stupidity ایک verb ھے- اس عمل کو انجام دینے والے کو انگلش میں stupid ، اردو میں احمق اور ہمارے ہاں پیار سے
” ھیرا ” بلاتے ہیں – یہ کسی جوھری کا کام نہیں بلکہ ھیروں کی یہ صنف اپنے آپ کو خود تراشتی ھے-
ہیروں کی ایجاد پر تھوڑی تحقیق شروع کی تو حیران کن انکشافات سامنے آئے-
جب کھنگالنا شروع کیا تو پتا چلا کہ احمقوں اور حماقت پر بہت تحقیق ہو چکی ہے- ہم تھوڑا دیر سے پہنچے ہیں-
ایمینول کانٹ بیسویں صدی کا بہت بڑا دانشمند تھا، اس کے مطابق حماقت کو اگر سادا لفظوں میں بیان کرنا ھو تو lack of
judgement کہیں گے- موقع محل کے برخلاف کام کر دینا-
حماقت کو اگر dunning Kruger effect کے حوالے سے دیکھیں تو احمق اپنے آپ کو دوسروں سے زیادہ عقلمند اور سمارٹ سمجھتا ھے، جبکہ حقیقت میں اس کے برعکس ہوتا ھے-
اکیلا احمق کسی کام نہیں ہوتا- اور بہت سارے احمق اکٹھے ایک گروہ میں ایک جگہ بھی نہیں رہ سکتے- اسی لئے ان کو نیٹ ورک بنانے پڑتے ہیں- اسی لئے سوشل میڈیا احمقوں کا اوڑنا بچھونا بنتا جا رھا ھے-
یوول نوا حراری اپنی نئی کتاب nexus میں لکھتا ھے کہ انفارمیشن مسئلہ نہیں، مسئلہ نیٹ ورکنگ ھے- وہ انہیں ھیروں کے نیٹ ورک کی طرف اشارہ کر رھا تھا-
پچھلے پندرہ سالوں میں ہر بچہ بھلے منہ میں سونے کا چمچہ نہ لے کے پیدا ھوا ھو، لیکن ہاتھ میں موبائل لے کر ضرور پیدا ہوا ھے- سوشل میڈیا کی ایجاد سے پہلے چند چیدہ چیدہ ھیرے تھے اور ان کا نقصان پہچانے کا دائرہ محدود تھا- لیکن اب ہیرے بھی کثرت سے ہیں اور ان کی مار کی بھی کوئی حد نہیں-
میجر جنرل شفیق الرحمان نے جب حماقتیں اور مزید حماقتیں لکھ رہے تھے تو ان کو اندازہ نہیں تھا کہ مستقبل میں یہ ہیرے کیا گل کھلائیں گے-اللہ تعالی ان کی مغفرت کرے- اردو اد ب میں مزاح کی ترویج میں ان کی بے شمار خدمات ہیں-
آپ برائی کے خلاف احتجاج کر سکتے ہیں –اسے طاقت کے استعمال سے بے نقاب اور روکا بھی جاسکتا ہے، لیکن حماقت کے خلاف آپ بے بس ہیں- حماقت بہت مہلک ہتھیار ہے جو ہر طرف تباھی مچا دیتا ھے-
بون ھافر ، ایک جرمن پادری اور انقلابی تھا اس نے باقاعدہ حماقت کی تھیوری پیش کی – ھافر کے مطابق بیوقوف لوگ، جرائم پیشہ افراد سے زیادہ خطرناک ھوتے ہیں- ھافر کے مطابق، بری نیت سے بھی کہیں زیادہ خطرناک، حماقت ہے-
روزمرّہ کی زندگی میں احمق ، عام آدمیوں میں چھپے ھوتے ہیں- یہ چلتا پھرتا مائن فیلڈ ہیں-
-اگر دشمن کو مات دینی ھو تو چند تراشے ھوئے ہیرے اس کی صفوں میں شامل کروا دیں- وہ سارے معاملات کو خود سنبھال لیں گے-سوشل میڈیا نے یہ کام آسان کر دیا ھے-
دستووسکی کہتا ھے "حماقت ایماندار اور سیدھی سادھی ھوتی ھے”- اب یہ علم نہیں دستو وسکی نے یہ حماقت کی شان میں کہا تھا یا طنز تھی- یہ بھی ممکن ھے دستو وسکی کے دور میں حماقت ایسی ہی ھو-اب تو حماقت کی کاٹ بہت تیز اور نقصان دہ ھے-حماقت پشتوں کے کشتے لگاتی جا رہی ھے-
احمق کو جب کوئی گود لے لے تو وہ انتہائی مہلک ہو جاتا ہے- کسی احمق کی ڈور کسی شاطر شخص کے ہاتھ آ جانے کا مطلب ھے کہ بندر کے ہاتھ استرا آ گیا ھے- عمومی طور پر یہ استرے بڑے بڑے لوگوں نے خطرناک ہتھیار کے طور پر بوقت ضرورت استعمال کے لئے رکھے ہوتے ہیں-
۱۹۷۶ میں کارلو سی پولا، جرمن ماھر معاشیات نے معاشرے کی تشکیل کے چار گروپوں کی نشاندھی کی؛ ذھین، بے یارو مددگار، چور اچُُّکے اور احمق-
سی پولا کے مطابق سب سے زیادہ نقصان دہ گروہ، احمقوں کا ٹولا ہے- یہ گروہ بغیر کسی مقصد کے بھی دوسروں کو نقصان پہنچاتے ہیں ۔ یہ دوسروں کو مایوس کر کے ، غصہ دلا کر یا الجھا کر خوشی محسوس کرتے ہیں۔
حماقت کا تعلیم یا سماجی حیثیت سے کوئی تعلق نہیں- یہ ہنر مند افراد ہر جگہ پائے جاتیں ہیں-
بل ایلف لکھتے ہیں کہ "احمق "بچے سے لیکر کمپنی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر تک ہر جگہ ھو سکتا ہے- یہ specie بہت کثرت سے پروان چڑھ رھی ھے-
ورچئل ورلڈ میں حماقت ایک نئی طاقت بن کر ابھری ھے- یہ متعدی بیماری بن چکی ھے ، اس کو روکاوٹوں سے نہیں anti-bodies سے روکیں – اب حماقت مارکیٹ میں مختلف ناموں سے بک بھی رھی ھے-اگر ہم قانون بنانے اور اس کی پاسداری کروانے سے روک سکتے ھوتے تو یہاں نہ چینی کے بحران ہوتے ، نہ دوسرے جرائم- آرٹیفیشیل انٹیلیجنس حماقت کو بالکل نئی شکل دینے جا رہی ھے-حماقت کی ویکسین ایجاد کریں اور معاشرے، ریاستوں اور دنیا کو تباہ ہونے سے بچائیں- معاشرے کے سوچ کو بدلیں تاکہ احمقوں کے نیٹ ورک نہ بن سکیں-