Global Parallel Transition

دنیا میں ایسا پہلی بار ہو رہا ہے کہ ایک ہی وقت میں دنیا یونی پولر سے ملٹی پولر ہو رہی ھے اور ساتھ ہی انتہائی برق رفتاری سے انٹر نیٹ، AI اور کمپیوٹر سے متعلقہ ٹیکنالوجی کی وجہ سے تبدیلی کے عمل سے گزر رہی ہے- 

ڈبل ٹرانزیشن کے اس مخصوص دور میں موسمیاتی تبدیلیوں کے ساتھ انرجی کی ضروریات اور انفارمیشن ڈس آرڈر کے مسائل کا سامنا ھے- ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ 

ترقی اور تباہی juxtaposed ہیں- 

 موجودہ دور کے انتہائی پیچیدہ مسائل بہت سرعت سے دنیا کو لیٹ میں لیتے جا رھے ہیں اور عالمی طاقتیں نہ صرف یہ کہ ٹس سے مس نہیں ہو رہیں بلکہ مسائل کو مزید الجھا رہی ہیں-  

نان اسٹیٹ ایکٹرز کا عالمی اور ملکی سیاست میں ضرورت سے زیادہ کردار بہت سے مسائل کو جنم دے رھا ہے- 

بظاہر جن متضاد آئیڈیالوجیز  کو سامنے رکھ کر امریکی صدارتی الیکشن کی دوڑ آگے بڑھ رہی  ہے وہ عندیہ ہے کہ آنے والا عالمی منظر نامہ مزید دھندلا اور نقاہت زدہ ہو گا-

دنیا میں جب بھی عالمی طاقتوں میں کشمکش بڑھی ہے، یا کوئی سائینٹیفیک یا انڈسٹریل  انقلاب آیا ہے تو چھوٹی  ریاستوں میں بھی اسی نسبت سے تلاطم برپا ھوا ہے- بڑی اور طاقتور ریاستوں کی خفیہ لڑائی، چھوٹی ریاستوں پر قہر بن کر نازل ہوتی ہے تو انڈسٹریل انقلاب معاشرتی اور معاشی تبدیلیوں کی وجہ بنتے ہیں- transition کا یہ مرحلہ، معاشروں کا ایک حالت سے دوسری حالت میں تبدیل ہونا بہت چیلنجنگ مرحلہ ہوتا ہے جسے  ملکی سیاسی قیادت کا اصل امتحان کہا جا سکتا ہے-

عالمی طاقتوں میں کشمکش، انٹر نیٹ اور سائبر وارفیئر کی برق رفتار پرواز 2010 سے جاری ھے اور یہی وہ خاص عرصہ ہے جس میں پاکستان میں سیاسی استحکام چاہیے تھا لیکن  الٹ ھوا اور استحکام کی بجائے بحران پروان چڑھا- دہشت گردی اور پراپیگنڈا نے اس بحران کو ہوا دی تو آئی پی پیز  نے اسے بلندیوں  تک پہنچا دیا- آج پوری قوم سیاسی، معاشی  ، معاشرتی بحران کے پہاڑ پر بیٹھی اپنی غلطیوں کا خراج ادا کر رہی  ہے- 

ورلڈ وار ون کی تباھی سے دنیا ابھی پوری طرح سنبھل بھی نہ پائی تھی کہ ورلڈ وار ٹو نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا- جنگ عظیم دوئم  میں جرمنی، فرانس، جاپان،  میں بہت تباھی ہوئی – نئی ریاستیں وجود میں آئیں اور   امریکہ اور روس  میں شروع ہونے والی ایک نئی   قسم کی جنگ "کولڈ وار ” نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا- جیو پالیٹکس ، کولڈ وار  دور کی ہی سوچ ہے- اسی دور میں rationale choice کا آغاز ہوا اور خارجہ پالیسیاں دباؤ کا شکار ہوئیں- یہی وہ مشکل دور ہے جس میں ونسٹن چرچل، ڈیگال، یوشیدہ، ایڈنار، ژواین لائی، ماؤزے تنگ، خروشیف اور برزنیف جیسے لیڈروں نے دنیا کو اندھیروں سے نکالنے کی جدوجہد شروع کی- چین، جاپان، روس، امریکہ، برطانیہ کے  یہ لیڈر اپنی قوموں کو دوام بخش گئے

امریکی سابقہ صدر رچرڈنکسن کی تصنیف

” Leaders”  اپنے وقت کے پراثر عالمی لیڈروں کی سوچ اور زندگیوں کا احاطہ کرتی ہے- ورلڈ وار ٹو کے بعد ان عالمی لیڈروں نے  دنیا کو نئے سرے سے ترقی کی راہ پر ڈالا- مغربی معاشرے ترقی کر گئے اور مشرق اسی ادھیڑ بن میں رھا کہ ہم نے کس کا ساتھ دینا ہے- 

کولڈ وار کا اختتام ہوتے ہی دھشت گردی کی جنگ پھن پھیلائے کھڑی تھی- بیس سال تک جاری رھنے والی دھشتگردی کی جنگ کی باقیات ابھی چل ہی رہیں تھیں کہ چوتھے انڈسٹریل انقلاب کا طبل بجا اور ساتھ ہی کرونا، روس کا یوکرین پر حملہ، اسرائیل کا فلسطین پر حملہ شروع ہو گیا-

افراتفری کے آج کے دور میں عالمی اور قومی سطح کے بحرانوں سے نمٹنے کے لئے جس دانشمند قیادت کی دنیا کو ضرورت  ہے وہ ناپید ہے- یا شاید یہ کہنا بھی بجا ہے کہ موجودہ بحران پیدا ہونے کی وجہ  دراصل عالمی اور ملکی  قیادت میں  دور اندیشی کا فقدان، مسائل  کے حل کے لئے غیر سنجیدہ رویہ  اور غیر ضروری اھداف  کا تعین ھے- 

رچرڈ نکسن اپنی کتاب ” لیڈرز” میں لکھتے ہیں کہ کامیاب  قیادت دراصل ایک منفرد فن ھے جس کے لئے نہ صرف بے انتہا طاقت بلکہ اولین مقصد بھی درکار ھوتا ھے۔

لیڈر کی سوچ کا دائرہ نہ ھی محدود ھوتا ھے اور نہ ھی غیر لچکدار کیونکہ اس کا ھدف شخصی نھی عوامی مفاد ھوتا ھے۔ اس کا مطمع نظر لاکھوں ،کروڑوں زندگیوں کی حفاظت اور ان کو روز مرہ زندگی کے وسائل مہیا کرنا ھے – 

یہ صحیح ھے کہ ریاست کی ترقی کا دارو مدار ، اداروں کی مضبوطی میں پنہاں ھے، لیکن آپ جرمنی کی انجیلا مرکل ، برطانیہ کی  مارگریٹ تھیچر ،موجودہ  چینی  صدر شی ِجنگ کی شخصیت اور ۱ن کے سیاسی کردار کو سامنے رکھیں تو اندازہ ھو گا کہ لیڈر کی شخصیت کس قدر ملکی ترقی پر اثر انداز ھوتی ھے۔  

وہ قومیں بہت خوش قسمت ھوتی ہیں جن کی ملکی سیاسی قیادت کی اجتماعی سوچ ریاست اور عوام کا مفاد ہو۔ مشہور کتاب ” قومیں کیوں فیل ھوتی ہیں ” میں اسی غلطی کی نشاندھی کی گئی ھے کہ عوامی مفاد کے لئے فیصلے نہ کرنا قوموں کے زوال کی سب سے بڑی وجہ ھے۔ فیصلہ لیتے وقت شخصی لالچ، نفع و نقصان دراصل لیڈر شپ کی بڑی خامی میں شمار ہوتا ہے- 

پاکستان کی سیاست بہت خطرناک طریقے سے بٹی ھوئی ھے اور اس کی بڑی وجہ ذاتی سیاسی مفادات ہیں۔ 

رچرڈ نکسن نے اپنی کتاب میں جن عظیم لیڈروں کے کردار کا احاطہ کیا ھے۔ ان سب میں ایک چیز مشترک تھی۔ وہ اپنے ملک اور عوام کے لئے بے لوث خدمت کا جزبہ رکھتے تھے اور اپنے ملک اور قوم کے لئے کوئی بھی قربانی دینے کو تیار تھے۔ان عظیم لیڈروں نے اپنے ملکوں اور قوموں کو مشکلات سے نکالنے کے لئے خود غرضی کی چادر پھینک کر انتہائی جزبے  سے کام کیا۔

رچرڈ نکسن ، چرچل کا ذکر کرتے ھوئے لکھتے ہیں ونسٹن چرچل نے کبھی بھی ذاتی مفاد کے لئے طاقت کی جستجو نھی کی ، چرچل کا مطمعہ نظر ھمیشہ قومی اور ملکی مفاد تھا اور یہی اس کی کامیابی کا راز تھا۔ 

فرانس کے صدر چارلس ڈیگال کا ذکر کرتے ھوئے نکسن لکھتے ہیں ڈیگال ایک انتہائی بے غرض اور مضبوط کردار کے لیڈر تھے-   دس سال سے زائد عرصہ فرانس کے صدر رھے ، ھمیشہ فرانس اور فرانسیسی عوام کا مفاد مد نظر رکھا – ترقی یافتہ فرانس کی داغ بیل ڈالی 

جنرل ڈگلس مکارتھر جو کہ امریکی  تھے لیکن جنگ عظیم دوئم کے بعد ان کو جاپان کی نئے سرے سے تعمر وترقی کا کام ملا جسے انہوں نے آٹھ سال کے انتہائی قلیل وقت میں بے لوث جزبے سے دن رات محنت کر کے پورا کر دیا۔ 

 کیا خود غرضی کی چادر میں لپٹی ھماری سیاسی قیادت کی بے حسی ھمارے روشن مستقبل کا تعین کرپائے گی۔ کیا روزانہ کا شکوہ اور جواب شکوہ ان مسائل کا حل ہے۔ 

مشکل حالات سے نکلنے کے لئے لیڈر کا کردار بہت اھم ھوتا ھے۔ لیڈر مسائل کی وجہ نھیں ، مسائل کا حل بنتے ہیں۔وسیع سوچ اور  دور اندیشی  لیڈر کا طُرّہ امتیاز ھے۔ لیڈر ماضی سے سبق سیکھتا ھے، موجودہ حالات کا تجزیہ کرتا ھے اور پھر مستقبل کا لائحہ عمل تیار کرتا ھے۔ 

ہمیں عالمی سیاسی بھونچال اور سائبر وارفئیر کے اس دور میں دریا کے الٹے رخ تیر کر نکلنا ہے- 

پاکستانی نژاد ، برطانیہ میں مقیم پروفیسر عدیل ملک، جو آکسفورڈ میں پچھلی دو دھائیوں سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں انہوں نے حال ہی میں ایک ریسرچ پیپر لکھا ھے جس میں وہ اس صورتحال کے لئے creative destructive situation کی اصلاح استعمال کرتے ہوئے  تجویز دیتے ہیں کہ طاقتور اور امیر طبقے کو اب پیچھے ہٹنا پڑے گا- متوسط طبقہ تیزی سے معدوم ہو رھا ہے اور عوام کی مشکلات میں دن بدن اضافہ بڑھ رھا ہے- یہ ایک پیچیدہ صورتحال ہے اس کو مل جل کر ہی حل کیا جا سکتا ھے- سارے سٹیک ھولڈرز کی طاقت اگر اکٹھی ھو گی تو دنیا سے مثبت جواب ملے گا- اب دھڑا دھڑ معاشی مدد کے زمانے گئے-ریاست کو اپنے شہریوں سے نیا کنٹریکٹ کرنا ھو گا جو کہ نئے زمانے کی ضرورتوں سے مطابقت رکھتا ہو – اب چھپ کر کچھ نہیں ہو سکتا- انہوں نے بہت سی غلط فہمیوں پر روشنی ڈالی ھے کہ فیک نعروں اور پالیسیوں سے کچھ ھونے والا نہیں-

۰-۰-۰-۰-

ڈاکٹر عتیق الرحمان 

Comments (0)
Add Comment