چین کے بڑے شہر اپنے ہی وزن سے دب رھے ہیںTransformation of Political Conflictوفاقی کابینہ نے نجی یونیورسٹیوں اور دیگر تمام اداروں کیلئے لفظ نیشنل استعمال کرنے پر پابندی عائد کردی‏عوامی اضطراب- کیا وجہ؟‏چین میں سیلاب‏Ubermenschپونے دوپاکستان میں ہر سال 10 لاکھ مکانات کی ضرورت ہےایران نے اسرائیل پر ڈرون اور میزائیلوُں سے حملہ کر دیا ہےگوجرانوالہ- سیالکوٹ- وزیر آباد- گجرات اور لالہ موسی، بنا بنا اکنامک زونسیاچن کے محاز پر پاکستان کی فوجپاکستان کے شمالی علاقہ جاتمعاشرے کی سوچ کو بدلنا ریاست کو ماڈرن بنانے سے کہیں زیادہ ضروری ہےمعاشرےمعاشرے کی سوچ کو بدلنا ریاست کو ماڈرن بنانے سے کہیں زیادہ ضروری ہےاگر ہمّت ہو تو معزوری کوئی رکاوٹ نہیں ہوتیمیلہ 6 ستمبروہ لمحہ جب 7.4 شدت کے زلزلے نے تائیوان کو ہلا ڈالامہنگائی کی شرح ۲۰% پر آ گئی-اپنی صحت کا خیال رکھیں- سوشل میڈیا سے دور رہیںصدر ارگان کی پارٹی کو ترکی میں بلدیاتی انتخابات میں شکستافغان سرزمین دہشتگردوں کی محفوظ آماجگاہ ہے ؛ فنانشل ٹائم

مسز گوورننس، عتیق الرحمن شیخ کے قلم سے کھلکھلاتا ہوا افسانہ

بڑے لیڈر کے ایک دوست بتا رھے تھے کہ صاحب مغز سے نفرت کرتے ہیں۔ بڑے لیڈر کے پاس جتنا وقت بھی میسر ہوتا وہ ملکی حالات کے بارے میں سوچتے اور پریشان رھتے ہیں۔ میں نے پوچھا، جتنا بھی وقت ھوتا سے کیا مراد؟ کہنے لگے، لکھنے پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ اکثر میں نے موبائل پر مسیجز لکھتے اور پڑھتے دیکھا ہے۔ مصروف رہتے تھے۔ دیسی مرغی، دیسی بکری بڑی رغبت سے کھاتے ہیں، دنبے کا گوشت بہت پسند ھے۔ قوم کے مسائل پر قابو پانے کے لئےبھی غورو فکر کرتے۔

میں نے اصرار کیا کہ بتائیں ملک کے بارے میں کیا غورو فکر کرتے تھے۔ دوست بولا کہ زیادہ توجہ ان کی کرپشن کی طرف تھی۔ میں نے استفسار بھری نظروں سے دیکھا تو بولا کہ کرپشن ختم کرنے کے بارے سوچتے رھتے تھے لیکن اکثر ایسا ہوتا کہ یہ سوچ ہی رھے ہوتے تھے جب مرشد کمرے میں داخل ھو تےاور پھر تصوف اور دوسرے موضوعات پر بات چیت کا نیا سلسلہ شروع ہو جاتا۔ مرشد نے پارلیمانی جمہوریت کی مضبوطی کے لئے بہت چلے کاٹے ہیں۔ اکثر غور و فکر کی محفلیں منعقد ہوتی تھیں۔ کسی محفل میں غور کرتے تھے اور کسی میں فکر۔
کیا اسے ہم مس گوورننس کہ سکتے ہیں؟ میرا اگلا سوال تھا۔ تو دوست کہنے لگا کہ مس تو نہیں، آپ مسز گوورننس کہ سکتے ہیں۔ اب تو تصدیق بھی ہو چکی ھے کہ حکومت کو بالکل گھریلو ماحول میں چلایا جا رھا تھا۔ یہ گوورننس کا نیا ماڈل تھا آخر تک پتا نہیں چلنے دیا کہ حکمران کون ہے۔ نقاب والے، پردے والے یا ننگے سر والے۔ میں نے آخری سوال کیا کہ ملکی مسائل کے حل کے لئے کیا سوچتے تھے، بڑے لیڈر؟ دوست بولا کہ بہت مختلف سوچ تھی ان کی اس حوالے سے۔ ان کا نقطہ نظر تھا کہ مسئلے کو کھلا چھوڑ دیں جیسے پہاڑی چرواھے بکریوں کو چرنے کے لئے کھلا چھوڑ دیتے ہیں۔ شام کو بکریاں چر کر خود ہی واپس آ ہی جاتی ہیں۔ اسی طرح مسئلہ بھی خود ہی حل ہو جاتا ہے۔ کرونا کی مثال دیتے تھے کہ دیکھا ھو گیا نا حل۔ ان کا اصرار تھا کہ میں نے معیشت اور دھشت گردی کو بھی ایسے ہی حل کر چھوڑنا تھا۔ ھیش ٹیگ اور ٹرینڈ ان کے پسندیدہ کھیل تھے۔ ھائیکنگ بھی پسند ھے مگر گاڑی پر۔ پاکستان کی ترقی کے لئے پچھلے چار سالوں کا سارا بجٹ صرف سوشل میڈیا پر صرف کیا ھے۔ ٹویٹر کو سپورٹس سمجھ کے کھیلتے ہیں۔ کہتے تھے میں لگی لپٹی نہیں رکھتا۔ جہاں لگی ہو لپیٹ دیتا ھوں اور جہاں لپٹی ہو کھول دیتا ھوں۔ انہوں نے اپنی سوشل میڈیا ٹیم کو بتا رکھا ہے کہ میرے اوپر نظر رکھنی ہے اور ان پر بھی جن کی میرے اوپر نظر ہے۔ قوم کو سمجھ نہیں آنے دینی کہ ہم ہیں کہ نہیں ہیں، اور اگر ہیں تو کدھر ہیں۔ کاغذات نامزدگی جمع بھی کرواؤ اور ساتھ ساتھ ٹویٹ کی ٹکور بھی کرتے رہو کہ کاغذ جمع نہیں کروانے دے رھے۔ ورچوئل جلسوں اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس سے کام چلاؤ۔ بس چھپ کے کھیلو اور نظر نہ آئے کہ کہ کھیل رھے ہیں۔۔۔۔