وفاقی کابینہ نے نجی یونیورسٹیوں اور دیگر تمام اداروں کیلئے لفظ نیشنل استعمال کرنے پر پابندی عائد کردی‏عوامی اضطراب- کیا وجہ؟‏چین میں سیلاب‏Ubermenschپونے دوپاکستان میں ہر سال 10 لاکھ مکانات کی ضرورت ہےایران نے اسرائیل پر ڈرون اور میزائیلوُں سے حملہ کر دیا ہےگوجرانوالہ- سیالکوٹ- وزیر آباد- گجرات اور لالہ موسی، بنا بنا اکنامک زونسیاچن کے محاز پر پاکستان کی فوجپاکستان کے شمالی علاقہ جاتمعاشرے کی سوچ کو بدلنا ریاست کو ماڈرن بنانے سے کہیں زیادہ ضروری ہےمعاشرےمعاشرے کی سوچ کو بدلنا ریاست کو ماڈرن بنانے سے کہیں زیادہ ضروری ہےاگر ہمّت ہو تو معزوری کوئی رکاوٹ نہیں ہوتیمیلہ 6 ستمبروہ لمحہ جب 7.4 شدت کے زلزلے نے تائیوان کو ہلا ڈالامہنگائی کی شرح ۲۰% پر آ گئی-اپنی صحت کا خیال رکھیں- سوشل میڈیا سے دور رہیںصدر ارگان کی پارٹی کو ترکی میں بلدیاتی انتخابات میں شکستافغان سرزمین دہشتگردوں کی محفوظ آماجگاہ ہے ؛ فنانشل ٹائمچولستان میں زمینوں کو آباد کرنے کا منصوبہسائنوٹیک سولر پرائیویٹ لمیٹڈ کی پاکستان میں سرمایہ کاری

اداروں کو مضبوط کریں

جسٹیفن آر کووی اپنی کتاب موثر لوگوں کی سات عادات میں لکھتا ھے کہ جب کبھی کوئی کام شروع کریں تو اس کے نتائج کو ضرور سامنے رکھیں ۔ کام کے آغاز سے ھی مقصد واضح ھونا چاھیے۔ جب مقصد واضح ھو جائے تو کام آسان ھو جاتا ھے۔ اسی طرح مسائل کی نشاندھی ضروری ہے قبل اس کے کہ ان کے حل کی طرف توجہ دی جائے- ابہام صرف افراتفری کو جنم دیتا ھے اور افراتفری کبھی بھی کسی کے مفاد میں نھی ھوتی ۔
سیاست، معاشرے کی تشکیل کا اولین ذریعہ ھے۔ آج تک تاریخ میں جتنے سیاسی فلسفوں نے جنم لیا ان میں لگ بھگ ایک ھی مقصد تھا , کہ معاشرے کی بہتر تشکیل ھو- ایسا معاشرہ جہاں انصاف کا بول بالا ھو، ھر کوئی آزادی اور خوشی سے زندگی گزار سکے۔ لیکن فسطائیت اور کیپٹلزم سیاست کو کہیں اور لے گئے ھیں۔ انصاف صرف نعروں تک محدود ھو کے رہ گیا ھے۔
کیپیٹلزم میں دولت چند ھاتھوں میں ھوتی ھے۔ سیاسی نعرے صرف اشتہاری مہم سے زیادہ کچھ نھی ھوتے۔جس طرح اپنی پراڈکٹ کو بیچنے کے لئے کمپنیاں خوبصورت ماڈلزاور پیغامات کا ستعمال کرتی ھیں ۔ بالکل ایسے ہی سیاسی لیڈر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہیں، کبھی عوام کے مفاد کے نام پر ، کبھی خود مختاری، کبھی آذادی اظہار اور کبھی ملکی ترقی کے نا م پر۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ھے۔ خوشحالی صرف چند افراد تک محدود رہتی ھے۔ آپ اس سے اندازہ لگا لیں کہ دنیا کے 81 افراد کے پاس آدھی دنیا سے زیادہ دولت ہے اور سب سے کم ٹیکس بھی یہی لوگ ادا کر رھے ہیں – آج دنیا میں دو ارب افراد دو وقت کی روٹی کھانے سے قاصر ہیں –
ھاؤس آف کارڈ ، نیٹ فلیکس کا ایک پاپولر ٹی وی سیریل ھے جو کیپیٹل ھل ( امریکی پارلیمنٹ) میں صبح شام ھونے والی سیاست کے گرد گھومتا ھے۔ شطرنج کے کھیل کی طرح سیاست میں بھی مخالف کا ذھن پڑھ کر چال چلتے ھیں۔ کمپرومائزز بھی ھوتے ھیں لیکن زیادھ سودے بازی قانون سازی پر ھوتی ھے ۔ اس قانون سازی کا زیادہ حصہ کارپوریٹ سیکٹر کے فوائد کے لئے ھوتا ھے اور بہت کم عوام کی فلاح و بہبود کے منصوبے ھوتے ھیں اور کچھ الیکشن میں کئے گئے وعدوں کا قرض بھی ھوتا ھے
پاکستانی سیاست بہت منفرد سیاست ھے ۔ اس میں پارٹی سیاست ، قیادت کو اپنے گھر میں رکھنے سے متعلق ھے اور ملکی سیاست زیادہ تر طاقت کے حصول کی جنگ ھے۔ ادارے بہت کمزور ھیں-

دولت اور مراعات کی برابری تو کسی نظام میں ممکن نھی لیکن یکساں انصاف معاشرے کی ترجیح ھونا چاھئیے -یھی وہ نقطہ ھے جو معاشرے کی ترقی کا باعث بنتا ھے۔
سیاست کا جال ھمیشہ مخالفت کے گرد بنا جاتا ھے۔ طاقت کے کھیل میں نفرت کو محبت پر فوقیت حاصل ھے۔طاقت کے حصول کے لئے ھمیشہ ایک سے زیادہ کردار میدان میں ھوتے ہیں ۔ لہزا کامیاب ھونے کے لئے دوسرے امیدواروں کے خلاف نفرت کو ابھار کر ایک مخصوص گروپ کی حمایت حاصل کئے بغیر کامیابی ممکن نھی ھوتی۔ پچھلے چند سالوں میں یہی کچھ کیا گیا-
انسان کمزور ہے،لالچ ، بد دیانتی کی طرف راغب کرتا ھے- ہمیں اپنے نظام میں ہر جگہ مانیٹرینگ ، جزا اور سزا کا اجراء کرنا پڑے گا ٹیکنالوجی نے مانیٹرنگ کو بہت آسان بنا دیا ہے- اب کچھ بھی پوشیدہ نہیں– 5 G بس آیا چاھتی ہے- اس ٹیکنالوجی کو نظام کی بہتری کے لئے استعمال کیا جا سکتا ھے-

آپ بینک میں جاتے ہیں ، ٹوکن ملتا ہے، باری آتی ہے، مختلف کاؤنٹر پر جاتے ہیں اور پھر کام کی انجام دہی ہوتی ہے- یہی کام شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنانے کے لئے ہے- اس میں نہ بینک کا صدر، نہ شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنانے والے محکمے کا سربراہ شامل ہوتا ہے- ایک نظام ہے جو نتائج دیتا ہے-
حکومت کو ہر محکمہ سے سٹڈی کرونی چاہیے کہ چیک اینڈ بیلنس کیسے ممکن ھے-
کہیں کیمرہ لگوائیں ، کہیں بندہ کھڑا کریں اس بندے پر بھی چیک رکھیں-
موٹر وے پر مسافروں سے بھری گاڑیوں کے اندر سپیڈ چیک کرنے والے باکس لگوائیں یا کمپیوٹر apps لگوائیں اور مانیٹر کریں-
یونیورسٹی کے کلاس رومز میں کیمرے لگوائیں اور مانیٹر کریں –
تمام پولیس اسٹیشن کیمروں سے کور کریں اور سینئر افسر مانیٹرنگ کریں کہ تھانے میں کیا ہو رھا ھے-
یہی نظام مارکیٹ اکانومی کے لئے چاہیے – اشیاء کے منڈی تک پہنچنے سے لے کر گاھک تک پہنچنے کا شفاف عمل-
گنے کی شوگر مل تک پہنچنے سے لیکر چینی بننے، مارکیٹ میں پہنچنے اور بکنے تک کا شفاف عمل- بجلی کی پیداوار سے لے کے سپلائی اور بلنگ تک کا نظام-
یہ سارے نظام موجود ہیں لیکن ان کے اندر روانی نہی ہے۔ بد دیانتی ہے- ایک لنک سے دوسرے لنک تک درمیان میں ھیرا پھیری ہے- گھروں تک پہنچتے پہنچتے اس مال میں ملاوٹ اور آڑھتیوں کا لالچ اسے اتنا بھاری کر دیتا ہے کہ غریب اسے نگل ہی نہیں پاتا-
اس سلسلے کو رواں کرنے کی ضرورت ہے- کوئی مشکل نہیں ، بندوں کو ایماندار نہ کریں بلکہ ان کو مانیٹر کریں اور جزا سزا کے عمل سے گزاریں-
جب سسٹم کے اندر کام کریں گے تو خود بخود عادتیں بہتر ہو جائیں گی-
شادی بیاہ میں آج کل کھانا میز پر سجانے کا رواج عام ہو رہا ہے – اس سے کھانے والوں میں خود بخور نظم و ضبط آ گیا ہے-
سکولوں میں بچوں کو ایپ سے مانیٹر کریں- یونیورسٹیوں اور میڈیکل کالجز میں داخلے کے لئے کمپیوٹر ایپ استعمال کریں- ہر کوئی اسے مانیٹر کر سکے- ہر لیکچر نارمل موبائل سے لائیو ہو سکتا ہے- اور ریکارڈ بھی ہو جاتا ہے- ہسپتالوں میں ڈیجیٹل ایپس کی سخت ضرورت ہے- ٹریفک قوانین پر عمل داری کے لئے کیمرے بہت مدد کر سکتے ہیں –