Transformation of Political Conflict
طاقت اور حکمرانی کے جھگڑے کا کبھی اختتام نہیں ہوتا-یہ جگھڑاصرف اپنی نوعیت تبدیل کرتا رہتا ہے- سیاسی جگھڑا dynamic ہو چکا ہے – یہ صرف transform ہو رھا ہے، حل نہیں ہو رھا- جس ریاست میں سیاسی جگھڑا transform ہونا شروع ہو جائے وہ ہوا کے بھگولے کی طرح سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے- اس لالچ کو صرف قانون قابو کر سکتا ہے- قانون کی حکمرانی خود بخود نہیں ہوتی اور نہ اوپر سے گرتی ہے- اس کی تحریک اندر سے ہی پیدا ہوتی ہے-تحریک کے لئے سوچ ضروری ہے- لیکن status quo کی حامی قوتیں جو کہ سسٹم سے فائدہ اٹھا رہی ہوتی ہیں وہ اسے تبدیل نہیں ہونے دیتیں- ہمیں کسی نہ کسی طریقے سے مجموعی سوچ میں تبدیلی لانی ہے –
جمہوری روایات کی امین ریاستوں میں سیاسی طاقت ہی حکمرانی کا واحد راستہ ہے- وہاں tress passing کی اجازت نہیں ہوتی -یعنی شاٹ کٹ نہیں ہوتا- اور ہمیں شارٹ کے علاوہ کچھ آتا نہیں- ہم روٹین کا کام بھی سفارش سے کروانا چاہتے ہیں- جس طرح بچے سنتے نہیں بڑو ں کو دیکھ کر نقل کرتے ہیں- قومیں سیاسی قیادت کی تقلید کرتی ہیں- عوام اور لیڈر ایک دوسرے کا عکس ہوتے ہیں- پارلیمنٹ مضبوط نہیں ہو گی تو غیر سیاسی قوتیں مضبوط ہونگی- وہ تمام افراد، ادارے ، گروپ جو سیاسی عمل کا حصہ نہیں ہوتے یا سادہ الفاظ میں سیاسی ایکٹر نہیں ہوتے وہ غیر سیاسی قوتیں ہیں- اس میں عدلیہ، سرکاری حکام ، فوج ، ملک کا امیر ترین اور کاروباری طبقہ ، میڈیا سب شامل ہے- پارلیمنٹ صرف پارٹی سیاست کی مضبوطی سے مضبوط ہو سکتی ہے- گو کہ یہ ایک ریشم کے دھاگوں والا گنجل ہے لیکن راستہ یہی ہے-
پچھلے 16 سال پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بہت اہم ہیں – یہ نئے سرے سے بڑی سیاسی پارٹیوں کی آمد تھی اور جمہوریت کا نئے سرے سے آغاز تھا- بدقسمتی سے ۱۹۹۹سے ۲۰۰۷ تک پاکستان میں سیاسی نمو کی بندش کے سال تھے- دوسرے درجے کی سیاسی جماعتیں اور غیر جمہوری چہروں نے سیاست کو نقصان پہنچایا- سب سیاسی دھڑوں کی ایک ہی غلطی ہے؛ کسی نے بھی حکومت یا طاقت سیاست کے بل بوتے پر نہیں لی- سب نے سمجھوتے سے لی اور اس کا غلط استعمال کیا- معاشرہ بوجوہ تعلم اور دوسرے عوامل کیوجہ سے کمزور تھا- وہ بھی جس کے پاس طاقت دیکھتا اس کے دروازے پر جھک جاتا-دنیا جب اکیسویں صدی میں داخل ہو رہی تھی ہمارے ہاتھ سے رہی سہی جمہوریت بھی پھسل گئی-mathematics کے کلیے سے ،ملک پچھتہر سال سے بغیر حقیقی سیاست کے چل رھا ہے- اسی وجہ سے ہر فرد کی سوچ غیر سیاسی ھے-
غیر سیاسی سوچ کمزور ہوتی ھے، ایک دوسرے کو نیچہ دکھانے ، بدلہ لینے اور صرف طاقت کے حصول کی جنگ ہوتی ھے-
غیر جمہوری دور حکومت میں تھوڑی مصنوعی سی معاشی ترقی تو ہوئی لیکن ادارے تباہ ہو گئے- یہ ادارہ جاتی ترقی نہیں تھی یا یہ کہ لیں کہ bubble تھا جو پھٹ گیا- ۲۰۰۷ میں الیکشن سے عین پہلے ملک کو پہلا جھٹکا بے نظیر کی شہادت میں لگا- جب الیکشن کے بعد حکومتی معاملات شروع ہوئے تو دھشت گردی پھن پھیلائے کھڑی تھی- سوات کے اپریشن سے شروع ہونے والا معاملہ ہم آج بھی بھگت رھے ہیں- دھشت گردی کی تئیس سالہ جنگ میں بھارت مشرق وسطی اور مغربی ممالک نے سرے عام دہشتگرد گروپوں کی پرورش کی اور الزام پاکستان پر لگاتے رھے- حماس، حوثی، آی ایس آئی ایس ، افغانستان میں چھپے دھشت گرد یہ سب انہیں طاقتوں کے اشاروں پر ناچتے ہیں –
ترقی کی طرف جانے والا سرا ایسا چھوٹا کہ اب تک پکڑائی نہیں دیا- ہمیں نئی سوچ کی ضرورت ہے، جو قانون کی پاسداری پر مجبور کرے اور خود غرضی سے دور لی جائے