو سال تک تعلیم دی اور پھر واپس چلے گئے- اور اپنے تجربے کو بروئے کار لاتے ہوئے ان علاقوں کی مشکلات کے سوشل اثرات پر ڈیزاسرس سٹیڈیز میں پی ایچ ڈی کی- سیرالیون میں خانہ جنگی کی خبریں جب علمی میڈیا کی زینت بنیں تو ڈاکٹر کنگ کے دل نے کروٹ لی اور وہ ریسرچ کیلئے دیکھنے آ پہنچے کہ جہاں انہوں نے علم کی شمع جلائی تھی وہاں اب کیا صورتحال ہے- ڈاکٹر ڈیوڈ کنگ آجکل جیمز کک یو نیورسٹی میں ڈیزاسنسٹر سنٹر کے ڈائریکٹر ہیں-
۲۰۰۱ سے ۲۰۰۲ تک سیرالیون میں اقوام متحدہ کے امن مشن میں کام کرنے کا موقع بہت حوالوں سے میرے لئے دلچسپ تجربہ تھا- سیرالیون افریقہ کے جنوب میں بحیرہ اوقیانوس کے کنارے سفید ریت کےساحلوں پر مشتمل خوبصورت ملک ہے- موسم کا درجہ حرارت مستقل ۲۷ اور ۲۸ سنٹی گریٹ رھتا ہے- جبکہ عوام کا درجہ حرارت رات کو سمندر کے کنارے لملے بیچ پر بسے درجنوں کلبوں میں کافی اوپر نکل جاتا ہے- فری ٹاؤن دارلخلافہ اور ملک کا سب سے بڑا شہر ہے جو بیک وقت، پہاڑ، جنگل اور سفید ریت کے ساحلوں کا مرکب ہے- جب پاکستانی دستے وہاں پہنچے تو حالات انتہائی خطرناک تھے، شہر میں کرفیو تھا اور ملک کے باقی حصوں میں سفر , باغی قبیلوں کے دنگا و فساد کی وجہ سے نا ممکن تھا- افریقی ممالک کی زندگی اور وہ بھی جنگ سے تباہ حال ملک جو ہیروں کی کھدائی کے لئے مشہور تھا، نقشہ کشی کرنا بہت ہی مشکل کام ہے- پاکستان دستوں کے ذمے لائبیریا کی سرحد کے ساتھ علاقوں کا کنٹرول اور امن کی بحالی تھی- انتہائی خطرناک حالات میں فضا میں سفید گن شپ ہیلی کاپٹر اور نیچے گھنے جنگلات کے اندر چھوٹی چھوٹی پگڈنڈیوں پر یو این کی گاڑیوں پر لائٹ مشین گن لگائے پاکستانی دستے انتئائی خطرناک علاقوں میں نہ صرف پہنچے، بلکہ اپنے کیمپ بنائے، علاقے میں امن قائم کیا، لوگوں کے دل جیتے اور سیرالیوں کو یو ان کا کامیا ترین مشن بنوایا- میری کہانی کا مقصد پاکستانی دستوں کی عالمی سطح پر پیشہ وارانہ صلاحیتوں کی پزیرائی کے علاوہ، ڈاکٹر کنگ کی انسانی ہمدردی کی اعلی مثال کا ذکر بھی ہے-
کوئیڈو شہر ہمارا ھیڈ کوارٹر بنا – باقی ذمہ داری کے علاقے دارو، کیلاھون بہت دور دور تھے اور ان سے زمینی رابطہ ممکن نہیں تھا- یہ ایک مشکل مشن تھا جسے بہت جانفشانی سے پاکستانی دستوں نے کامیاب بنایا-میں کوئیڈو میں ، یو این کے روائتی افس جو کہ کنٹینرز کے اندر بنائے گئے تھے، میں معمول کے کام میں مصروف تھا کہ گیٹ پر ڈیوٹی دینے والا سنتری ایک نیکر اور ھیٹ میں ملبوس بارھ بھر کم غیر ملکی مہمان کو لے کر آیا- رسمی کلمات اور تعارف کے بعد مہمان نے بتایا کہ وہ ڈاکٹر ڈیوڈ کنگ ہیں- انہیں چند دنوں کے لئے قیام کرنا ہے – کوئیڈو کے تباہ حال شہر میں سوائے بغیر شرٹوں کے ٹریل موٹر سائیکل پر بھنبھناتے نوجوانوں کے کچھ بھی نہیں تھا – نہ کھانے کو روٹی نہ پانی، نہ رھنے کو چھت-شہر کے تما گھروں کی چھتیں بھی rebels اپنے ساتھ اتار کر لے گئے تھے، اس کی کیا وجہ میری سمجھ سے باھر ہے- شاید جنگلوں میں اپنے ٹھکانوں میں استعمال کی ھو ں گی-شہر میں، سکول، تھانہ، ہسپتال، سڑک، بازار، نام کی کوئی چیز نہیں تھی- البتہ شہر کی ساری آبادی شہر کے ارد گرد ہیروں کی کھدائی میں مصروف رہتی تھی- خدا جانے ہیرے ملتے تھے یا نہیں لیکن ان کی کسمپرسی میں کوئی کمی نظر نہ آئی تھیں- نااھل سیاست قیادت کیا گل کھلا سکتی ہے یہ افریقی ملکوں کی تباھی دیکھ کے اندازہ ہوتا ہے- آسٹریلیا سے آئے ہیں مہمان نے بتایا کہ وہ ڈیزاسٹر سٹدییز میں پی ایچ ڈی ہیں اور آسٹریلیا میں ایک یو نیورسٹی میں پروفیسر ہیں- وہ ھمارے کیمپ سے ( کوئیڈو شہر) سے بیس پچیس میل دور گھنے جنگل میں ایک گاؤں( شاید نجائما) ہے بوئیڈو وھاں جانا چاہتے ہیں- وہ اس گاؤن می ۱۹۸۰ کی دھائی میں بحثییت استاد بچوں کو تعلیم دینے کے لئے آسٹریلیا سے آئے تھے- دو سال تک وہ مسلسل یہاں بچوں کو مقامی سکول میں پڑھاتے رھے-تھوڑی ریسرچ اور ساتھ اپنے ماضی کی یادوں کو تازہ کرنے آئے ہیں- ڈاکٹر صاحب کو ہم نے اپنے کیمپ میں ٹھہرایا اور خوب آو بھگت کی- دو دن بعد جب ڈاکٹر ڈیوڈ رخصت ہوئے تو انہوں نے خاص طور پر پاکستانی دستے کی میزبانی کا شکریہ ادا کیا-
اگلے دن ضروری سیکورٹی کے اقدامات اور باقاعدہ اجازت سے ڈاکٹر صاحب کو اپنی میزبانی میں لے کر سفر کا آغاز کیا- شدید گھنے جنگلوں اور پر پیچ راستوں اور وائلڈ لائف کا نظارہ کرے ہوئے ہم ڈاکٹر کنگ کی منزل مقصود پر پہنچ گئے- ڈاکٹر کنگ اپنی ریسرچ کے لئے وھاں تشریف لائے تھے- گاؤں کی تباھی دیکھ کر آبدیدہ ہو گئے- ڈھونڈنے سے کچھ شناسا ملے بلکہ ایک پرانے ساتھی استاد بھی مل گئے- ڈاکٹر کنگ نے پورا دن وہاں گزارا – رات گزارنے واپس کیمپ میں آ ئے لیکن اگلے دن اکیلے اسی گاؤں میں روانہ ہو گئے- دوبارہ کبھی رابطہ نہیں ہوا- اور ادھر سے ہی واپس فری ٹاؤن چلے گئے-آج آرٹیکل لکھتے ہوئے گوگل سرچ پر ان کا موجوہ پتا ملا- میں آج بھی ڈاکٹر ڈیوڈ کنگ کے دو سال تک سکول کے استاد کی حیثیت سے آسٹریلیا سے اتنی دور جنگلوں میں آ کر بچوں کو تعلیم دینے کی بے مثال قربانی کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں – سیرالئون میں گزارے چودہ ماہ میں بہت سی یادیں سمیٹیں، ڈاکٹر ڈیوڈ کنگ انہیں یادوں میں سے ایک ہے-

You might also like