اوغوز خان سے ارطغرل غازی تک
انسانی معاشرے کے ارتقاء میں ہیروز کا کردار ناگزیر رہا ہے۔
ہیرو کا کردار قبل از تاریخ کے اُس زمانے سے انسانی معاشرے کی صورت گری میں غیر معمولی کردار کا حامل رہا ہے جب انسان غاروں میں زندگی بسر کر رہا تھا۔ تب کسی انسانی بستی میں رات کے وقت روشن الائو کے گر د بیٹھے ہوئے لوگ کسی ہیرو کی کہانی سے اپنے خون گرمایا کرتے تھے۔ انسان کے اولین مسکن ان غاروں کے اردگر پتھریلی چٹانوں پر بنی کسی شکاری مہم کی تصاویر بھی دراصل اپنے سورمائوں کو خراج تحسین پیش کرنے کا ایک طریقہ ہوا کر تا تھا۔
لفظ ہیرو قدیم یونانی تہذیب سے ہم تک پہنچا ہے جس کے اندر جنگ جویانہ قائدانہ اور رول ماڈل کی صفات جمع ہیں۔ یونانی دیومالائی ادب میں ہیرو سے مراد وہ فانی شخص ہے جو لافانی کارنامے سر انجام دے جائے۔ یعنی انسان کو تو بہرحال فنا ہوجانا ہے لیکن اگر اُس کے کارنامے دائمی زندگی پاجائیں تو وہ ہیرو قرار پائے گا۔ لیکن ہیرو کے یونانی تصور میں اُ س کے کارنامے کا مثبت ہونا لازم نہیں ، ان کے نزدیک ناقابل یقین جرائم کے مرتکب ہونے والے بھی ہیرو ہی کہلاتے تھے۔ آج کی دنیا میں بہرحال ہیرو مثبت کارنامے انجا م دینے والوں ہی کو قرار دیا جاتا ہے۔
ہیرو اپنی قوم، اپنے معاشروں کو زندہ رکھتے ہیں۔ یہ عزم اور جدوجہد کے منارہ رہ نور ہوتے ہیں۔ ان کا کردار ممکنات کے ایک خاص زمانے میں رائج تصور کو وسعت دینے کا باعث بنتا ہے۔ جو ناممکن سمجھا جار ہا ہو اور ناممکن ہونے کی وجہ سے ہی کوئی اسے ہاتھ نہ ڈالتا ہو، ہیرو اپنے عمل سے دکھا دیتا ہے کہ یہ پہاڑ سر کرنا بھی ممکن ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہیرو اپنے بعد نئے ہیروز کو جنم دیتے ہیں۔ تاریخ انسانی میں بہت سے ایسے ہیرو گزرے ہیں جن کی جدوجہد ، قربانی اور اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والی کامیابی پوری انسانیت کی بھلائی کا سبب بنی۔ دوسری جانب ایسے ہیروز بھی ہیں جنہوں نے اپنی قوم کی نجات اور حقوق کے لئے اس کی رہنمائی کی ۔
چین کے چیئرمین مائو، روس کے لینن، جنوبی افریقہ کے نیلسن منڈیلا اور برصغیر کے قائد اعظم محمد علی جناح ؒ ایسے ہی ہیروز کی مثالیں ہیں۔ ان شخصیات کو جہاں اپنی قوم کی جانب سے غیر معمولی عزت و احترام اور محبت حاصل ہوتی ہے وہیں مخالفین انہیں اپنی شکست کی وجہ تصور کرنے میں بھی حق بجانب ہوتے ہیں، اور شکست کسی عظیم انسان ہی کے ہاتھوں کیوں نہ ہو، ناگوار ہی ہوتی ہے۔ اسی لئے ان ہیروز کے ہاتھوں سامنے آنے والی تبدیلیوں کے خلاف آج بھی مخالفین برسرپیکار ہیں، یوں نظریاتی سطح پر شکست سے دوچار ہونے والوں کی ان ہیروز کے لیے نفرت بھی دائمی ہوتی ہے۔
مثال کے طور پر قائد اعظم کی رہنمائی میں تحریک پاکستان کے وہ مخالفین جو مذہبی طور پر مسلمان لیکن نظریاتی طور پر کانگریس پیرو کار تھے وہ پاکستان میں ہوں یا بھارت میں آج تک قائداعظم ؒ کے خلاف مصروف عمل رہتے ہیں۔دوسری اقوام کی طرح پاکستانی قوم کے ہیرو بھی ہیں لیکن جیسا کہ اوپر قائد اعظم ؒ کے حوالے سے ذکر ہوا ، پاکستان میں ایک ایسا بااثر طبقہ موجود ہے جو کسی ایسی ’ہیروشپ‘ کو قبول کرنے پر تیار نہیں ہوتا جس کی بنیاد دین پر استوار ہو۔ مثال کے طور پر متحدہ ہندوستان کی کانگریسی اور مہاسبھائی قیادت بشمول انگریز دانشوروں اور حکومتی مشینری کے سب اس ایک نقطے پر متفق تھے کہ مغل بادشاہوں میں صرف ایک شہنشاہ اکبر ہی کام کا آدمی تھا۔
اکبر کو حقیقی ہیرو کے طور پر شہرت دینے کی وجہ یہ ہے کہ اُس نے ہی ملک اور خطے کی بنیاد پر ایک ہندو قومیت کا تصور راسخ کرنے کے لیے مذاہب کو آپس میں ضم کرنے کی سنجیدہ کوششیں کیں۔ لیکن ایک قائد اعظم ؒ تھے جنہوں نے ہر موقع پر شہنشاہ اکبر کو ہیرو کے طور پر پیش کرنے کی کوششوں کو دلیل کے ساتھ ناکام بنایا۔ اُ س وقت بھی جب وائسرائے ہند نے بھارت کے عوامی نمائندوں سے اپنی تقریرمیں مستقبل کی سیاست کے لیے اکبر اعظم کو رول ماڈل بنانے کی تلقین کی، اور اُس وقت بھی جب کراچی میں آخری وائسرائے ہند لارڈ مونٹ بیٹن نے کراچی میں قانون ساز اسمبلی سے خطاب کیا تھا اور اپنے خطاب میں شہنشاہ اکبر کو رول ماڈل کے طور پر پیش کیا تھا، قائداعظمؒ نے فوری طور پر اس گمراہ کُن حملے کا جواب دیا تھا۔ حالانکہ کراچی کی تقریب قیام پاکستان کے بعد پہلی اہم سرکاری تقریب تھی اور لارڈ مونٹ بیٹن مہمان تھے پھر بھی اپنی جوابی تقریر میں قائد اعظم نے فرمایا ’’مذہبی رواداری کا سبق ہمیں اکبر سے نہیں بلکہ پیغمبر اسلام حضرت محمدؐ سے لینا ہے‘‘۔
حال ہی میں جب ترکی کے ٹیلی ویژن کی جانب سے عظیم مجاہد ارتغرل غازی پر بنائی گئی ڈرامہ سیریل اُردو ڈبنگ کے ساتھ پی ٹی وی سے دکھائی جانے لگی تو پاکستان کے اسی طبقے کو فوراً پاکستان کا مستقبل خطرے میں نظر آنے لگا۔ ان لوگوں کو اس بات پرکبھی تشویش نہیں ہوتی اگر پاکستان کے بچے سپائڈرمین ، بیٹ مین ، آئرن مین اور سُپر مین جیسے مغربی فرضی کرداروں جیسے کپڑے پہن کر انہیں اپنا ہیرو تصور کرنے لگیں، لیکن جیسے ہی اس بات کا ’’اندیشہ ‘‘پیدا ہو کہ کہیں پاکستانی قوم ارتغر ل غازی کو اپنا ہیرو مان کر مغربی ثقافتی اور سیاسی ذہنی تسلط سے آزادی کا نہ سوچنے لگے ، ہر طرف سے ہماری اشرافیہ کے اس اقلیتی مگر انتہائی موثر طبقے نے شور مچانا شروع کردیا۔
خیر یہ چشمک کیونکہ نظریاتی ہے لہذا چلتی رہے گی، یہاں ہم اس آرٹیکل کے ذریعے اُن غلط اطلاعات کی تصیح کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو اسلامی تاریخ کے اس غیر معمولی کردار کے بارے میں دانستہ یا نادانستہ طور پر پھیلائی گئی ہیں۔
اس ڈرامہ سیریل کے بارے میں ایک اور حقیقت یہ ہے کہ اس نے پاکستان میں آن ائیر ہوتے ہی مقبولیت کے سابقہ تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔ پی ٹی وی کے اعداد و شمارکے مطابق 25اپریل سے 14مئی2020 تک 133.38 ملین لوگوں نے یہ ڈرامہ دیکھا جس سے مصنوعی طور پر پیدا کئے گئے اس تاثر کا بھی دھڑن تختہ ہوجاتا ہے کہ لوگ تو بس رومانوی اور چھچھورے کرداروں بر مبنی ڈرامے دیکھنا چاہتے ہیں ۔ پی ٹی وی کے مطابق صرف پہلے 20دنوں کے اندر اس ڈرامے کے لیئے 2.1 ملین لوگوں نے چینل کو سبسکرائب کیا۔
آگے ہم رحمت اللہ ترکمن ’’جن کا اپنا نسلی اور نسبی تعلق قائی خان، ماغ خان کے ساتھ ہے‘‘ رحمت اللہ ترکمن نے اپنی کتاب میں مغربی مصنفین کی جانب سے ارتغرل کے بارے میں پھیلائی گئی گمراہ کن کی تصیح کی ہے۔
جلیل القدر پیغمبر حضرت نوح علیہ السلام کے تین بیٹے تھے: حام ، سام ، یافث۔ آپ نے تینوں بیٹوں کو زمین کے تین مختلف مقامات میں آباد ہونے کے لئے روانہ کیا۔ عرب اور ایرانی اقوام ’ سام ‘ کی اولاد ہیں، ’ حام ‘
سیاہ فام اقوام کا جد اعلیٰ تھا جبکہ یافث نے اپنے والد گرامی کے حکم سے مشرق کی جانب سفر کیا اور ایک جگہ آباد ہوا، اس نے250 سال عمر پائی، اس کے آٹھ بیٹے تھے: ترک ، خزر ، چین ، سقلاب ، روس، منگ ، کماری اور تارخ۔ یافث کا انتقال ہوا تو اس کا بیٹا ’ ترک ‘ سردار بنا۔ دنیا بھر کے ترک اور مغل اقوام اس کی نسل ہی سے پیدا ہوئیں۔
حضرت نوح علیہ السلام کے اس پوتے ’ ترک ‘ نے روئے زمین کے اکثر ممالک کا سفر کیا اور ایسیق کول (Issyk Kul) نامی جگہ پر قیام کا فیصلہ کیا۔ یہ جگہ موجودہ قرغستان میں ہے۔ ترک کے چار بیٹے تھے : توتک، چیگیل ، برسجار ، املاق۔ باپ نے مرتے وقت ’ توتک ‘ کو اپنا جانشین مقرر کیا۔ دنیا میں سب سے پہلے خوراک میں نمک کا استعمال ’ توتک ‘ ہی نے کیا تھا۔ ہوا یوں کہ ایک روز توتک شکار پر نکلا اور ایک ہرن شکار کرکے اس کا گوشت بھون کر کھا رہا تھا۔ اسی اثنا میں گوشت کا ایک ٹکڑا زمین پر گرا ۔ اس نے اٹھا کر منہ میں ڈالا تو بہت خوش ذائقہ اور لذیذ معلوم ہوا۔ معلوم ہوا کہ وہ زمین نمکیلی تھی، اس کے بعد سے نمک خوراک کا اہم جزو بن گیا۔
توتک کے بعد ’ ایلجہ خان ‘ اور اس کے بعد ’ دیپ باقوی ‘ سردار بنا۔ اس کے بعد ’ گوک خان ‘ نے ترکوں کی سربراہی سنبھال لی اور مرتے وقت ’ النجہ خان ‘ کو جانشین بنایا۔ اس کے زمانے میں ترکوں کی آبادی کافی بڑھی اور وہ ایک وسیع و عریض سرزمین پر زندگی گزارنے لگے ۔ ’ النجہ خان ‘ کے دو بیٹے تھے: تاتار اور مغل۔ وفات سے قبل النجہ خان نے دونوں بیٹوں میں مملکت برابر تقسیم کردی۔ یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے بعد یافث سے النجہ خان تک ، سب مسلمان تھے۔ تاہم اس کے بعد مال و دولت کی فراوانی میں اس قدر غرق ہوئے کہ خدا کو بھلا دیا اور کفر میں داخل ہوگئے۔
’ مغل خان ‘ کے چار بیٹے تھے : قرا خان ، گورخان ، قیرخان اور اورخان ۔ قراخان بھائیوں میں سب سے بڑا تھا ، اس لئے قبیلے کے قاعدے کے مطابق والد کے انتقال کے بعد وہی حکمران بنا۔ قراخان کا بیٹا تھا : اوغوز خان۔ یہ وہی اوغوز خان ہے جس کا بار بار ذکر ڈرامہ ’ ارطغرل ‘ میں کیا جاتا ہے، جس کی مہر جس کے ہاتھ لگ جاتی، وہی طاقتور ہوتا تھا۔ کہتے ہیں کہ اوغوز خان جب پیدا ہوا تو اس نے تین شب و روز تک اپنی ماں کا دودھ نہیں پیا تھا۔ ہر رات اپنی ماں کے خواب میں آکر کہتا کہ ’’ اے مادر ! خدائے واحد پر ایمان لے آ ورنہ میں مرجائوں گا لیکن تیرے دودھ کو منہ نہ لگائوں گا۔ بالآخر اس عورت سے بچے کا درد دیکھا نہ گیا اور وہ مخفی طور پر ایمان لے آئی۔ بعض مورخین کہتے ہیں کہ یہ اوغوز خان دراصل قرآن مجید میں مذکور ’ ذوالقرنین ‘ تھے۔
اوغوز خان کے جوان ہونے پر قرا خان نے اپنے بھائی گورخان کی بیٹی سے اس کی شادی کروا دی۔ اوغوز نے پہلی شب بیوی سے کہا : ’’ تیرا اور میرا رب ، ایک اللہ ہے جس نے پوری کائنات کی تخلیق کی، اس کی وحدانیت پر ایمان لے آ اور اس کے احکام پر عمل کر۔‘‘
بیوی نے اس کی بات قبول کرنے سے انکار کردیا ، اوغوز نے اس سے مکمل قطع تعلق کرلیا۔ قرا خان کو کچھ عرصے بعد معلوم ہوا کہ اوغوز کے اپنی اہلیہ سے تعلقات ٹھیک نہیں ہیں، چنانچہ اس نے دوسرے بھائی قیرخان کی بیٹی سے اس کی شادی کروادی لیکن اس کی یہ بیوی بھی اللہ پر ایمان لانے کو تیار نہ ہوئی۔ اوغوز نے اس سے مکمل قطع تعلق کرلیا۔ ایک دن اوغوز نے اپنے چچا ’ اورخان ‘ کی بیٹی کو دیکھا، وہ اسے پسند آگئی، اس کے پاس جاکر اپنے عقیدے سے آگاہ کیا اور اسے دین حق کی دعوت دی، وہ لڑکی ایمان لے آئی۔ اوغوز خان نے اس کے ساتھ نکاح کرلیا۔
ایک روز جب اوغوز خان شکار کے لئے گیا ہوا تھا، اس کی پہلی دونوں بیویوں نے اپنے سسر’ قراخان ‘ کے پاس جاکر اوغوز کے الگ دین پر ہونے اور ان سے قطع تعلقی سے متعلق آگاہ کیا۔ قرا خان یہ سن کر آگ بگولہ ہوا اور اپنے سپاہیوں کو جمع کرکے اوغوز کو قتل کرنے کا ارادہ کرلیا۔ اوغوز کی مسلمان اہلیہ نے آدمی بھیج کر شوہر کو خبر کردی۔ اوغوز نے بھی اپنے حامی اور قریبی سپاہیوں کو جمع کرلیا۔ جنگل میں باپ بیٹے کے درمیان لڑائی میں بیٹے کو فتح ہوئی جبکہ باپ ایک تیر لگنے سے ہلاک ہوگیا۔ اب اوغوز حکمران بن چکا تھا، نتیجتاً قوم کی اکثریت اللہ پر ایمان لے آئی۔
اوغوز خان کے چھ بیٹے تھے: گون خان ، آئی خان ، یلدیز خان ، گوک خان ، تاغ خان اور تنگیز خان۔ اوغوز نے مختلف علاقوں میں یورش کی۔ ایک روایت ہے کہ اس نے ہندوستان پر حملہ کرکے کشمیر کو فتح کیا تھا، اس کے علاوہ چین ، ایران، مصر اور شام کے علاقوں پر بھی اپنا پرچم لہرایا تھا۔ خلجی، قارلق اور اوئیغور( مشرقی ترکستان جسے چین نے ’ سنکیانگ ‘ کا نام دے رکھا ہے، میں بسنے والے لوگ ) بھی اوغوز خان کی نسل میں سے ہیں۔ آج کے ممالک ترکمانستان ، افغانستان، برصغیر پاک و ہند ، ایران ، عراق ، ترکی، آذربائیجان اور شام کے ترک قبائل اوغوز خان کی اولاد ہیں۔
اوغوز خان نے اپنے بیٹوں کو دو گروہوں میں تقسیم کیا ۔ اولاً گون خان، آئی خان ، یلدیز خان۔ ثانیاً گوک خان ، تاغ خان اور تنگیز خان۔ اوغوز کے انتقال پر بڑا بیٹا ’ گون خان ‘‘ قوم کا سربراہ بنا ۔ اوغوز خان کے چوبیس پوتے تھے، ان میں سے ہر ایک نے الگ الگ قبیلے کی بنیاد رکھی۔ ان میں سے ایک ’ قائی‘ ، دوسرا ’ چاولدور ‘ اور تیسرا ’ دودورغہ ‘ بھی تھا۔ ارطغرل غازی ڈرامہ دیکھنے والے قارئین ان تینوں ناموں سے بخوبی آگاہ ہیں۔’ گون خان ‘ کے بعد اس کا بیٹا ’ قائی خان ‘ حکمرانی کے منصب پر فائز ہوا۔ بعد ازاں ترکوں میں حکمرانی قائی خان کی اولاد میں ہی رہی۔ یہ سلسلہ ’ارطغرل غازی ‘ تک پہنچا۔
حضرت نوح علیہ السلام سے ارطغرل غازی تک کی یہ کہانی ’ ارطغرل غازی‘ کے عنوان سے لکھی گئی کتاب میں شامل ہے ، اس کے مصنف ’ رحمت اللہ ترکمن ‘ ہیں، جو قائی خان کے چچا تاغ خان کی اولاد میں سے ہیں۔ ان کے آباء و اجداد ترکمانستان میں آباد تھے،1920ء میں اشتراکی انقلاب آیا تو رحمت اللہ ترکمن کے پردادا افغانستان چلے آئے۔ 1979ء میں سوویت یونین نے افغانستان پر قبضہ کیا تو مصنف کے والد عبداللہ ترکمن اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان کے ضلع ہری پور میں آباد ہوگئے۔ رحمت اللہ ترکمن کی پیدائش یہاں پر ہوئی۔ ابتدائی ، ثانوی تعلیم پاکستان میں حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم کے لئے کابل ( افغانستان ) چلے گئے۔ آج کل افغان پارلیمنٹ کے واحد ترکمان رکن محمد شاکر کریمی کے سیکرٹری ہیں، جبکہ تحقیق و تصنیف ان کا عشق ہے۔’ ارطغرل غازی‘ کتاب میں انھوں نے ارطغرل کی زندگی کے بارے میں بہت سی ایسی باتوں کا انکشاف کیا ہے جو بہت کم لوگوں کے علم میں ہیں۔ یہ کتاب جہلم کے مکتبہ ’ بک کارنر ‘ نے شائع کی ہے۔
ارطغرل غازی اور امیر سبگتگین ( محمود غزنوی کے والد) ایک ہی نسب اور قائی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ ارطغرل غازی اور امیر سبگتگین دونوں ہی اپنے زمانے کی دو عظیم سلطنتوں کے بانی تھے۔ جس طرح ارطغرل غازی نے سلجوقیوں کے اوچ بیگی کی حیثیت سے مغرب میں بازنطینی عیسائیوں کو پے در پے شکست دے کر اسلامی سرحدوں کی وسعت میں اضافہ کیا اور عثمان غازی جیسا عظیم جانشین چھوڑا۔ اسی طرح قائی قبیلے کے سبگتگین نے بھی ہندو راجے جے پال کو شکستوں سے دوچار کرکے ہند کے علاقوں میں اسلام کی صدا بلند کی۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام اورقائی قبیلے کے بانی ’ قائی خان‘ کا عہد ایک ہی ہے۔ اس کی نسل میں کئی سردار حضرت دائود علیہ السلام اور پھر حضرت سلیمان علیہ السلام پر ایمان لائے۔ پھر اسی سلسلے میں ایک سردار ’ یاسو‘ بھی آیا۔ ایک رات اس نے خواب دیکھا کہ مملکت عرب کی طرف سے چاند اور سورج پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہے ہیں اور ان کی روشنی اس تک بھی پہنچ رہی ہے۔ اس خواب کے کچھ عرصے بعد مکہ میں حضور نبی کریم ﷺ کے اعلان نبوت کی خبر پھیلی۔ ’ یاسو‘ نے یہ سنتے ہی مسلمان ہونے کا اعلان کیا اور مویشی ذبح کرکے گوشت رعایا میں تقسیم کیا۔ اس کے بیٹا ’ قرا خان ‘ جب حکمران بنا تو اس نے اپنے ایک وزیر ’ قورقوت ‘ کو مدینہ منورہ میں بھیجا جس نے آنحضرت ﷺ کی زیارت کی جس کے بعد حضرت سلیمان فارسی ؓ اس قبیلے کے ہاں اسلام کی تعلیمات سکھانے کے لئے تشریف لائے۔
ترک قبائل رسول اکرم ﷺ سے صدیوں قبل بھی ایک خدا پر ایمان رکھتے تھے، اپنے خدا کو ’ تنگری ‘ کہتے تھے۔ ان کے عقیدے کے مطابق تمام کائنات کا خالق ایک تنگری ہے، اسی نے زمین، آسمان ، سورج ، چاند بنائے۔ وہی زندگی اور موت دیتا ہے۔ دعائیں قبول کرکے عمر میں اضافہ کرنے کا بھی اختیار رکھتا ہے۔ دیگر اقوام کے برعکس ترک کبھی بت پرست نہیں رہے۔ ان میں عبادت گاہ یا معبد کا تصور نہیں تھا، ترکوں کا عقیدہ تھا کہ ان کا خدا براہ راست سنتا اور دیکھتا ہے۔
ابن قدیم ترک قبائل کی خواتین میں چہرہ چھپانے کا رواج نہ تھا لیکن اس کے باوجود ان میں زنا و بدکاری کی شرح صفر تھی اور اسے جرم سمجھا جاتا تھا۔ اگر کوئی شخص اس فعل کا مرتکب ہوتا تو اسے موت کی سزا دی جاتی اور اس کے جسم کے دو ٹکڑے کردیے جاتے۔
ترکوں کے قدیم عقائد اور اسلام میں کئی باتیں مشترک تھیں جس کے سبب ترکوں کو اسلام قبول کرنے میں زیادہ وقت نہ لگا۔ اسلام اور تنگری ازم (Tengrism) میں بہت سے پہلو مشترکہ تھے، مثلاً ایک خدا پر ایمان، وہ ہر جگہ موجود ہے، اس کو کبھی زوال نہیں، تمام کائنات کا وہی خالق ہے، خدا کے لئے مقدس جنگ ( جہاد) کا تصور، مساوات و برابری ، نیک کاموں اور صدقات پر ایمان، اولی الامر کی اطاعت ،جنت و جہنم کا تصور ، زنا کی ممانعت ۔
گزشتہ صدی میں تصنیف کی جانے والی کتاب ’’ دولت عثمانیہ ‘‘ کے مصنف ڈاکٹر محمد عزیر نے کمال لاپروائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مغربی مستشرقین ہربرٹ گینس اور پروفیسر گرمانس کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ قائی قبیلہ اناطولیہ میں آمد کے وقت بت پرست تھا۔ اس نے ارطغرل کو بھی غیرمسلم قرار دیا جو کہ سراسر جھوٹ اور بہتان پر مبنی ہے۔
دراصل موصوف ترکی زبان سے ناشناسی کے سبب ’ نشری ‘ کی کتاب کا براہ راست مطالعہ نہ کر پائے اور مغربیوں کے کہے کو حقیقت مان کر اس کی تائید بھی کر دی۔ پھر ایک اور کتاب آئی جس کا نام ’’ تاریخ دولت عثمانیہ ‘‘ رکھا گیا۔ اسے فرانسیسی زبان میں دلاژوں کئیر نے لکھا، فرانسیسی سے انگریزی اور انگریزی سے اردو ترجمہ بالترتیب محمد مارماڈیوک پکتھال اور مولوی سید ہاشمی فرید آبادی نے کیا۔ اس میں ارطغرل کا تذکرہ آتش پرست ، بت پرست اور وحشی کہہ کر کیا گیا۔
پاکستان کے بعض پبلشرز اس کتاب کو قدیم اور مفت مال جان کر سوچے سمجھے اور پڑھے بغیر شائع در شائع کئے جا رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ارطغرل غازی کفار کی بربریت پر فہر بن کر ٹوٹا۔ البتہ ہمارے بعض مسلمان مصنفین نے اس کے بارے میں محنت اور تحقیق سے کام نہ لیا۔ انھوں نے انتہائی بنیادی ذرائع سے معلومات حاصل نہ کیں ، معلومات کی پڑتال کرنے کی کسی بھی طور پر کوشش نہ کی، یوں ارطغرل غازی سے نفرت کرنے والوں کی باتوں ہی کو آگے پہنچانے کا کام کرتے رہے۔ افسوس ہے ایسے مصنفین پر، تاہم ’ رحمت اللہ ترکمن ‘ نے اپنی کتاب میں حقائق پیش کرکے محنت اور تحقیق سے جی چرانے والوں سے پردہ ہٹادیا ہے۔ ہمارے ہاں تحقیق و تصنیف پر کام کرنے والوں کو بھی انتہائی بنیادی ذرائع سے معلومات حاصل کرنے کی عادت ڈالنی چاہئے، یہ کام کرتے ہوئے کچھ تو سمجھ بوجھ سے کام لینا چاہئے!
اسلامی اقدار کی ترویج
وزیر اعظم عمران خان نے پاک ترک تعلقات پر بات کرتے ہوئے پاکستان کے عوام سے کہا تھا کہ وہ اسلامی ثقافت اور اقدار سیکھنے کے لئے پی ٹی وی پر ارتغرل غازی ڈرامہ دیکھیں۔ انہوں نے اس موقع پر ہالی وڈ اور بالی وڈ کی فلموں کے تباہ کُن اثرات کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ فلمیں بیہودگی اور فحاش پھیلانے کا ذریعہ ہیں اور یہ فحاشی ہی ہمارے معاشرے میں ہر طرح کے جنسی جرائم میں اضافے کا باعث بن رہی ہے۔ جب کسی معاشرے میں فحاشی اور بے راہ روی عام ہوتی ہے تو خاندانی اقدار تباہ و برباد ہوجاتی ہیں۔ وزیر اعظم کی یہ بات سو فیصد درست ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ اس ڈرامے نے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ’’ اسلامو فوبیا،، (اسلام سے خوف) کے تاثر کو زائل کرنے میں عیر معمولی کردار ادا کیا ہے۔ اس ڈرامے نے یہ باور کرایا ہے کہ اسلام ایک امن پسند مذہب ہے اور مسلمان اپنے کردار میں دلیر، مہربان اور اصول پسند ہوتے ہیں۔
اس ڈرامے کے حوالے سے ایک اور انتہائی خوبصورت اور مفید بات یہ سامنے آئی ہے کہ اس میں غیر محسوس طریقے سے اُن رویوں کی ترویج کی گئی جن کی تلقین اسلام ہمیں کرتا ہے، یعنی ماں کے ساتھ کیسا برتائو ہونا چاہئے۔ بیوی کے ساتھ سلوک کس طرح کا ہونا چاہیے۔ اپنے سپاہیوں اور فوجی کمانڈروں کا کس طرح خیال رکھنا ہے اور دشمن کے ساتھ معاملات کس طرح کرنے ہیں۔
یہ سب باتیں وعظ و نصیحت کے انداز میں نہیں بلکہ کرداروں کے روزمرہ رویوں کے ذریعے دیکھنے والوں تک پہنچائی گئی ہیں اور یہی طریقہ موثر ثابت ہوتا ہے۔
اس ڈرامے کے پروڈیوسر اور اسکرین پلے لکھنے والے مہمت بزوگ کا کہنا ہے کہ مسلمان ممالک کا تجارت اور سیاسی میدانوں میں باہمی تعاون ہی کافی نہیں بلکہ انہیں فن و ثقافت میں بھی باہمی تعاون کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ وہ کہتے ہیں مجھے حیرت ہے کہ ہم ایک دوسرے کو برادر ممالک کہتے ہیں لیکن آج تک ہم نے فن و ثقافت میں مشترکہ منصوبے نہیں بنائے جب پاکستان اور ترکی میں سے کوئی ایک ملک مشکل میں ہوتا ہے تو دونوں ملکوں کے عوام اس مشکل کے حل کے لئے متحرک ہوجاتے ہیں لیکن ہمیں اچھے دنوں میں بھی اس جذبے کے تحت ایک دوسرے کے ساتھ تعاون جاری رکھنا چاہیے اور یہ تعاون صرف سینما تک محدود نہ ہو بلکہ اسے پکوانوں، عجائب گھروں اور تاریخ کے شعبوں تک وسعت حاصل ہونی چاہیے۔
اُن کا کہنا تھا کہ گو کہ پاکستان اور ترکی کی سرحدیں آپس میں نہیں ملتیں لیکن دونوں قومیں روحانی طور پر ایک قوم کی طرح ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ اس سیریل کی بیرون ملک دکھائے جانے کے نتیجے میں بہت سے لوگوں نے اس سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا ہے۔