Broken Window 

ٹوٹی کھڑکی ایک استعارہ ہے کہ خرابی کو اگر  فورا دور نہ کیا جائے تو خرابی بڑھتی رہتی ہے اور پھر ناقابل مرّمت ہو جاتی ہے-

ٹوٹی کھڑکی دراصل perception کی کہانی ھے کہ لوگ کیسے دیکھتے ہیں اور جو فیکھا ہوتا ھے اس سے کیا نتیجہ اخذ کرتے ہیں- 

” ٹوٹی کھڑکی” کے  استعارے کو ۱۹۸۲ میں  مائیکل لیوائن نے  شہر آفاق تھیوری کے طور پر  پیش کی جسے جرم و انصاف کو روکنے کے لئے ایک مستند دستاویز مانا جاتا ہے- جُرم کا تاثر اتنا ہی خطرناک ہے جتنا جُرم بذات خود- 

اگر کھڑ کی ٹوٹ جائے  تو اسے فورا ٹھیک کروائیں ورنہ   آہستہ آہستہ باقی کھڑ کیاں بھی ٹوٹ جائیں گی اور آخر میں پورا گھر دھڑام سے نیچے آ گرے گا- آج ہم جس کھنڈر  پر کھڑے ہیں یہ ٹوٹی کھڑکیوں کی فوری مرمّت نہ کروانے کا نتیجہ ہے- 

۱۹۹۰ میں اس تھیوری کو نیویارک شہر پر اپلائی کیا گیا- شہر جرائم کا گڑھ بن چکا تھا- جیسے ہی شہر میں perception تبدیل ھوئی کہ جرم کے خلاف کاروائی کا آغاز ہو گیا ہے جرائم میں حیران کن حد تک کمی واقع ھونی شروع ہو گئی-

انفرادی سوچ پر کتابیں ، فلمیں  ، آوازیں ضرور اثرانداز ہوتی ہیں لیکن یہ راستہ لمبا ہے- 

سب سے تیز اور موثر چیز جو سوچ پر حاوی ہوتی ہے وہ دوست احباب ہیں- گروپ تھنکنگ ہی سماجی روّیوں کی تشکیل کرتی ہے- اور گروپ کی سوچ کا دارومدار ان چند افراد پر ہوتا ہے جو گروپ میں متحرک ہوتے ہیں-ہر گروہ میں کچھ با اثر اور باتونی افراد ہوتے ہیں جو ہر موقع پر حاوی ہو جاتے ہیں- خاموش رہنے والے ان بااثر افراد کے زیر اثر ہوتے ہیں – ان افراد کو influencers کہا جاتا ھے- 

جب خرابی نظر آئے اسے فورا ٹھیک کرنا چاہیے- جرم کی سرکوبی میں دیر نہیں کرنی چاہیے- شیر کی آنکھ سے دیکھنے والا فارمولا ہی معاشروں کی تشکیل کا اوّلین فارمولا ہے- سستی، کاہلی، درگزر کرنے کی عادت متعدی بیماری ہے- خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے- 

معاشرے میں یہ تاثر بہت ضروری ھے کہ چھوٹے سے چھوٹے جرم کی بھی سزا ھے اور بڑے سے بڑے جرم کی بھی- کوئی سزا سے بچ نہیں پائے گا- 

کاروبا میں تاثر کا کردار اور بھی اہم ہے- گاہک آپ کے کاروبار کو کیسے دیکھتا ہے ، وہ تاثر براہ راست آپ کے کاروبار کی کامیابی سے جڑا ہے – ایک ہی چیز جو چھوٹے ٹھیلے پر ھے اور وہی چیز جو ساتھ والے بڑے mall میں ہے دونوں کی قیمت میں زمین اور آسمان کا فرق ہو گا، محظ تاثر کی وجہ سے نہ کہ ساخت یا بناوٹ کی وجہ سے- 

پاکستان کی سپورٹس کے تاثر کو سری لنکا کرکٹ ٹیم پر حملے  نگل گیا- بھاشا اور داسو ڈیم پر دہشت گرد حملے پاک- چین دوستی کے تاثر کو نگل رھے ہیں- پی ٹی ایم کے نعرے فوج کے تاثر کو گزند پہنچا گئے- کے پی میں پولیس پر دہشت گرد حملے قانون مافذ کرنے والے اداروں کی رِٹ کے تاثر کو کھا گئے- کسی یونیورسٹی کا نام اس کے طلباء کی کارکدگی کا تاثر بناتا ہے- 

موجودہ دور میں برانڈنگ ” ٹوٹی کھڑکی” کی تھیوری کے ارد گرد بنی گیا concept ہے- 

انسانی ذہن بھی گُن چکر ہے-انسانی  ذہن کوئی  مستقل سوچ  نہیں رکھتا- یہ broken windows کے اردگرد گھومتا ہے-  حالات و واقعات سوچ میںُ تبدیلی لاتے  ہیں- اگر ٹوٹی کھڑکی فورا مرّمت کروانے کا رواج ہو تو پھر معاشرے میں قانون کی پاسداری کا تاثر ابھرے گا اور چیزیں خود بخود راہ راست پر آنا شروع ھو نگی- 

ہمیں قانون کی پاسداری کاتاثر بہتر کرنا ھو گا- 

تعمیری یا تخریبی،  سوچ حالات کی دین  ہوتی ہے- معاشرے میں جو تاثر ہو گا وہی سوچ کا محرک ھو گا- خیالات وبا کی طرح پھیلتے ہیں –بعض افراد وبائی امراض کا سبب بنتے ہیں۔ آئیڈیاز کنیکٹرز، یا وسیع سوشلنیٹ ورک والے لوگوں کے ذریعے خاص طور پر تیزی سے پھیلتے ہیں۔ کچھ لوگ میں  دوسروں کو قائلکرنے  کی خداداد صلاحیت ہوتی ھے- ہر نیٹ ورک میں Mavens معلومات جمع کرتے ہیں اور کنیکٹرز پھیلاتے ہیں- 

سرخ بتی پر نہ رکنا، ون وے توڑنا، ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، ٹیکس چوری، رشوت، بے نامی جائیدادیں، عورتوں کو وراثت سے محروم کرنا، کچے کے اور پکے کے ڈاکو ، بیرونی ملک جائیدادیں، آئی پی پیز، یہ سب وہ ٹوٹی کھڑکیاں ہیں جنہوں نے یہ تاثر بنا دیا ہے کہ کوئی بھی جرم کر کے نکل سکتا ہے-  

اب نئی نسل کو ٹوٹی کھڑکیاں فورا ٹھیک کروانے کی عادت ڈالیں- مغربی اور مشرقی معاشروں کی یہ ٹوٹی کھڑکیوں کو فوری ٹھیک کروانے اور نہ کروانے کی عادت ہی معاشرتی اور معاشی ترقّی کا فرق ہے- 

آئیے ٹوٹی کھڑکیاں ٹھیک کریں-