Leadership Dilemmaنیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد میں پاک برطانیہ علاقائی استحکام کے موضوع پر چھٹی (6)کانفرنس منعقد ہوئیچین کے بڑے شہر اپنے ہی وزن سے دب رھے ہیںTransformation of Political Conflictوفاقی کابینہ نے نجی یونیورسٹیوں اور دیگر تمام اداروں کیلئے لفظ نیشنل استعمال کرنے پر پابندی عائد کردی‏عوامی اضطراب- کیا وجہ؟‏چین میں سیلاب‏Ubermenschپونے دوپاکستان میں ہر سال 10 لاکھ مکانات کی ضرورت ہےایران نے اسرائیل پر ڈرون اور میزائیلوُں سے حملہ کر دیا ہےگوجرانوالہ- سیالکوٹ- وزیر آباد- گجرات اور لالہ موسی، بنا بنا اکنامک زونسیاچن کے محاز پر پاکستان کی فوجپاکستان کے شمالی علاقہ جاتمعاشرے کی سوچ کو بدلنا ریاست کو ماڈرن بنانے سے کہیں زیادہ ضروری ہےمعاشرےمعاشرے کی سوچ کو بدلنا ریاست کو ماڈرن بنانے سے کہیں زیادہ ضروری ہےاگر ہمّت ہو تو معزوری کوئی رکاوٹ نہیں ہوتیمیلہ 6 ستمبروہ لمحہ جب 7.4 شدت کے زلزلے نے تائیوان کو ہلا ڈالامہنگائی کی شرح ۲۰% پر آ گئی-اپنی صحت کا خیال رکھیں- سوشل میڈیا سے دور رہیں

عالمی سیاست اور ملکی مسائل

ایک تجزیہ
امریکی صدر جو بائیڈن اسرائیل اور صدر پیوٹن ، چین پہنچ چکے ہیں- ابھی ایک مہینہ پہلے G20 کا اجلاس تھا اور اس سے تھوڑا ہی عرصہ پہلے BRICKs کے ممالک بھی سر جوڑ کر بیٹھ چکے ہیں- دونوں طرف سے لگتا ہے کہ یہی فیصلہ ہوا کہ غریب ملکوں اور علاقوں سے غربت ختم کرنے کا فوری نسخہ یہی ہے کہ ان علاقوں سے عورتوں اور بچوں صفایا کر دیا جائے- کم از کم اسرائیل فلسطین کی جنگ سے تو یہی لگ رھا ھے-سیاست جب تعمیری حربوں کی جگہ تخریبی رخ دھارتی ہے تو واپس غاروں کے دور کی یاد دلا دیتی ہے اور یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا کہ قبیلوں کا نظام بہتر تھا یا سوٹ بوٹ میں لپٹی مغربی لبرل جمہوریت یا مشرق میں پرورش پانے والی سادہ جمہوریت- Fockuyama نے تو اپنی کتاب end of history میں فیصلہ سنا دیا تھاکہ دنیا اخلاقیات اور نظام حکومت کی انتہائی حدوں کو چھو رہی ہے اور اس میں مزید بہتری کی گنجائش نہیں – بھلا ھو 2008 کے امریکہ سے ہی چروع ہوئے recession کا کہ فوکو کو جواب مل گیا- اس سے قبل ویسے Huntington اپنی کتاب clash of civilisation میں بتا چکا تھا کہ بھائی ھاتھ ھولا رکھو ابھی تہزیبوں اور قومیتوں کی بنیادوں پر جنگ و جدل ہونا باقی ہے- اکیسویں صدی ٹیکنالوجی اور بربریت کی انتہائی حدوں کو چھو رھی ہے- per capita انکم ،انٹر نیٹ کے Gs اور آبادیوں اور شہروں کو صف ھستی سے مٹانے کی صلاحیت ساتھ ساتھ بڑھ رہی ہے- انفارمیشن ٹیکنالوجی اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس ، مہاجرین کے کیمپ اور غذائی اجزاء میں قلت یکساں رفتار سے آگے پروان چڑھ رھے ہیں –
ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ 5G اور AI میں محدود ترقی کے علاوہ موجودہ عالمی نظام دنیا کے 8 ارب لوگوں کو ریلیف دینے میں ناکام رہا ہے۔ سارے زمینی اشارے اس بات کی تائید کر رھے ہیں کہ دنیا میں استحصالی سیاست عروج پر ھے- کیپیٹلزم نے جو منافع جاتی رجحان کو بڑھایا ہے اس سے انسانی جبلت میں لالچ اور طمع کو مزید تقویت ملی ھے-
اسرائیل-فلسطین جنگی تھیٹر کی وسعت، مشرق وسطیٰ تک، جنوبی ایشیائی اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تجارت کو شدید متاثر کرے گی۔ غزہ تو زمین بوس ہو چکا ہے- مشرق وسطیٰ سے توانائی کی فراہمی کے ساتھ ساتھ مشرق وسطیٰ کے ممالک کی ترقی کو بریک لگ چکی ھے- ابھی آگے کے اثرات اور حالات و واقعات کا جائزہ شروع ھے-
روس-یوکرین جنگ نے پہلے ہی بڑھتی ہوئی ایشیا اور یورپی یونین کی بڑی معیشتوں کی توانائی کی ضروریات کے لیے روڈ بلاکس بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ خوراک کی قلت میں پچھلے چار سال میں شدید اضافہ ہو چکا ہے- موسمیاتی تبدیلوں نے خوراک کی پیداوار کو خاطر خواہ حد تک متاثتر کیا ھے- خاس طور پر 2022 کے سیلاب نے پاکستان کی معیشیت کو بری طرح متاثر کیا-
پاکستان میں SIFC کا قیام بہت مثبت اور اھم پیش رفت ہے- اگر قومی سیاست میں اس ادارے کا فعال کردار قبول کو قبولیت ملی تو ملک کی قسمت سنورنے کے بہت امکانات ہیں- یہ اب تک کا معاشی استحکام اور عوامی مفاد کا بہترین سیاسی فیصلہ ہے جیسے پی ڈی ایم کی حکومت نے اپریل 2023 میں عملی جامہ اپنایا-
اسرائیل -فلسطین جنگ گزشتہ تین سالوں میں عالمی معیشت کے لیے تیسرا بڑا دھچکا ہے۔ کورونا (COVID19)، روس یوکرین جنگ اور اسرائیل فلسطین۔
دونوں جنگوں میں علاقائی تنازعات کا فائدہ اٹھایا گیا۔بدقسمتی سے پاکستان کے مغرب اور مشرق دونوں جانب علاقائی مسائل پچھلے پچھتہر سالوں سے پھن پھیلائے کھڑے ہیں ؛ مقبوضہ کشمیر اور افغانسان – ھماری خوشحالی میں اپنی کوتاھیوں کے علاوہ یہی دو بیرونی عوامل ہمیں بار بار دھکیل کر پیچھے لے جاتے ہیں- افغانستان کی سر زمین پر بھی لاوا پک رھا ہے اور مقبوضہ کشمیر میں بھی آبادی کے تناسب میں ردو بدل سے اسے پاکستان کے لئے ایک بڑے خطرے کے طور پر تیار کیا جا رھا ھے- آئندہ تھوڑے ہی عرصے میں مقبوضہ کشمیر میں بھاری آر ایس ایس کا راج ھو گا-
روس- یوکرائن جنگ اور اسرائیل- فلسطین دونوں جنگوں کے نتیجے میں بلاک سیاست کو تقویت ملی۔ G7 اور نیٹو بمقابلہ بمقابلہ برکس اور ایس سی او ممالک- کولڈ وار ٹو سے بات آگے بڑھتی ہو اب باقاعدہ کسی بڑی کاروائی کا عندیہ دے رھی ھے-
ان دونوں جنگوں نے انسانی بحران کو مزید شدید کیا ھے ۔ دنیا میں پہلے ہی تقریباً 90 ملین پناہ گزین ہیں۔ غالبا human crisis کو ہی جنگ حکمت عملی کے طور پر اپنایا جا رھا ہے- افغانستان،فلسطین، کشمیر میں اذیت ناک زندگی کی خراب صورتحال علاقائی امن و سکون اور تخریبی کاروائیوں کو ھوا دے گی-
گزشتہ ایک سال کے دوران ایک ارب لوگوں شدید بھوک اور خوراک کی عدم دستیابی، پانے کا صاف پانی اور صحت کی سہولیات کا شکار رھے- اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات اس کے علاوہ تھے-خطرات کے اثرات کے لیے بدترین تھا۔
تینوں بحرانوں میں اقوام متحدہ کا کردار چندہ مانگنے تک محدود رھا یا کرونا کی اپ ڈیٹس ۔ اقوام متحدہ، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک مسائل کو حل کرنے کی بجائے عالمی سیاست میں باقاعدہ ایکٹر بن کر حصہ لے رھے ہیں – عالمی سیاست میں سوشل میڈیا اور انفارمیشن ٹیکمالوجی نے ایک نئی اور فیصلہ کن صورتحال کو جنم دیا ہے- ڈیجیٹل میڈیا رائے عامہ جو خارجہ پالیسی کے آپشنز کا سنگ بنیاد ہے اس پر اثر انداز ھو کر ریاستوں کے لئے مسائل پیدا کر رھا ھے-
پاکستان اپنی طویل سیاسی ، اقتصادی، توانائی ، علاقائی اور انفارمیشن کی دگرگوں صورتحال کی وجہ سے مسائل کا شکار ہے – انرجی بحران پاکستان کے لئے سب سے بڑا ڈراؤنا خواب ثابت ہوا ہے-اور پولرائزیشن ان مسائل کو بڑھانے میں مسلسل خطرناک رخ دے رھی ہے-
پاکستان کے سیاسی اور معاشی استحکام کے لئے، SIFM, information disorder, افغانستان اور مقبوضہ کشمیر کے حالات پر گہری نظر اور سب سے بڑھ کر انرجی بحران سے نمٹنے کی صلاحیت بہت ضروری ھے-
پاکستان کو صورتحال کا درست اندازہ لگانے اور خارجہ اور ملکی دونوں محاذوں پر سمجھ بوجھ سے پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے۔
۰-۰-۰-۰-
ڈاکٹر عتیق الرحمان