حالیہ واقعات پر نظر دوڑائی جائے تو بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے انڈیا اور پاکستان دونوں ہی سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر کی انتظامیہ سے ناخوش ہیں اور اس سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر اپنا اثر و رسوخ قائم کرنا چاہتے تھے۔
انڈیا میں مودی حکومت ٹوئٹر پر دباؤ ڈال رہی ہے کہ سوشل میڈیا پر زور پکڑتی کسانوں کی تحریک سے جڑے اکاؤنٹس اور مواد کو فی الفور ہٹایا جائے کیونکہ انڈیا کے مطابق ان اکاؤنٹس کو مبینہ طور پر ’پاکستان کی حمایت حاصل ہے۔‘ انڈیا میں انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ کے مطابق حکومت ایسے آن لائن مواد کو بلاک کر سکتی ہے جو ’ملکی سلامتی کے لیے خطرہ ہو۔‘
دوسری جانب پاکستان نے چند ایسے ٹوئٹر اکاؤنٹس بلاک کرنے کے معاملے کو ٹوئٹر انتظامیہ کے ساتھ اٹھایا ہے جو ان کے مطابق ’کشمیر کے عوام کے حق خود ارادیت کے بارے میں ٹویٹس‘ کر رہے ہیں۔
پاکستان کے نئے سوشل میڈیا رولز کے مطابق ایسے مواد کو ہٹایا یا بلاک کیا جا سکے گا جو ’اسلام، پاکستان کی سالمیت، دفاع اور سکیورٹی کے خلاف ہوں۔‘
ملک میں آن لائن حقوق کے تحفظ کی تنظیموں نے ان قوانین پر اعتراض کیا ہے لیکن وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز نے کہا ہے کہ کسی کو اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ ’پاکستان اور اس کے اداروں کو بدنام کرے۔‘