آج کی دنیا کا سکندر کون؟
آج کے انسان کا پالا تین قسم کی دنیاؤں کے ساتھ ہے- حقیقی ( جیتی جاگتی ) دنیا، بی بی سی اور سی این این ( ٹیلی ویژن اور اخبارات ) والی دنیا اور سوشل میڈیا والی دنیا-
موجودہ دور کے انسان کا حقیقی دنیا سے بس اتنا سا واسطہ ہے کہ سانسیں اس میں لے رھا اور بستر پر آرام بھی ادھر ہی کر رھا ہے – جتنا فلسفہ اور سچ تلاش کیا جانا تھا وہ نصف صدی سے بھی پہلے کیا جا چکا – اب نشچے، نارمل اینجل، ایمینول کانٹ، فوکو، ابن سینا نہیں پیدا ہونگے- ٹیلی ویژن اور اخبارات کی دنیا بھی اپنی عمر جی چکی -اب ہمیں مارک زوکر برگ اور ایلن مسک کی دنیا میں ہی رہنا ہے-سوشل میڈیا سچ کو ڈھانپ کر ہمیں جس نئی دنیا سے ہمیں روشناس کروا رھا ہے یہی ہمارا مقدر ہے-
ہمیں سارے فیصلے اس مصنوعی دنیا کو سامنے رکھ کر کرنے ہونگے-یہی وہ خلاء ہے جو مصنوعی اور جھوٹی اطلاعات اور اصل مسائل کے درمیان ہے اور موجودہ دور کا سب سے بڑا المیہ بھی-
جو سچ کو کسی بڑے جھوٹ سے اچھی طرح ڈھانپ سکے وہ آج کی دنیا کا سکندر ہے-سچ کو آرٹیفیشیل انٹیلیجنس کے اندر چھپانے کو موجودہ دور کے انسان کی سب سے بڑی دریافت کہا جا رھا ہے-
ہمارے ہمراہ دو دنیائیں بالکل ساتھ ساتھ جڑ کر چل رھی ہیں – ایک وہ جو مادی وجود کے ساتھ ارد گرد موجود ہے اور دوسری وہ جو ہمارے کے ہاتھ میں موبائل کے اندر ہے- انسان اپنے ارد گرد کی دنیا سے لاتعلق ہو کر موبائل کی دنیا میں کھو چکا ہے- موبائل اور انٹر نیٹ کی دنیا کا حقیقی دنیا پر راج ہے- ہمیں ارد گرد، اپنے مشاھدے اور حسیات پر نہیں بلکہ ان مصنوعی تصویروں، خاکوں اور لفظوں پر زیادہ یقین ہے جو مشینوں نے بنائے ہیں-
سوشل میڈیا نے ہر چیز کو دوام بخشا ہے- علم کو آسان کر دیا ہے، فاصلوں کو سمیٹ دیا ، ساتھ ساتھ بیٹھے انسانوں کو ایک دوسرے سے لاتعلق کر دیا ہے-
ھلدی، ادرک اور تھوم کو یو ٹیوب نے شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا ہے- ہلدی، محبت کی چوٹ کے علاوہ باقی سارے زخموں کے علاج کے لئے مفید بتائی جارھی ہے- وصل کی شب کے علاوہ صرف ادرک اور تھوم ہے جو دل کو توانا رکھنے کی مرہم بن چکاہے-
اب مسئال ، تکلیفیں اور دکھ اصلی ہیں- لیکن ان کے حل سارے ورچئل ہیں- مسائل کو حل کرنے والے سیاسی لیڈر بھی آرٹیفیشیل انٹلیجنس کی پیداوار ہیں – اب خلق خدا مشینوں اور ان کے پیدا کردہ ناخداؤں کے رحم کرم پر ھے-