Creative Destructive Situation

ایک تجزیہ

ہماری معاشرتی تشکیل کچے پکے، دیسی اور ولائتی ، اردو اور پنجابی والے مشترکہ ماحول سے  ھزر کر یہاں تک پہنچی ہے- جاپانی اور پاکستان made ساتھ ساتھ بکتے تھے-

پہلے مارکیٹ میں دیسی مرغی، دیسی انڈا، دیسی گھی،  گندلاں دا ساگ، سرکاری سکول، سرکاری ہسپتال ، ٹنچ باٹا، انار کلی، بورھی بازار ، بھاٹی گیٹ، لیاری،  پرانا قلعہ تھے – اب میکڈونلڈ، کے ایف سی، ککنگ آئل  ، گرلڈ میٹ ، بیکن ھاؤس ، لمز، شفاء انٹر نیشنل، ڈاکٹرز ہاسپٹل، ، ڈیفینس، گیگا مال، ڈی ایچ اے، بحریہ ٹاؤں اور نیشنل مانومنٹ بھی ساتھ ساتھ ہیں – 

یہ دو نہیں بلکہ تین ادوار کا سنگم اور چوتھا انڈسٹریل انقلاب ہے- یہ کچّی ٹاکی،  سینما  اور کیبل نیٹ ورکس سے ہو تا  ہوا نیٹ فلیکس تک آ پہنچا ہے- یہاں ماضی، حال اور مستقبل آپس میں اسطرح گڈمڈ ہو چکے ہیں کہ باقاعدہ چار نسلیں اکٹھی زندگی گزار رہی ہیں – ماضی کچھوے کی رفتار کی طرح تھا، حال تھری ڈی پرنٹنگ، AI اور تیز گام کی طرح ھے- آنے والے کل کا اندازہ 1000 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی ٹریں، سپر کمپوٹنگ  سے بھی آگے کا عندیہ دے رہا ہے- 

یہ ٹرانزیشن اتنی تیز اور اتنے وسیع پیمانے پر ھوئی ھے کہ انسانی ذہن اسے من و عن قبول کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا- کم از کم ہمارے ہاں تو نہیں- صرف وہ ترقی یافتہ ممالک استحکام میں ہیں جنہوں نے ان تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ خود کو ڈھالا اور  ٹیکنیکل سے سائبر کی طرف متوجہ ہوئے- 

جو ملک متوسط طبقے سے بھرا پڑا تھا، آج امیر ترین، امیر اور غربت کے درمیان ہچکولے کھا رھا ہے- متوسط طبقہ معدوم ہو رہا ہے- آج آگاہی زیادہ ھے، اتنی زیادہ کہ اوپر والے کچھ نہیں چھپا پا رہے- ریاست ایک ایسے دوراھے پر کھڑی ھے جہاں سب آگے بڑھنے کی کوشش کر رھے ہیں لیکن جانا کدھر ھے یہ کسی کو نہیں پتا اور سب نے اس کو حل یہ نکالا ہے ایک دوسرے پر چلّاؤ اور ایم دوسرے کو آئینہ بھی دکھاتے رہو- کیونکہ scapegoat شرمندگی سے بچنے کا واحد راستہ ہے- ٹریفک جام ہے اور سب ایک دوسرے کا راستہ روک کے کھڑے ہیں- 

پاکستانی نژاد ، برطانیہ میں مقیم پروفیسر عدیل ملک، جو آکسفورڈ میں پچھلی دو دھائیوں سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں انہوں نے حال ہی میں ایک ریسرچ پیپر لکھا ھے جس میں وہ اس صورتحال کے لئے creative destructive situation کی اصلاح استعمال کرتے ہوئے  تجویز دیتے ہیں کہ طاقتور اور امیر طبقے کو اب پیچھے ہٹنا پڑے گا- متوسط طبقہ تیزی سے معدوم ہو رھا ہے اور عوام کی مشکلات میں دن بدن اضافہ بڑھ رھا ہے- یہ ایک پیچیدہ صورتحال ہے اس کو مل جل کر ہی حل کیا جا سکتا ھے- سارے سٹیک ھولڈرز کی طاقت اگر اکٹھی ھو گی تو باہر سے مثبت جواب ملے گا- اب دھڑا دھڑ معاشی مدد کے زمانے گئے-ریاست کو اپنے شہریوں سے نیا کنٹریکٹ کرنا ھو گا جو کہ نئے زمانے کی ضرورتوں سے مطابقت رکھتا ہو – اب چھپ کر کچھ نہیں ہو سکتا- انہوں نے بہت سی غلط فہمیوں پر روشنی ڈالی ھے کہ فیک نعروں اور پالیسیوں سے کچھ ھونے والا نہیں-

پروفیسر عدیل ملک بنیادی طور پر پولیٹیکل اکانومی کے ماہر ہیں، ان کی پر مغز تحقیق پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے- دلیل کے ساتھ نازک صورتحال کا اس قدر اعلی تجزیہ کل ایک پروگرام میں سننے کا موقع ملا، ڈاکٹر صاحب کو داد دیئے بغیر چارہ نہیں-