چین کے بڑے شہر اپنے ہی وزن سے دب رھے ہیںTransformation of Political Conflictوفاقی کابینہ نے نجی یونیورسٹیوں اور دیگر تمام اداروں کیلئے لفظ نیشنل استعمال کرنے پر پابندی عائد کردی‏عوامی اضطراب- کیا وجہ؟‏چین میں سیلاب‏Ubermenschپونے دوپاکستان میں ہر سال 10 لاکھ مکانات کی ضرورت ہےایران نے اسرائیل پر ڈرون اور میزائیلوُں سے حملہ کر دیا ہےگوجرانوالہ- سیالکوٹ- وزیر آباد- گجرات اور لالہ موسی، بنا بنا اکنامک زونسیاچن کے محاز پر پاکستان کی فوجپاکستان کے شمالی علاقہ جاتمعاشرے کی سوچ کو بدلنا ریاست کو ماڈرن بنانے سے کہیں زیادہ ضروری ہےمعاشرےمعاشرے کی سوچ کو بدلنا ریاست کو ماڈرن بنانے سے کہیں زیادہ ضروری ہےاگر ہمّت ہو تو معزوری کوئی رکاوٹ نہیں ہوتیمیلہ 6 ستمبروہ لمحہ جب 7.4 شدت کے زلزلے نے تائیوان کو ہلا ڈالامہنگائی کی شرح ۲۰% پر آ گئی-اپنی صحت کا خیال رکھیں- سوشل میڈیا سے دور رہیںصدر ارگان کی پارٹی کو ترکی میں بلدیاتی انتخابات میں شکستافغان سرزمین دہشتگردوں کی محفوظ آماجگاہ ہے ؛ فنانشل ٹائم

فلسطین میں انسانیت کا قتل عام

تحریر خالد بیگ
یہ کس طرح کی جنگ ہے جس میں نہتے کشمیریوں‘ مرد و خواتین اور شیر خوار بچوں تک کو بمباری کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ فلسطین صدیوں پرانی تاریخی حیثیت رکھنے کے باوجود اپنا وجود کھو چکا ہے جبکہ اب یہ شناخت فلسطین میں بسنے والے ان مسلمانوں تک محدود ہو کر رہ گئی جنہیں بندوق کے دور پر پہلے اپنے گھروں سے نکال کرغزہ اور مغربی کنارے میں جیل نما مخصوص کیمپوں میں قیدیوں کی طرح منتقل کیا گیا اور پھر اس جیل خانہ کو بھی مقتل بنا دیا گیا۔ صرف اس لیے کہ دنیا میں خود کو واحد قوت کے طور پر منوانے کے خبط میں مبتلا امریکہ اور اس کا حواری ملک برطانیہ فلسطین کے ارد گرد عرب ریاستوں کو فلسطینیوں کے قتل عام کے ذریعے ڈرا کر اور دبا کر رکھنا چاہتا ہے۔ اب سوال اٹھتا ہے کہ یہ کونسی جمہوریت ہے امریکہ اور اس کے اتحادی مغربی ممالک جس کے علمبردار بنے پھرتے ہیں۔ جب کبھی یہودیوں کی بات آئے تو پھر نہ انہیں جمہوریت یاد رہتی ہے نہ ہی ا نسانیت جس کا قتل عام گزشتہ کئی ہفتوں سے غزہ میں جاری ہے۔ جہاں75برسوں سے اپنے ہی وطن میں قیدی بنائے گئے فلسطینیوں سے ان کا دفاع کا حق بھی چھین لیا گیا ہے ۔صرف اس لیے کہ وہ مسلمان ہیں جو گزشتہ سات دہائیوں سے اپنے لیے جینے کا حق مانگ رہے ہیں۔ یہی حق مانگنے پر انہی امریکہ و دیگر مغربی ممالک کی طرف سے دہشت گرد قرار دیا جارہا ہے۔ ظلم کی انتہا یہ ہے کہ گزشتہ نصف صدی سے فلسطینیوں کو دو ریاستوں کے قیام کا لارا دے کر انہیں اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کا حق دینے کی بجائے جب کبھی وہ احتجاج کرتے ہیں تو ان پر آگ برسادی جاتی ہے ۔ان کی عمارتوں کو بمباری کے ذریعے زمین بوس کر دیا جاتا ہے اور انسانی حقوق کا علمبردار امریکہ ہو یا تہذیب یافتہ دیگر مغربی ممالک سب غاصب اسرائیل اور قاتل صہیونیوں کی پشت پر کھڑے ہو جاتے ہیں۔
طرفہ تماشا یہ ہے کہ ہر چند ماہ بعد کبھی بیت المقدس میں مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کے ردعمل میں تو کبھی غزہ و مغربی کنارے میں قید کیے گئے فلسطینیوں کی طرف سے احتجاج کو بہانہ بنا کر اسرائیلی فورسز نہتے فلسطینیوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ پتھر پھینکنے والے کم عمر معصوم بچوں تک کو برائے راست فائرنگ کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ کشیدگی طول پکڑتی ہے تو اسرائیلی طیارے غزہ کی پٹی پر راکٹ برسانا شروع کر دیتے ہیں۔ جہاںمتعد کثیر المنزلہ عمارتیں اپنے مکینوں سمیت زمین بوس کر دی جاتی ہیں۔اس طرح کی ہر اسرائیلی جارحیت کے بعد امریکی وزارت خارجہ حرکت میں آتی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ عرب ممالک کے دوروں پر نکل کھڑا ہوتا ہے۔ اسرائیل کی فوج غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے کی مکمل ناکہ بندی کرکے فلسطینیوں کو فاقوں پراس طرح مجبور کرتی ہے کہ ان تک خوراک کے ساتھ ہی ادویات بھی نہیں پہنچنے دی جاتیں اور پھر خبر آتی ہے کہ امریکہ کی وزارت خارجہ نے اسرائیلی حکومت کو فلسطینیوں پر بمباری روکنے اور ان تک اشیاءخورد و نوش اور ادویات کی رسائی دینے پر رضا مند کرکے فلسطینیوں پر بہت بڑا احسان کیاہے۔ دولت مند عرب حکمران فوری طور پر خزانوں کا منہ کھولتے ہیں اور ان کی طرف سے غزہ و مغربی کنارے میں تعمیر نو کے لیے لاکھوں ڈالر مختص کرنے کا اعلان ہوجاتا ہے ۔جبکہ دوسری طرف امریکہ اسرائیل کی داد رسی کے لیے اسے اربوں ڈالر کا مزید جدید اسلحہ روانہ کرتا ہے اور اسرائیل میں مغربی ممالک سے لاکر آباد کیے گئے ہیں یہودیوںکی فلاح و بہبود کیلئے الگ سے امداد کا اعلان کرتا ہے اور پھر فلسطینیوں پر اسرائیلی فوج کے آئندہ حملوں کا انتظار شروع ہوجاتا ہے۔
اگر گزشتہ سات دہائیوں پر نظر ڈالیں تو اسرائیل نے اپنے قیام سے لے کر آج تک فلسطینیوںپر ختم نہ ہونے والی ایسی جنگ مسلط کر رکھی ہے جس کے مستقبل قریب میں خاتمے کا کوئی امکان دکھائی نہیں دے رہا۔ یہ ایک ایسی جنگ ہے جس میں ایک طرف نہتے فلسطینی مردوخواتین بچے ہیں تو دوسری طرف جدید ترین اسلحہ بردار فوج کا حامل اسرائیل ہے ۔ فلسطینیو پر مسلط کردہ اس جنگ میں امریکہ سمیت تمام مغربی ممالک اس جنگ میں اسرائیل کے اتحادی ہیں۔ باقی ماندہ دنیا کے ساتھ ہی اسلامی ممالک کی خاموشی اور بے حسی ہے جو ٹوٹنے اور ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی ۔ جدید دور کی تاریخ میں عالمی سطح پر دو عظیم جنگیں لڑی گئیں۔ان جنگوں میں لاکھوں اموات ہوئیں ، کروڑوں لوگ بے گھر ہوئے لیکن نہ تو ہسپتالوں کو بمباری کا نشانہ بنایا گیا نہ ہی گرجاگھروں پر بمباری کی گئی ۔ انہیںعظیم جنگوں کے دوران میدان جنگ سے زخمی فوجیوں کو ہسپتالوں میں منتقل کرنے والی ایمبولینسوں کی نشاندہی کیلئے ان کی چھتوں پر ریڈ کراس کے نشانات پینٹ کیے گئے تاکہ فضا ءمیں پرواز کرنے والے جنگی طیارے ان پر بمباری سے پرہیز کریںلیکن یہاں تو معاملہ ہی نفرت اور فلسطینیوں کی نسل کشی کا ہے۔
غزہ پر حالیہ اسرائیلی حملوں میں اب تک 12ہسپتال تباہ اور 25کے قریب طبعی مراکز غیر فعال کیے جاچکے ہیں۔ ظلم کی انتہا یہ ہے کہ زخمی فوجیوں کو نہیں بلکہ عام سویلین فلسطینی زخمیوں کو ہسپتال لے جانے والی ایمبولینسوں کو اسرائیلی جنگی طیارے اب تک تباہ کر چکے ہیں۔ ان ایمبولینسوں میں اکثریت ایسے معصوم اور بچوں اور خواتین کی تھی جنہیں تباہ شدہ عمارتی ملبے سے زندہ حالت میں نکال کر ہسپتال یا طبعی مراکز منتقل کیاجارہا تھا۔ اسرائیل کے جنگی طیارے ایک طرف غزہ پر حملہ آور ہیں توساتھ ہی امریکی صدر الگ سے مسلمان ممالک کو دھمکا رہا ہے کہ اگرا نہوں نے فلسطینیوں کی محبت میں میں اسرائیل پر حملے کی جسارت کی تو تباہ و برباد کردیئے جاوگے۔
مغربی استعمار کی بربریت دیکھے کہ پوری دنیا سراپا احتجاج ہے لیکن برطانوی وزیراعظم جدید اسلحہ و گولہ بارود سے بھرا کارگو ہوائی جہاز لے کر اسرائیل کا دورہ کرتا ہے تاکہ اسرائیلیوں کو غزہ میں مزید قتل و غارت گری کیلئے مزید ہلہ شیری دی جاسکے۔ افسوس جب سے غزہ پر اسرائیلی حملوںکا آغاز ہوا ہے اسلامی سربراہی کانفرنس ہو یا عرب لیگ ان کی طرف سے زبانی کلامی ، مذمتی بیانات اور منمناتی آزاد میں غزہ پر حملے روکنے کیلئے درخواستوں کے علاوہ تاحال کوئی ایسا عملی اقدام سامنے نہیں آیا جو اسرائیل کو غزہ میں تسلسل کے ساتھ جاری قتل عام سے روک سکے یا امریکہ و برطانیہ کو احساس دلاسکے کہ وہ فلسطینیوں کی نسل کشی پر تلے اسرائیل کو مزید شہ دے رہے ہیں