چین کے بڑے شہر اپنے ہی وزن سے دب رھے ہیںTransformation of Political Conflictوفاقی کابینہ نے نجی یونیورسٹیوں اور دیگر تمام اداروں کیلئے لفظ نیشنل استعمال کرنے پر پابندی عائد کردی‏عوامی اضطراب- کیا وجہ؟‏چین میں سیلاب‏Ubermenschپونے دوپاکستان میں ہر سال 10 لاکھ مکانات کی ضرورت ہےایران نے اسرائیل پر ڈرون اور میزائیلوُں سے حملہ کر دیا ہےگوجرانوالہ- سیالکوٹ- وزیر آباد- گجرات اور لالہ موسی، بنا بنا اکنامک زونسیاچن کے محاز پر پاکستان کی فوجپاکستان کے شمالی علاقہ جاتمعاشرے کی سوچ کو بدلنا ریاست کو ماڈرن بنانے سے کہیں زیادہ ضروری ہےمعاشرےمعاشرے کی سوچ کو بدلنا ریاست کو ماڈرن بنانے سے کہیں زیادہ ضروری ہےاگر ہمّت ہو تو معزوری کوئی رکاوٹ نہیں ہوتیمیلہ 6 ستمبروہ لمحہ جب 7.4 شدت کے زلزلے نے تائیوان کو ہلا ڈالامہنگائی کی شرح ۲۰% پر آ گئی-اپنی صحت کا خیال رکھیں- سوشل میڈیا سے دور رہیںصدر ارگان کی پارٹی کو ترکی میں بلدیاتی انتخابات میں شکستافغان سرزمین دہشتگردوں کی محفوظ آماجگاہ ہے ؛ فنانشل ٹائم

ھم جیسا سوچتے ہیں، ویسا کیوں سوچتے ہیں ؟

فرض کریں ایک بچے کے میٹرک میں ۷۰% فیصد نمبر ہیں اور کلاس میں دس بچے اس سے زیادہ نمبروں والے ہیں پانچ بچے اس سے کم نمبروں والے- تو یہ بچہ لائق ھے یا نالائق ھے- اور اس کا مستقبل کیسا ہو گا- عمومی رائے تو یہی ھو گی کہ دس بچوں سے کم لائق ھے اور پانچ سے زیادہ- لیکن اگر وہ اپنے خاندان کا پہلا بچہ جس نے میٹرک کیا ہے تو وہ اپنے خاندان کا ہیرو ھے- فرض کریں وہ تعلیم جاری نہیں رکھتا اور کوئی ہنر سیکھ کے کام شروع کر دیتا ہے اور تیس سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے معاشی طور پر مکمل خود مختار ہو جاتا ھے اور اس کے میٹرک کے کلاس فیلو جو اس سے آگے تھے وہ ابھی بھی اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہیں ،توتقابلی جائزے میں یہ بچہ ان سے قابل تصور ہو گا- اس لئے کوئی ناکامی یا کامیابی نہ تو حتمی ہے اور نہ ہی اس کا کسی سے موازنہ ہو سکتا ہے- یہ ہماری سوچ اور حالات پر منحصر ھے کہ ہم اسے کیسا دیکھتے ہیں- اس لئے بچے کے نمبر ۵۰% بھی ہیں تو یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ اسے کامیاب تصور کرتے ہیں یا ناکام- بچے کے نمبر نہیں ، والدین کا رویہ اس کے مسقتبل کا تعین کرے گا-
ھم ھزار کوشش کر لیں اپنی سوچ سے آگے پرواز نہیں کر سکتے- انسانی ذھن وہی raw material استعمال کرتا ہے جو ہم اسے اپنے مشاھدے یا مطالعہ سے یا ہمارے اردگرد کا ماحول اسے مہیا کرتا ہے-پس ھماری سوچ انہیں تین ستونوں کے اوپر کھڑی ہوتی ہے- اور یہی سوچ کا اندازتمام نئے واقعات اور معلومات کو پراسس کرتا ہے- کیونکہ ہر شخص کا ذھن اپنی علمی استطاعت اور مشاھدے کے گرد پروگرام ہوا ہوا ھے اس لئے ایک ہی واقع کو ہم مختلف انداز سے تشریح کرتے ہیں- ان سب میں غلط کوئی بھی نہیں ہوتا، سب کا تجزیہ کرنے کا انداز مختلف ہے-
علم اور مشاھدہ محدود اور سطحی ھو تو سوچ ایک دائرے میں گھومتی رھتی ہے-
تنگ نظری ، کال کوٹھری کی طرح ہے- جیسے ہی آپ چلنا شروع کرتے ہیں، سامنے دیوار آ جاتی ہے- اس کا عملی مظاہرہ دیکھنا ہو تو یو ٹیوب پر، سیاسی وی لاگ دیکھیں – چند ایک وی لاگرز کو چھوڑ کر باقی سب ایک محدود دائرے کے اندر گھومتے رھتے ہیں- فالیں، اندازے ، ابہام، سنسنی ، بس یہی کچھ – بہت اعلی پائے کے تجزیہ کرنے والے بھی ہیں ، جن کو کتابوں اور تحقیق سے لگاؤ ہے- وسیع سوچ کھلے آسمان کی طرح ہے اور سوچ کی کشادگی ، مطالعہ اور مشاھدہ کی مرہون منت ہے – جیسے جیسے سوچ وسیع ہوتی جائے گی، تخیل پرواز بہتر ہوتی جائے گی- سوچ میں ایسی معجزاتی تبدیلیاں رونما ہونگی کہ آپ خود بھی حیران رہ جائیں گے- سوچ محدود ہو لیکن پرواز کی امنگ ہو تو، انسان کٹے پروں والے پرندے کی طرح پھڑا پھڑا کر نیچے گر جاتا ہے-بار بار محمل اور بے ربط راگ الاپتا جاتا ہے- غصہ، مایوسی، شخصی لالچ ، تنگ نظری کی پیداوار ہیں –

ایک ہی چیز، واقع اور مسئلے کے تجزیے کے مختلف انداز ہو سکتے ہیں – یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اسے کس عدسے سے دیکھ رہے ہیں-
مثلا، فلسطین- اسرائیل جنگ؛ اس کو تاریخی پس منظر کے حوالے سے تجزیہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ مسئلہ کیوں پس پشت ڈال دیا گیا اور ۲۰۰۷ کے بعد وقفے وقفے سے کیوں ابھرتا رھا اور پھر پردہ سکرین سے غائب ہو تا رھا- اس کو مشرق وسطی کے علاقائی تنازع کے حوالے سے پرکھا جا سکتا ہے، اس کو انسانی حقوق کی پامالی کے حوالے سے دیکھا جا سکتا ہے، اس کو صیہونیت کی دست درازی کے حوالے سے دیکھ سکتے ہیں، اس کو جیو پالیٹیکس اور جیو اکنامکس کے حوالے سے دیکھ سکتے ہیں- اس کو نان سٹیٹ ایکٹر کے عالمی سیاست میں کردار کے حوالے سے دیکھ سکتے ہیں -ان تمام عوامل کو ملا کے تجزیہ کر سکتے ہیں- یہ ھم پر منحصر ہے کہ ہم تجزیہ کس عینک کو لگا کر کر رھے ہیں-تحقیق ، علم اور جستجو کے درمیان کا معاملہ ھے- جب معاملات کی سمجھ آ جائے تو باقی کام آسان ہو جاتے ہیں –
تصویریں دیکھنے سے معاملے کی سمجھ نہیں آتی- ساری تصویریں سچ نہیں بولتی- اور آجکل کے دور میں تو بالکل بھی نہیں- سوشل میڈیا عوامی رائے پر اثر انداز ہونے کا آسان ترین اور موثر ذریعہ ہے-