دہائیوں سے چین میں زندگی سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کے نظریے کے گرد ارتقائی مراحل طے کرتی نظر آئی ہے۔
تکنیکی طور پر ایک ’کمیونسٹ‘ ملک ہونے کے باوجود، چینی حکومت کا نظریہ نچلی سطح تک معیشت کے فوائد منتقل کرنے پر تھا۔ جس کے تحت حکومت کا یہ خیال تھا کہ معاشرے میں کچھ لوگوں کو انتہائی امیر بننے کی اجازت دینا تمام معاشرے کو فائدہ پہنچائے گا تاکہ اسے چیئرمین ماؤ کے ثقافتی انقلاب کی تباہ کن دلدل سے جتنی جلدی ہو سکے باہر نکالا جا سکے۔
ایک حد تک اس نظریے نے کام بھی کیا اور اس کے نتیجے میں چین کے معاشرے میں بڑی تعداد میں متوسط طبقہ اُبھر کر سامنے آیا اور اب چینی معاشرے کے ہر طبقے میں عوام کو بہتر معیار زندگی میسر ہے۔
دولت کی غیر منصفانہ تقسیم
1970 کی دہائی کے جمود کے بعد سے چین ہر چیز میں سرفہرست رہا حتیٰ کہ اب وہ عالمی سطح پر معاشی اعتبار سے امریکہ کا مقابلہ کر رہا ہے اور اس پر معاشی غلبہ پانے کی پوزیشن میں آ چکا ہے۔ مگر یہ سب کرتے ہوئے چین نے اپنے معاشرے میں آمدنی کی غیر منصفانہ تقسیم کا ایک خلا پیدا کر لیا ہے۔
یہ ان افراد کی اولادوں میں نمایاں ہے جو صیحح وقت پر صیحح فیصلے کر گئے تھے۔ وہ والدین جو 1980 کی دہائی میں فیکٹریاں بنانے میں کامیاب رہے، انھوں نے بے تحاشہ منافع کمایا اور اس کا ثمر آج اُن کی اولاد کھا رہی ہے۔
ان افراد کے بچے آج چمچماتی سپورٹس کاروں میں چمکتے دمکتے شہروں کی شاہراؤں پر ایسے مزدوروں کے قریب سے فراٹے بھرتے اور گزرتے دکھائی دیتے ہیں جو یہ سوچتے ہیں کہ کیا کبھی وہ اپنی زندگی میں ایک ذاتی گھر بھی خرید پائیں گے۔ ’چینی خصوصیات کے ساتھ‘ سوشلزم کے تصور نے حکومت کو بڑے پیمانے پر فلسفیانہ راستہ دیا کہ وہ ایک ایسا معاشرہ قائم کرے جو بہت سے طریقوں سے بالکل سوشلسٹ نہیں تھا۔
چین کی کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکریٹری شی جن پنگ نے یہ فیصلہ کیا کہ اب یہ نظریہ قابل قبول نہیں ہے۔ چینی حکومت نے ان کی سربراہی میں کمیونسٹ پارٹی میں کچھ حد تک کمیونسٹ کو دوبارہ رکھنا شروع کر دیا۔
جس کے بعد چینی معاشرے میں ’مشترکہ خوشحالی‘ کا نیا نعرہ سامنے آیا۔ یہ نعرہ ابھی تک چین کی سڑکوں پر لگنے والے پوسٹرز اور بینرز کی زنیت نہیں بنا لیکن وہ وقت بھی دور نہیں ہے۔ ابھی یہ چین کے لیڈر جو کر رہے ہیں اس کی بنیاد ہے۔
مشترکہ خوشحالی اور کریک ڈاؤن
اس بیانیے کے تلے امیروں کی جانب سے ٹیکس چوری کو ہدف بنانا سمجھ میں آتا ہے کیونکہ یہ اقدامات نجی تعلیمی کمپنیوں پر پابندی لگا کر تعلیم کو زیادہ مساوی بنانے کے لیے ہیں۔
ملک میں بڑی ٹیکنالوجی کی کمپنیوں پر جاری کریک ڈاؤن بھی اس منصوبے کا ایک حصہ لگتا ہے۔ تو کیا شی جن پنگ واقعی کمیونسٹ منصوبے کے خیال پر یقین رکھتے ہیں؟ اس بارے میں سو فیصد یقین سے کچھ کہنا مشکل ہے لیکن بعض ماہرین کے خیال میں یہ بظاہر ایسا ہی لگتا ہے۔
اگر ماضی میں کمیونسٹ پارٹی کے دیگر پارٹی عہدیداروں سے موازنہ کیا جائے تو ان کے متعلق ایسا محسوس نہیں ہو سکتا تھا۔
اس میں یہ امر بھی اہم ہے کہ ملک میں دولت کی د
کمیونسٹ پارٹی ہر مسئلے کا حل
چین میں بچے سست پڑ رہے ہیں اور اپنی جوانی ویڈیو گیمز کھیل کر ضائع کر رہے ہیں، نوجوان نسل کے بچاؤ کے لیے کمیونسٹ پارٹی نے اب ویڈیو گیمز کھیلنے پر روزانہ تین گھنٹے کی حد مقرر کر دی گئی۔
اسی طرح نوجوانوں کے ذہنوں میں ٹی وی زہر گھول رہا ہے اور وہ ہر وقت بیکار بیٹے ٹی وی دیکھتے رہتے ہیں، چین کی کمیونسٹ پارٹی نے اس کا بھی حل نکال لیا اور ’لڑکیوں کی طرح‘ دکھنے والے لڑکوں کے پروگراموں میں آنے پر پابندی عائد کر دی گئی۔
ملک میں آبادی کا مسئلہ ایک ٹائم بم کی مانند سامنے آ رہا ہے۔ اس مرتبہ بھی پارٹی کے پاس حل موجود ہے اور وہ ہے کہ ہر کسی کے لیے تین بچوں کی پالیسی۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی کے پاس فٹبال، سینیما، میوزک، فلسفے، بچوں، زبان، سائنس یعنی پر مسئلے کا حل ہے۔
وبارہ تقسیم کے پہلوؤں کے ساتھ ساتھ صدر شی جن پنگ بظاہر اس خیال کے حامی بھی نظر آتے ہیں کہ کمیونسٹ پارٹی کو روز مرہ کی زندگی کے بیشتر پہلوؤں کی طرف دھکیلا جائے جو کہ مقاصد حاصل کرنے کا واحد حقیقت پسندانہ طریقہ ہے۔
یہ سمجھنے کے لیے کہ کس چیز نے شی جن پنگ کو وہ لیڈر بنیا کو وہ آج ہیں کہ لیے ہمیں ان کے پس منظر کو جاننا ہو گا۔
چینی صدر شی جن پنگ کے والد شی ژونگسن کمیونسٹ پارٹی کے جنگی ہیرو تھے اور انھیں معتدل شخص کے طور پر جانا جاتا تھا۔ انھیں ماؤ کے دور میں ان کے عہدے سے ہٹا کر قید کر لیا گیا تھا۔ اس وقت شی جن پنگ کی والدہ کو مجبور کیا گیا کہ وہ ان کے والد کی مذمت اور مخالفت کریں۔
سنہ 1978 میں ان کے والد کی سرکاری طور پر دوبارہ بحالی کے بعد انھوں نے گویانگ ڈونگ صوبے میں معاشی آزادیوں کے لیے کام کیا اور اطلاعات کے مطابق انھوں نے چین کے سب سے زیادہ ترقی پسند رہنما ہویوبانگ کا دفاع بھی کیا۔
کمیونسٹ پارٹی کے رہنماؤں کے ہاتھوں اپنے والد پر زیادتیوں، ان کے والد کا اصلاحات کی جانب جھکاؤ کے باعث بہت سے افراد یہ سوال پوچھتے ہیں کہ چینی صدر شی جن پنگ اپنی پارٹی کو اس طرف کیوں لے جانا چاہتے ہیں جہاں وہ ان کے والد کے خیالات سے متصادم ہیں؟
اس کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں۔ شاید وہ مخصوص سیاسی معاملات میں اپنے والد کے خیالات سے بالکل اختلاف کرتے ہیں۔ یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ چین کے صدر کسی ایسے منصوبے پر عمل پیرا ہونے کا ارادہ رکھتے ہوں جو کہ ان کے والد کی ترجیحات سے مختلف ہو اور وہ کسی بھی طرح ماؤ دور کی پالیسیوں کے قریب بھی نہ ہو۔
تاہم یہ کافی حد تک قابل عمل لگتا ہے۔
جب ان کے والد کو جیل بھیجا گیا تو شی جن پنگ کی عمر اس وقت 15 برس تھی اور انھیں اس عمر میں برسوں کھیتوں میں کام کرنا پڑا تھا۔ اس دوران وہ غار جیسے ایک گھر میں رہتے تھے۔ ان سخت اور مشکل حالات نے یقیناً انھیں سخت بنایا ہے لیکن وہ آسانی سے سیاست سے خصوصاً سخت گیر قسم کی سیاست سے نفرت کر سکتے تھے۔
چین کے معاملات پر نظر رکھنے والے چند افراد نے قیاس کیا ہے کہ وہ شاید یقین رکھتے ہیں کہ صرف ایک مضبوط لیڈر ہی اس بات کی ضمانت دے سکتا ہے کہ چین 1960 اور 70 کی دہائی کی افراتفری میں واپس نہیں جائے گا۔
اور یہ بھی یاد رہے کہ قانون میں بھی تبدیلی کی جا چکی ہے اور اب وہ جب تک چاہیں ملک میں اقتدار میں رہ سکتے ہیں۔
اس تمام تر مفروضے کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہم نے ان کے فیصلوں کے متعلق انھیں کبھی یہ کہتے نہیں سُنا کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ چین کے رہنما کبھی انٹرویوز نہیں دیتے حالانکہ ان کی پارٹی ہی ملک کے میڈیا کو کنٹرول کرتی ہے۔
صدر اکثر ٹی وی پر کسی دیہی علاقے میں نظر آتے ہیں جہاں مقامی افراد کی بھیڑ ان کے استقبال میں نعرے لگا رہی ہوتی ہے اور جو ان کو مکئی اگانے کے اچھے مشورے دینے سمیت ان کے کام کے دیگر معاملات پر مشورہ دیتے ہیں اور پھر وہاں سے چلے جاتے ہیں۔
لہذا اس بات کا اندازہ لگانا مشکل ہے کہ چین میں معاشی سرگرمیوں پر نئے قوانین، نئی پابندیاں یا ضوابط کیا ہوں گے اور یہ معاملہ کہاں تک جائے گا۔ حالیہ کچھ عرصے میں شاید ہی ایک ہفتے کا وقت گزرا ہو جب نئے قوانین لاگو نہیں کیے گئے۔ سچی بات ہے اتنی پابندیاں لگی ہیں کہ ان کا حساب رکھنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔
ان میں سے کچھ قوانین میں تبدیلیاں تو پتہ نہیں کہاں سے آئیں تھیں۔
ایسا نہیں ہے کہ یہاں پیداوار کی مختلف سطحوں کو کنٹرول کرنے میں ریاست کا کوئی مسئلہ ہے۔ یہ ماہرین معاشیات کے لیے بحث کرنا ہے کہ سب سے زیادہ موثر کیا ہے۔ یہاں مسئلہ ہمیشہ اچانک غیر یقینی صورتحال کا رہا ہے۔ ایسی غیر یقینی صورتحال میں کوئی کیسے اپنی پائیدار سرمایہ کاری کے فیصلے لے سکتا ہے جب اسے یہ ہی علم نہ ہوں کہ اگلے ایک ماہ میں زمینی حقائق کیا ہوں گے؟
غیر یقینی کی کیفیت
یہاں پر کچھ ایسے افراد بھی ہیں جنھیں یہ تمام عمل ملک کی قدرتی ’ترقی کرنے‘ کے عمل کا حصہ لگتا ہے۔ ایسے شعبہ ہائے زندگی جہاں قانون سازی نہیں ہوئی وہاں قانون سازی کی ضرورت ہے۔
اگر ایسی بات ہے تو یہ حیران کر دینے والا وقت عارضی ہو گا اور نئے قوانین آنے کے بعد سب کچھ سنبھل جائے گا۔ لیکن اس بارے میں کچھ بھی یقینی نہیں ہے کہ ان اقدامات کے اثرات کیا ہوں گے۔
مگر ایک بات یقینی ہے کہ چین میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کو صدر شی جن پنگ کے ’مشترکہ خوشحالی‘ کے چشمے سے ہی دیکھا جائے گا۔ اور جب کمیونسٹ پارٹی اس پر عملدرآمد کرتے ہوئے اپنی طاقت کا ایک انچ بھی نہیں چھوڑے گی۔ ایسے حالات میں یا تو آپ اس سب میں شامل ہو سکتے ہیں یا اس کی مخالفت کر کے کچلے جا سکتے ہیں۔