ہم کیوں نہیں؟ 

اکیسویں صدی نتائج کی صدی ہے، جہاں پچھلی بیس صدیوں کے کرموں کا نتیجہ سنایا جا رہا ہے-  تاریخ کا انسان سے اس سے بھیانک برتاؤ کیا ہو گا کہ اسے اپنے ہی ہاتھ میں پکڑے چھوٹے سے ” موبائل ” کے اندر قید کر کے مار رہی ہے- 

لیکن قدرت آج کے انسان پر مہربان بھی ہے-انسانی تاریخ کا سارا علم، ساری ترقی، ساری غلطیاں، سارے راز اور فلسفے اکیسویں صدی کے انسانوں کو مہیا کر دیئے گئے ہیں کہ جان لو تم سے پہلے کیا ہوتا رھا ھے، تم کیا کر رھے ہو اور مستقبل میں کیا ہو گا- یہ انسانی علم کی ترقی  کی انتہاء ہے-

اور آج کا انسان اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی بجائے یہ تلاش کرتا پھر رھا ہے کہ آج سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ میں کیا ہوا-

اکیسویں صدی کے انسان کو قدرت نے موقع فراہم کیا ہے کہ تم جتنا اُڑ سکتے ہو اُڑ لو- اپنی صلاحیت کے بل بوتے پر آپ کچھ بھی حاصل کر سکتے ہیں- جتنا ہنر ہو اتنا حصہ ملے گا- دنیا میں آج جتنے کھرب پتی ہیں ان میں سے صرف 15 فیصد کو وراثت میں دولت ملی جبکہ باقی سب نے  خود کمائی ہے- تو آج کے نوجوانوں  سے میرا سوال یہ ہے کہ” ہم  کیوں نہیں” ؟ صرف ایک آئیڈیا راتوں رات آپ کو اور آپ کی آنے والی نسلوں کی قسمت بدل سکتا ہے

مشینی ترقی کے دور میں آج کا انسان کھیل کود اور مشاغل کے حوالے سے تھوڑا محدود بھی ہے-

آج کے دور کے مشغلے بھی  موبائل تک محدود ہیں – بچپن میں ہاتھ آیا موبائل بڑھاپے تک ساتھ جاتا ہے- بچوں ، نوجوانوں، مردوں، عورتوں ، بوڑھوں کا ذہن لگ بھگ ایک ہی طرح سوچ رہا ہے بلکہ اسے سوچنے پر لگا دیا جاتا ہے- 

گئے وقتوں کے مشغلے بھی جنگوں کی طرح dynamic تھے- بنٹے، گلی ڈنڈا، پتنگ بازی، ہاکی، کرکٹ ، کیرم بورڈ، لوڈو، تاش اور  پھر ہوتے ہوتے  ، پیشے کے اعتبار سے، ٹینس، گالف، برج ، گھڑ سواری اور فشنگ تک جا پہنچتے تھے-

 ماضی میں  مشاغل   سے جان چھڑانا مشکل ہوتا تھا-  ٹینس، گالف، برج ، گھڑ سواری اور فشنگ -اگرکوئی  شوہر  اب بھی   یہ شوق پال رھا ہے تو سمجھ جائیں کہ اس بندے کا ڈر اور خوف دور ہو چکا ہے – سیدھا پدرا شوہر ان میں سے کسی ایک  مشغلے کا بھی متحمّل نہیں ہو سکتا، چہ جائے کہ دو، تین یا چار- 

تاریخ کا یہ المیہ ہے کہ وقت  کبھی  شوہروں  کے  ساتھ  نہیں ہوتا –  جب وقت نہیں تھا تو دفتر ، بیوی  اور بچوں کو بیک وقت اس کی ضرورت تھی -اب  جب وقت ہی وقت  ہے تو نہ دفتر، نہ گھر اور نہ بیگم کو اس کی ضرورت ہے-  

 سرکاری نوکری بھی ارشمیدس کے اصول  کی طرح قوّت اچھال پر یقین رکھتی ہے – پہلے 70 کلوگرام  والے نئے نئے بابو کو اچھال  کر  100 , 105 کلو تک اوپر لاتی ہے پھر ایک دم نیچے پھینک دیتی ہے- کوئی سمجھ نہیں آئی یہ ساٹھ سال والے فارمولے کی -ایک جیتے جاگتے، اچھے بھلے آدمی کے لئے جو ابھی سٹھیایا بھی نہ ہو  یکم دم کچی مٹی کے بغیر پیندے والے  لوٹے کی طرح زمین پر پھینک کر ٹھاہ کر دیتے ہیں- ساٹھ سے اوپر نوکری نہیں لیکن حکومت کر سکتے ہیں- عنقریب دنیا پر بیاسی سالہ جوبائیڈن یااٹھہتر سالہ ٹرمپ کا راج ہو گا- 

 خوشی  کامنبہ اور بغاوت  کی معاونت باہر سے ہوتی ہے لیکن  یہ پھوٹتی اندر سے ہیں –   اور ان کا سر بھی اندر سے کچلا جاتا ہے- دنیا کی تمام خوشیوں کا گلا گھر والے گھونٹتے ہیں -آپ کی گالف کھیلنے، مچھلی کے شکار یا کتاب پڑھنے کی عادت کو کبھی ہمسائیہ نہیں ٹوکے گا- یہ منصوبہ بندی ہمیشہ آپ کے اپنے گھر کے اندر سے ہو گی-   بیویوں کی کڑی نظر کی وجہ سے شوہروں کی خوشیاں بہت چھوٹی چھوٹی ہوتی ہیں- چھ نمبر آئرن سے  گالف بال کو ہٹ کرنا، گرین پر putting ،یہ سب  رس ملائی کھانے کے مترادف ہے- اور پھر 9 ہول کھیل کر چائے پیتے ہوئے،  ہر ہول پر کی گئی معرکہ آرائی  پر ادھر ادھر کی کللکاریاں مارنے کا  جو لطف ہے ؛ واہ ، "توں کی جانے پولی اے مجّے انار کلی دی آ شاناں”- 

شوہر کتابوں میں  اپنے ماضی کے علاوہ epstine جیسے کرداروں کی کہانیاں  ڈھونڈتے  ہیں –

  کانٹا پانی میں پھینک کر گھنٹوں خاموشی سے پانی کو تکتے رہنے کا لطف، بیان سے باہر ہے- 

بہت سی دوسری ترقیاتی کامیابیوں کے علاوہ، امریکہ کا باقی دنیا سے بالکل مختلف ہونے کی وجہ کیمپ ڈیوڈ ہے- یہ دنیا کی واحد طاقت ہے جو اپنے سربراہ کی پکنک کا خیال بھی رکھتی ہے-کیمپ ڈیوڈ میں دنیا کے طاقتور ترین شخص کے لئے دوسرے درجنوں منوں رنجن کے علاوہ مچھلی کے شکار کا انتظام بھی موجود ہے- جب بھی امریکی صدر سے کوئی بڑا فیصلہ درکار ہو تو اسے پہلے مچھلی کے شکار پر لے جاتے  ہیں تاکہ سوچ میں یکسوئی مہیا ہو؛ یکسوئی کے نتائج آپ کے سامنے ہیں- امریکی صدر کی سوچ کی غلطی ایک ایک کھرب ڈالر کی پڑتی ہے- 

برج ( تاش) میں سٹرانگ ہینڈ کی خوشی ، الیکشن میں دو تہائی اکثریت سے کم نہیں ہوتی- 

مشاغل کا کوئی نعم البدل نہیں- ان کو جاری رہنا چاہیے-

۰-۰-۰-۰-

ڈاکٹر  عتیق الرحمان