تحریر : وثیق الرحمان
قسط نمبر1_
ادب کے شائقین بخوبی آگاہ ہیں کہ تحریر کی سب سے مشکل منزل خود نوشت ہے۔۔۔۔اپنی ذات کے بارے میں لکھنا سب سے مشکل مرحلہ ہے۔۔کہ اس میں سچ کا دامن ہاتھ سے پھسلنے لگتا ہے۔۔اپنے بارے میں پورا سچ ذات کے حصار پر پوری قوت سے حملہ آور ہوتا ہے۔۔۔انا کی شکستہ دیواریں زیرہ زیرہ ہونے کا خطرہ صاف صاف نظر آنے لگتا ہے اور کاتب گھبرا کر جھوٹ کی آغوش میں چھپ جاتا ہے۔۔۔اپنے بارے میں کیے گئے غمان کو پوری طرح غلط بیانی کے حصار میں چھپا لیتا ہے۔۔۔۔۔پھر شکست خوردہ انا اپنے لیے مقدس پناہیں ڈھونڈتی
ہے۔۔۔۔اور اس منزل سے شاید ہی کوئی مصنف پوری ایمانداری سے گزرا ہو۔۔۔۔۔البتہ اپنی کمزوریوں کو عزر کا لبادہ پہنا کر یہ کڑوی گولی۔۔۔شوگر کوٹڈ ۔۔۔نگلنا ممکنات میں سے ہے سو یہی ٹکنیک اگر کوئی سچا لکھاری اپنا لے تو بہتر وگرنہ زبان خلقت سچ پہ شاباشی کی بجائے تھو۔۔تھو کر کے اپنی تسکین کا سامان کر لیتی ہے۔۔۔۔۔
چونڈہ پبلک لائبریری کی کہانی سے پہلے میں سب سے پہلا سچ تو یہ بولنا چاہتا ہوں یہ داستان میرے ذاتی کتاب کے عشق سے شروع ہوتی ہے۔۔۔نہ کہ فروغ ادب کے جذبہ سے۔۔۔بچن میں ٹارزن کی کہانی نسیم حجازی کے ناولوں سے گزرتی ہوئی میکسم گوری کے ناول ماں” پر پہنچ کر ہانپنے گی۔۔۔اور ناول کہانی سے نکل کر باغی ادب کی طرف مائل ہونے گا۔۔۔میرے بڑے بھائی عتیق الرحمن ساحر لدھیانوی کی کتاب تلخیاں کسی دوست سے لے کر ائے۔۔۔۔۔۔پہلا شعر ہی لے ڈوبا
دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا ہے لوٹا رھا ہوں میں
لذت اور سرشاری کا یہ عالم تھا کہ کئی دن اسی شعر کی بازگشت گمان میں رھی۔۔۔۔پوری کتاب پڑھنے کا حوصلہ ہی نہ رھا۔۔۔۔جو کچھ مجھے دیا ہے لوٹا رھا ہوں میں۔۔۔۔کتنا خوبصورت انتساب تھا۔۔۔۔۔۔جوں توں کر کے کتاب کا ورق ورق الٹتا گیا اور از بر کرتا گیا۔۔۔۔مہینے میں پوری کتاب( جو مختصر سی تھی ) ختم کرنے کے بعد مزید کی جستجو میں ہر روز بھائی سے پوچھتا کوئی کتاب اس طرح کی۔۔۔انہی دنوں وہ ایک دوسری کتاب لائے خوشبو۔۔۔۔۔پروین شاکر کے اپنے رنگ ۔۔۔و سج دھج تھی۔۔۔۔۔ادب سے اتنے قاتلانہ تعارف کے بعد پھر تو جستجو کو جیسے سرخاب کے پر لگ گئے۔۔۔۔ذاتی تلاش قریبی شہر سیالکوٹ تک لے گئی۔۔۔۔روسی کتب کے تراجم ۔۔۔۔ادارہ ترقی ماسکو ۔۔۔نے اشتراکی ادب کو دنیا میں پھیلانے کے لیے جو سلسلہ شروع کیا تھا۔۔۔وہ سیالکوٹ بھی پہنچ چکا تھا۔۔۔بہت سستی۔۔۔اردو ٹائپ رائٹنگ میں ایک بک سٹور پر دستیاب تھیں۔۔۔۔دس بیس روپے میں اشتراکی ادب دستیاب تھا۔۔۔۔۔۔۔دستوفسکی۔۔۔کارل مارکس ۔۔۔۔۔سے تعارف خوش رنگ تو تھا لیکن طبعیت کو مطمعن کرنے والا ہرگز نہ تھا۔۔۔۔وہ جس معاشرے کو مدنظر رکھ کے لکھا گیا تھا اس کے واضح خدو خال ہمارے ماحول سے جدا تھے۔۔۔۔۔(کم از کم)مجھے اس وقت یونہی لگا کہ مکمل سچ نہیں جو بتایا جا رھا ہے۔۔۔۔یہ عالمی ادب میری تعلیمی دنیا کے لیے بھی تباہ کن تھا۔۔۔۔۔نصابی کتابوں سے دلچسپی کم ہوتی جا رھی تھی۔۔۔میٹرک کلاس تک میرے ادب کی داستان سنانے کے لیے میرے پاس کلاس کے دو دوست تھے۔۔۔۔یوسف اور سمیع۔۔۔۔نسیم حجازی کے ناول کئی کئی بار سننے کے بعد بغیر پڑھے ہی ان کو ازبر ہو چکے تھے۔۔۔میں جب بھی کہانی شروع کرتا وہ اگے سے سنانا شروع کر دیتے۔۔۔۔۔۔یہ تسکین کالج میں کسی حد تک پوری ہونے لگی۔۔۔۔وہاں نئے دوست۔۔۔نیا ماحول۔۔۔اور کالج کی وسیع لائبریری۔۔۔۔جہاں سے کتاب ایشو کرانا اج کل مفت انٹرنیٹ حاصل کرنے جیسا ہی تھا۔۔۔۔۔( جاری)
داستان شھدائے چونڈہ پبلک لائبریری
قسط نمبر 2..
سب سے پہلی جو لائبریری دیکھنے کا اتفاق ہوا وہ تبلیغ اسلام ھائی سکول چونڈہ کی تھی یعنی میرے اپنے سکول کی۔۔۔لائبریری کیا تھی ایک بڑے سے کمرے میں دیوار کے اندر چار بڑی الماریاں ۔۔۔بوسیدہ سے گرد الود شیشے ماتھے پہ سجائے اندر خاک کا ملبوس زیب تن کتابوں کی طہ در طہ قطاریں۔۔۔پڑھنے والوں کی منتظر رہتیں۔۔۔۔لیکن اپنے پانچ سالہ دور میں نہ تو کبھی ان الماریوں کو کھلتے دیکھا اور کتاب جاری کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔۔۔لائبریری کا انتظام بہت ہی محنتی استاد قاضی سعیدصاحب کی ذمہ واری تھی۔۔۔۔اور شخصیت کا اتنا دبدبہ۔تھا کوئی طالب علم کتاب کی طرف میلی آنکھ سے بھی نہیں دیکھ سکتا تھا۔۔۔۔ان۔کا موقف تھا کہ غیر نصابی کتابیں نصاب کی تعلم کو شدید متاثر کرتی ہیں اس وقت تو مایوسی ہوتی۔۔۔لیکن اپنی ذات پہ بے ترتیب مطالعہ کا عکس جب چالیس سال بعد دیکھا تو یہ حقیقت ۔۔۔حیران انکھوں سے دیکھی کہ وہ بالکل ٹھیک کہتے تھے۔۔۔کتب بینی میں اگر مرحلہ وار ترتیب و تنظیم نہ ہو تو انتشار فکر سے بچنا مجھ جیسے عام انسان کے لیے تقریبا نا ممکن ہی ہے۔۔۔۔البتہ بلند شخصیت لوگ اس جن کو قابو کر لیتے ہوں تو کچھ کہا نہیں جا سکتا۔۔۔۔موضوعات کی کمی نہ تھی ۔۔۔۔۔سوائے شاعری کے۔۔۔ساحر کے سوا تمام شاعر ہی متاثر کرنے سے قاصر رھے۔۔۔اقبال کی شکوہ و جواب شکوہ سے اشنائی کی امید بننے ہی والی تھی کہ ان کی مشکل پسندی سے پشیمانی ہونے لگی۔۔۔اور غالب نے نقش فریادی ۔۔۔۔سے اتنا خوف زدہ کر دیا کہ اج تک یہ ڈر لاشعور میں پیوست ہے کہ بڑے شاعروں کی شاعری سے لطف اٹھانہ ہم من چلو کا کام نہیں۔۔۔۔بسلامت روی۔۔۔از کرنل محمد خاں نے مزاح کی طرف راغب کیا تو بھائی کی معرفت ایک اور شگفتہ قلم کار شفیق الرحمن ۔۔۔۔بھی حماقتیں) سجائے زیر مطالعہ رھے۔۔۔غرض مختلف موضوعات نے اپنی حصار میں لے کیا۔۔۔۔۔میڑک کی تیاری کے لیے وقت کہاں تھا۔۔۔خیر والد صاحب کے ڈر سے تھوڑی تیاری کی اور غیر متوقع طور پر میڑک فسٹ ڈویژن میں پاس کر لیا۔۔۔غیر متوقع اس لیے کہ اساتزہ کے ساتھ والد صاحب کو بھی یقین نہیں تھا کہ میں یہ کارنامہ کر سکتا ہوں۔۔۔اس وقت میڑک کا رزلٹ والا دن بھی عجب ہی سماں باندھ دیتا تھا۔۔۔۔کتابوں والی دوکان کے باہر گزٹ کی کاپیاں سٹول پر سجائے بیٹھے۔۔۔شیخ بھائی ۔۔۔۔بھی گزٹ کو طہ کر کے اوپر ہاتھ رکھے بیٹھے رہتے کہ ۔۔۔۔پاپی پیٹ ہمارے نامہ عمال سے ہی جڑا ہو جیسے۔۔۔رزلٹ کے بعد آگر فیل ہوئے تو دس روپے اور پاس ہوئے تو پچاس۔۔۔۔جو سب سے پہلے لاھور سے رزلٹ لے آتا۔۔۔یوں جیسے اس کی تو چاندی ہو جاتی۔۔۔۔باقی دوکان دار وں کے سینے پر مونگ دھلنے کا یہ سنہری موقعہ ہوتا۔۔۔۔جن دوکان داروں کے بھیجے ہوئے بھائی بورڈ سے رزلٹ جلدی حاصل کرنے میں ناکام رہتے۔۔۔۔ان کی تاریخی بے عزتی بھی تاریخ کا حصہ ہے۔۔۔بے شمار واقعات میں رزلٹ لیٹ لانے والے کو اپنی ان گناہ گار آنکھوں سے تھپٹر پڑتے بھی دیکھے ہیں۔۔۔اور کوسنے تو رکھنے کا نام ہی نہیں لیتے تھے۔۔۔جا ہون کار اماں نوں ویکھا۔۔۔۔۔میرا رزلٹ والد صاحب نے دوبار چیک کیا۔۔۔جب ان کو واقعی یقین ہو گیا تو زندگی کی پہلی شاباش میں نے اس دن ان سے وصول پائی۔۔۔۔جو آج تک طاق دل کی مکین ہے۔۔۔۔غیر نصابی کتب میرا پہلا راستہ روکنے میں ناکام رھیں۔۔۔لیکن یہ ان کا آخری وار نہیں تھا۔۔۔۔۔ناکامیوں کے نشاں اور بھی ہیں۔۔۔۔۔ ( جاری)
داستان شھدائے چونڈہ پبلک لائبریری
قسط نمبر3
کتاب سے پہلی ملاقات 1972کے کسی مہینے میں ہوئی ۔۔۔پرائمری سکول نمبر 1داخل ہونے سے ایک روز پہلے اردو کی پہلی مشہور کتاب ا۔ انار۔۔۔ بے بکری والی۔۔۔نیا بستہ تختی اور کانے کے دو قلم ایک موٹا ایک باریک ۔۔۔گاچی۔۔۔سلیٹ اور دو سلیٹیاں۔۔۔ملیں تو دل خوش ہو گیا نئی کتابیں نیا بستہ اور سکول کا رستہ۔۔۔پہلے دن مجھے سکول جانے کی بہت خوشی اور اشتیاق تھا۔۔۔۔۔اگر آپ کو اوپر فہرست میں بعض چیزوں کا نہیں پتہ چلا کہ یہ کیا ہیں۔۔۔گاچی ۔۔یا سلیٹی والا ۔۔تو کوئی بات نہیں پھر ان کی تفصیل بتانے سے بھی اپ کو سمجھ نہیں چلنے والی کہ یہ کیا تھیں۔۔۔صرف اتنا تذکرہ کافی ہے کہ بہت مفید اور کار آمد اشیا تھیں۔۔ جو سکول کے میدان جنگ کے موثر ہتھیار تھے ۔۔پہلے دن سکول جانے کی خوشی چند دنوں میں بعد ہی اداسی اور پریشانی میں تبدیل ہونے لگی۔۔۔پہلے دن تو ٹاٹ پر ایک کونے میں کسی اور کو اٹھا کر ماسٹر جی نے والد صاحب کے سامنے مجھے بیٹھنے کے لیے جگہ فراہم کر دی۔۔۔کہ وہ مطمین ہو جائیں۔۔۔لیکن اگلے روز جب میں کلاس میں گیا تو لڑکا دوبارہ اپنی جگہ پر بیٹھا ہوا تھا۔۔وہ دنیا سے میرا پہلا انٹر ایکشن تھا۔۔۔۔۔بقا کی جنگ کی وہ شروعات تھی۔۔۔اور آج تک اسی جنگی کیفیت میں ہیں کہ ٹاٹ پر کوئی اور نہ بیٹھ جائے۔۔۔۔یہ چھوٹے چھوٹے معرکے اپنا معلم خود ہی بن جاتے ہیں۔ کلاس میں جن۔۔ابتدائی تنازعہ جات ۔۔۔سے تعارف ہوا۔۔۔ان۔میں ٹاٹ کے اوپر اچھی جگہ تلاش کرنا۔۔۔نہیں تو تھوڑا سا اور نیچے بیٹھنا پڑتا۔۔۔یعنی کوئی خاص فرق نہیں تھا وہ بھی ٹھنڈی زمین یہ بھی ٹھنڈی جگہ لیکن انا بھی تو کوئی چیز تھی۔۔۔انا بھی ان دونوں تعلیم کے ساتھ ہی پرورش پا رھی تھی ۔ ۔۔کلاس فیلو کے ساتھ مختلف ایشوز کے اوپر جب تناو پیدا ہوتا تو انا ۔۔۔مزید مضبوط ہونے لگی۔۔۔ایغو ۔۔ناہموار زمیں پر سفر کر رھی تھی۔۔۔صاف تختی کس کی ہے۔۔۔۔کون سے بچے کی دوات کے پکل ڈوبے ہوتے ہیں۔۔۔سکا کس کا زیادہ چمک دار ہے۔۔۔کس کی کتابیں جلد والی ہیں۔۔۔موٹی تختی کس کی ہے۔۔۔۔یہ وہ پہلے معاشرتی دباو تھے ۔۔۔جو طبعیت پر گراں تھے۔ہر روز توانائی تعلیم پہ کم ان جنگوں میں زیادہ استعمال ہو رھی تھی ۔۔۔اگلے روزں نئے جزبوں نئے صاف کپٹروں کے ساتھ پھر وھی معرکے۔ واپسی پہ کیچڑ والے کپٹروں کے ساتھ واپسی۔ منہ پہ سیاھی اور نانخن لگنے سے بننے والے خون کے چھوٹے نشان جو آج بھی چہرے پہ بچپن کی جنگوں کی وار ٹرافی کے طور پر موجود ہیں۔۔۔لیے واپس آتے۔۔۔ماں دیکھتے ہی پریشانی سے پوچھتی وے اج فیر ۔۔۔لڑیاں کسسے نال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فیر چھپڑ وچ وڑیا سین۔۔۔۔کوئی جواب سمجھ نہیں آتا تھا کہ ماں کو کیسے بتاوں کہ سکول کی نئی دنیا تھی ۔۔سجن کم دشمن زیادہ ۔۔۔مصیبت یہ تھی کی پاس ہی ایک عظیم یادگار چھپڑ تھا جسے اب ہم تالاب کہتے ہیں اسی تالاب کے کونے میں چھوٹی سی بندرگاہ تھی جہاں تختیاں دھوتے تھے۔۔۔یہ بندرگاہ بناتا کون تھا نہیں پتا چلا۔۔۔۔ہر روز تھوڑی گہری ہوتی جاتی اور اس کی جگہ بھی بدلتی رہتی تھی۔۔اس تختیاں دھونے کے دوران تختی کو پانی میں پھیکنے کی مہم زور پکڑ لیتی کہ کس کی تختی پہلے تالاب کے اس کنارے پہ پہنچتی۔۔۔پہلے تختی پھینکتے پھر اس کی رفتار بڑھانے کے لیے اس کے پاس پتھر۔۔۔پھینکتے کہ لہروں کے دباو سے رفتار بہتر ہو جائے۔۔۔پتھر یعنی۔۔ گیٹے۔۔ پہلے ہی بستہ میں سٹاک کیے ہوتے تھے۔۔۔یہ اسلحہ نئی بننے والی سڑ کوں کے پاس سے عام دستیاب تھا۔۔ اور ایسے جتنے بھی اسلحہ ڈپو تھے ان سب کی خبر رہتی تھی سکول کے ہر نالائق طالب علم کو ۔۔۔
یعنی سبھی کو ہوتی تھی۔۔۔ کیوں کہ سبھی نالالق تھے۔۔۔ اور یکساں تھے۔
داستان۔۔شھدائے چوندہ پبلک لائبریری
قسط نمبر 4
کتاب سے تعارفی تقریب کے مختصر احوال کے بعد ۔۔۔تحریر سے آشنائی کا احوال بھی پیش خدمت ہے۔۔۔میرے پہلے استاد محمد اشرف صاحب تھے حافظ قرآن تھے۔۔۔اور بہت ہی خوبصورت شخصیت تھی۔۔صاف ستھرا ملبوس ۔کم گو ۔۔۔اور اپنے فرض سے مکمل آشنا۔۔۔۔بہت محنت سے پڑھانے والے۔۔۔پرائمری میں تعلیم کا طریقہ کار یہ تھا کہ کلاس انچارج ہی تمام مضامین پڑھاتے ۔۔۔پوری جماعت کو پہلی سے پانچویں جماعت تک لے کر جاتے تھے۔۔۔۔ہمارے پرائمری سکول کے تین ہی کمرے تھے۔۔۔اور کلاسیں بھی تین۔۔تین استاد تھے ایک چوکیدار ۔۔۔جو گھنٹی انچارج بھی ہوتا تھا۔۔۔وہ دن میں چار بار گھنٹی بجاتا تھا۔۔۔پہلی گھنٹی کا مطلب ۔۔۔آغاز ۔۔۔۔دوسری گھنٹی تفریح۔۔۔۔وقفہ تیس منٹ۔۔۔۔تیسری گھنٹی۔۔۔۔دوبارہ آغا۔ اور آخری گھنٹی۔۔۔۔جس کا انتظار ہم پہلی گھنٹی سے ہی بے تابی سے شروع کر دیتے تھے۔۔۔۔مطلب ۔۔چھٹی۔۔۔خوشی سے چیخیں نکل جاتی تھیں وہ اوازہ سن کر۔۔۔۔۔پورا سکول مین دروازے کی طرف بھاگ نکلتا۔۔۔جیسے بھیڑیں بھاڑے سے نکلتی ہیں۔۔۔دروازے کا سائز اتنا نہیں تھا یکمشت سارے طالب علم ۔۔۔باہر تشریف نکال پاتے۔۔۔لحاظہ۔۔۔۔اس روز کا آخری معرکہ۔۔۔اسی محاذ پہ سر انجام پاتا۔۔۔۔اور دروازے سے باہر نکتے ہی چھوٹی چھوٹی کئی جنگوں کا آغاز ہو جاتا۔۔کہ تم نے مجھے دھکا کیوں دیا۔۔۔۔حالانکہ سچ تو یہ ہے کہ کوئی کسی کو دھکا نہیں دیتا تھا۔۔۔۔سارا مرحلہ ہی دھکا تھا ۔۔۔دھکے ہی تو اس دروازے کی مدد کرتے تھے کہ باہر نکل جاتے۔۔وگرنہ وہ دروازہ بچارہ تو اکیلا یہ کام کر ہی نہیں سکتا تھا۔لیکن معصوم ذہن اس وقت سمجھنے سے قاصر تھے۔۔۔پانی پت کہ ان لڑائیوں میں ۔۔۔تختی ۔۔۔ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتی جیسے فوجی سنگینوں کا استعمال کرتے ہیں۔۔۔دائیں ہاتھ میں تختی اور گلے میں بستہ لٹکا کر ۔۔۔چھٹی سے تھوڑی دیر قبل ۔۔۔اندر سے ہی تیاری کر کے ساری فوج باہر آتی کوئی پتہ نہیں کس سے جنگ شروع ہو جائے۔۔۔یہ جان گسل مرحلہ طہ کرنے والے کامیاب طلبا۔۔۔۔(اس حلیہ میں جس کا احوال اپ پڑھ چکے۔)۔۔۔پتلی گلیوں سے گھروں کو روانہ ہو جاتے۔۔۔واپسی پہ سفر کا روٹ بھی پہلے سے طہ شدہ ہوتا کہ آج کس راستے واپس جانا ہے اور کون کون اکٹھے جائیں گے۔۔۔اکثر راستہ بھی تبدیل ہو جاتا اور ہمسفر بھی۔۔۔۔نئی نئی دوستیوں اور دشمنوں کا آغاز تھا ۔۔۔اور اسی خارجہ پالیسی کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ معمالات طہ پاتے۔۔( جاری)
داستان شھدائے چونڈہ پبلک لائبریری۔۔۔۔۔کتاب کہانی
قسط نمبر 5
نصف صدی سے کچھ اوپر زندگی کا سفر طہ ہو چکا۔۔لیکن یہ تحریر لکھتے وقت اس دور کے بچپن کی حسین یادوں کا میلا سا سج گیا ہے۔اپ کو کتاب کہانی سنانے کے چکر میں آنسو نکل ائے۔دل اداس اور غمگین ۔۔موڈ۔۔۔میں غوطہ زن ہے۔خیر اپ مطالعہ جاری رکھیے اگر پڑھ کے ۔۔واٹ۔۔۔بھی لگانی ہو تو دل حاضر ہے۔ان میٹھی یادوں کا یہی حرجانہ ہے تو یہ کچھ بھی نہیں۔۔۔۔
پرائمری کی تعلیم آئندہ انے والی تعلیمی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔پانچ سال کی عمر میں معصوم ذہن پر نقش ہونے والی عبارتیں ساری زندگی ساتھ نبھاتی ہیں۔۔چاہے شعوری طور پر ہم انہیں بھول بھی جائیں لیکن لاشعوری طور پر انسان آزمائی ہوئی ریسپیز کی طرف استعمال میں لا کر کام نکال لیتا ہے۔۔۔۔ہمار ے پرائمری سکول کے اساتذہ اس پیٹرن پہ ہمیں پڑھا رھے تھے۔۔۔جو کم خرچ بھی تھا اور بالا نشیں بھی۔۔۔اس تعلیمی طریقہ کار کو تین حصوں میں بیان کرنا اسان رھے گا۔۔۔۔صبح ابتدا تلاوت قرآن سے ہوتی۔۔۔اس کے بعد لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری۔۔۔والی مشہور دعا ۔۔۔جو اج تک قبول نہیں ہوئی۔۔۔کہ پاکستان میں زندگی کاتقاضہ
ہی اس دعا کے بالکل الٹ کا متقاضی ہے۔۔۔اور اس دعا کے بعد قومی ترانہ ۔۔۔جس سے اپ سبھی آگاہ ہوں گے کہ فارسی میں ہے بالکل بھی نہ تب سمجھ تھی نہ آج ائی۔۔۔البتہ ان دونوں کی دھنیں جلد ہی یاد ہو گئی اور آشنا دھنیں ذہن پہ نقش ہو گئیں۔۔ابھی لکھتے ہوئے بھی لطف آ رھا ہے ان کا۔۔۔آپ چند لمحے فیس بک سے نکل کر ان حسین وادیوں کی سیر ضرور کیجیے گا جہاں سے صرف ایک بار ہے گزرنے کا موقعہ ملتا ہے۔۔۔اس کے بعد کلاسوں میں لائن بنا کے چلے جاتے تھے۔۔۔اور سارے دن میں یہ وہ وقت تھا جب لائن بنانے پر سختی سے عمل کروا جاتا تھا۔۔۔۔اس کے بعد اللہ تیری یاری ۔۔۔۔ٹوٹی ترتیب ہی شامل حال رہتی۔۔۔۔ گھمسان کا رن ہی پڑا رہتا ۔۔۔کیا پانی پیتے ہوئے نلکہ کے پاس یا واحد واش روم کے گرد۔۔۔اب ہم اس کو واش روم کہتے ہیں۔۔۔اس وقت اس کا خفیہ سا نام ہوتا تھا جو میں نئی نسل کے سامنے ادا کرنے میں شرم محسوس کر رھا ہوں۔۔۔۔کلاس میں انے کے بعد اسی مشہور قاعدہ سے آغاز ہوتا۔۔۔۔۔ا۔۔۔انار۔۔۔۔ب۔۔۔۔بکری والا۔۔۔یہ الفاظ دو تین دن کی مشقت کے بعد اشنا سے محسوس ہونے لگتے ۔۔۔اس کے بعد پ۔۔۔پنکھا اور ٹ۔۔۔ٹوپی بھی کوئی خاص پیچیدہ عمل نہیں تھا کیوں کے ساتھ تصویریں بھی بنی ہوتی تھیں اور اتنے کند ذہن ہم نہیں تھے کہ اتنے واضح اشارے بھی سمجھ نہ پاتے۔۔۔مشکل مرحلہ ان الفاظ کو پہلے ایک دو ہفتہ میں سلیٹ اور تختی کے اوپر لکھ کر پیش کرنے کا تھا۔۔۔ان چاروں الفاظ میں سے مشکل ۔۔بلکہ ۔۔ستم ظریف لفظ۔۔۔پنکھا ۔۔تھا۔۔۔ایک تو دو آنکھوں والی۔۔۔ ھ۔۔۔لکھنا ۔۔پل۔صراط سے گزرنے جیسا تھا۔۔۔اور پانچ حروف کو اگے پیچھ اوپر نیچے ۔۔۔لکھنا بھی۔۔۔۔کچھ نہ پوچھیں۔۔۔۔کتنے مرحلوں میں زندگی ۔۔۔۔پریشان سی رہی۔۔۔۔یہ سفر آج بھی جاری ہے۔۔۔زندگی میں ہر لمحہ ہی۔۔۔پہلی ۔۔ھ۔۔۔ لکھنے جیسا ہی ہے۔۔۔(جاری)
داستان شھدائے چونڈہ پبلک لائبریری۔۔۔کتاب کہانی
قسط نمبر 6
اس وقت ابتدائی لحاظ سےزیادہ توجہ کا مرکز دو ہی مضامین تھے۔۔۔اردو اور حساب۔۔۔یعنی میتھ۔۔۔اور چند آسان سی قرآنی آیات۔۔۔۔سور کوثر جیسی۔۔۔۔دن کا آخری حصہ جو تختی لکھنے کے بعد شروع ہوتا۔۔۔۔پہاڑے زبانی یاد کرنا تھا۔۔۔اور اس لیے لیے ایک بڑا دلچسپ طریقہ نظام تعلیم کا حصہ تھا۔۔۔پوری کلاس دو حصوں میں تقسیم ہو جاتی اور لائن بنا کر ایک دوسرے کے مدمقابل ۔۔۔بالکل امنے سامنے دو تین فٹ کا فاصلہ رکھتے ہوئے ۔۔۔میدان میں اتر آتی تھیں۔۔۔طلبا کی تقسیم میں کوئی خاص قواعد و ضوابط نہیں تھے رینڈملی
جو جدھر کھڑا ہونا چاہے۔۔۔اس لیے چند منٹ کی لابنگ کا موقعہ بھی ملتا تھا۔۔۔لائن لیڈر عام طور پر کلاس کے پہلے دوسرے نمبر کے طلبا ہوتے جو بعد میں روائیتی حریف بن کر پانچ سال نکالتے۔۔۔۔کوشش ہر دو کی یہی ہوتی کہ اس کو اپنی سائیڈ پر رکھیں جسے پہاڑے زیادہ آتے ہوں۔۔کیوں کہ یہ مقابلہ ایک ٹیم کے ناک اوٹ ہونے تک جاری رہتا۔۔۔پہاڑے مسلسل ایک سے لے کر کیری آن۔۔۔۔ہوتے تھے۔۔ہر روز ایک دونی دون دونی چار اے۔۔۔۔سے آبتدا ہوتی اور استاد جی پاس کھڑے ساری ۔۔۔۔سائنس کبڈی۔۔۔کا بغور جائزہ لیتے۔۔۔جب ایک پہاڑہ پکا ہو جاتا تو اگلے دن اس سے آگے والے۔۔۔پہاڑے کا اضافہ خود بخود ہی ہو جاتا ۔۔۔یہ مشق تقریبا سارا سال جاری رہتی۔۔۔۔پہلے بیس تک پہاڑے یاد کرنا پہلی جماعت کا آئیڈیل ہدف تھا۔۔۔۔پی ایم کی یرموک کی طرح۔۔۔۔اس دماغی معرکے میں جس کو سب سے اچھے پہاڑے اتے دوسری مخالف ٹیم اس کو ہاتھ پکٹر کے اپنی طرف بھی کھینچ سکتی تھی۔۔۔یہ فول تصور نہیں کیا جاتا تھا۔۔۔۔ہار جیت کا فیصلہ تب ہوتا جب کوئی طرف۔۔۔پہاڑہ بھول جاتی۔۔۔فتح کا جشن ۔۔۔۔پوری لائن چیخ و پکار کر کے ۔۔۔مناتی۔۔۔۔تقریبا پندرہ بیس منٹ کے
اس اجتماعی پیریڈ کے بعد چھٹی والی حسین گھنٹی بھجنے
لگتی۔۔۔۔۔۔ہماری کلاس میں اس وقت اف دی ریکارڈ جو ماحول تھا اس میں چند ایک گینگ تھے جو یک طبعیت طلبا نے بنا رکھے تھے۔۔۔پڑھنے والے طلبا ۔۔۔سکول سے بھاگنے والے طلبا ۔۔یہ گینگ خلیفہ گروپ کہلاتا تھا ۔۔اور دراصل یہی گینگ استاد کی غیر موجودگی میں کلاس کا بادشاہ ہوتا تھا۔۔۔طلبا سے کھانے پینے کی اشیا چھیننا۔۔۔سیلیٹیاں اور اگر کسی کے پاس خوش خط قلم ہوتا تو وہ ہتھیانا۔۔۔یہ سوچ کر کہ میں بھی اچھا لکھوں گا۔۔۔۔اس طرح کے تین گینگ تھے ہماری کلاس میں جن کے ساتھ بنا کر رکھنا۔۔۔مجبوری تھی وگرنہ مال کا تحفظ ممکن نہیں تھا ۔۔۔۔ان کے علاوہ ہماری کلاس کا ایک طالب علم تھا جس کا میں خصوصی ذکر کرنا چاہوں گا۔۔۔۔وہ ون مین آرمی تھا۔۔۔۔نہ تو کسی گینگ کا باقاعدہ حصہ تھا اور نہ کسی کو چیز چھیننے دیتا تھا۔۔۔۔اور اس کے لیے اس نے بڑی سادہ سی ٹکنیک اپنا رکھی تھی ۔۔۔ان کے والد لکڑی کا کارخانہ چلاتے تھے۔۔۔اور اس نے جو لکھائی والی تختی تھی وہ سائز میں تھوڑی لمبی اور موٹی بنا رکھی تھی۔۔۔اس کے مقابلہ میں باقی ساری جماعت کی تختیاں کچھ بھی قابل ذکر نہ تھیں۔۔۔۔ایک دن ہماری کلاس کے سب سے بڑے گینگ کے دو ممبرز نے اس سے کوئی چیز چھینے کی کوشش کی۔۔۔۔دونوں کے سر پہ تختی کاایک ایک وار کیا۔۔۔اور دونوں کے کھنے کھول دئیے۔۔۔۔یعنی سر پھٹ گئے۔۔۔مجھ سمیت پوری کلاس کے لیے یہ پہلی خونی جنگ ۔۔۔دیکھنے جیسا تھا ساری کلاس استاد جی کو بلانے کے بہانے کمرے سے باہر کی طرف بھاگ نکلی۔۔۔حافظ صاحب نماز پڑھ رھے تھے۔۔۔چیخ و پکار سن کر انہوں سے جلدی سے سلام پھیرا اور فورا کلاس کی طرف بھاگے۔۔۔دونوں مجزوب خوں میں لت پت کانپ رھے تھے اور بھٹو ۔۔۔یعنی ون مین آرمی ارام سے بے خوف کھٹرا تھا ۔۔۔۔فورا زخمی طلبا کو مرہم پٹی کے لیے باہر لے گئے۔۔۔۔اس خوف ناک واقعہ کے بعد ۔۔۔بھٹو۔۔۔کلاس میں جہاں بھی بیٹھتا اس کے آس پاس چار چار فٹ تک خالی سا ماحول بنا رہتا تھا۔۔۔وہاں کوئی نہیں بیٹھتا تھا۔۔۔۔وہ کم گو انسان تھا۔۔۔اور اس غیر رسمی بائی کاٹ سے اتنا پریشان بھی نہیں تھا۔۔۔۔اس کے گلے پانچ سال بہت آرام سے بے خوف خطر گزر گئے۔۔۔۔سیاسی طور پر وہ ذولفقار علی بھٹو کا دور تھا اسی حوالے سے جس لڑکے کا نام ذولفقار ہوتا سب اسے بھٹو کے نام سے پکارتے۔۔۔اسی لیے اس ہم جماعت کا نام بھی بھٹو تھا۔۔۔۔یہ تھے دوسری تیسری جماعت کے اھم واقعات۔۔۔اس کے بعد اسی سکول کے دوسرے کیمپس میں جو تھوڑی دور واقع تھا وہاں منتقل کر دیا گیا۔۔۔۔(جاری)
داستان شھدائے چونڈہ پبلک لائبریری۔۔۔۔کتاب کہانی
قسط نمبر 7
سکول نمبر ا کے دوسرے کیمپس کی عمارت پانچ چھ سو میٹر دور سڑک کے مشرقی کنارے واقع تھی۔۔۔اس عمارت کو سبھی طلبا احترام سے بڑا سکول کے نام سے پکارتے تھے۔۔۔جب دوسری جماعت میں پہنچے تو اس بڑے سکول کے خواب انکھوں میں سجنے لگے کہ کب بڑے سکول پہنچیں گے۔۔۔دراصل ان خوابوں کی وجہ بڑے سکول سے منسوب وہ داستانیں تھیں جو سیئنزر نے پھیلا رکھی تھیں۔۔۔سکول میں بہت سے پراسرار کمرے تھے۔۔۔دو کمرے ایسے بھی تھے جن کی دیواریں سلامت تھیں لیکن چھت اوپر سے نیم شکستہ تھے۔۔۔لکٹری کے کچھ بالے بمعہ ملبے کے کمروں کے درمیان ہی ایستادہ تھے اور چھوٹے سے ٹیلے کی شکل اختیار کر چکے تھے۔۔۔۔ان کمروں میں ایک کمرہ جو زیادہ بوسیدہ حالات میں تھا اس کے متعلق یہ خبر عام تھی کہ وہاں( جن)
یعنی بھوتوں کی کلاس ہوتی ہے۔۔۔۔اور اس کا ٹائم ٹیبل جو ہمیں بتایا اور سمجھایا گیا تھا۔۔۔ ہمارے چھٹی کے فورا بعد کا تھا۔۔۔۔ اس لیے پورا سکول گھنٹی بجنے سے چند منٹ پہلے ہی گرتا پڑتا گیٹ کے باہر کھڑا ملتا۔۔۔۔اگر اس جلدی میں کسی کا بستہ وغیرہ کلاس کے اندر رہ جاتا ۔۔۔۔کسی کی جرات نہ تھی کہ اکیلا واہس اندر جا سکے۔۔۔۔۔ہم نے بڑے بڑے خلیفہ اپنی اشیا اندر چھوڑ کر گھر جاتے دیکھے۔۔۔۔او آپی کل لیلاں گے۔۔(یعنی کل لے لیں گے کون سا بھاگی جا رھی ہیں)…دن کے وقت بھی وہاں سکون اور سکوت چھایا رہتا۔۔۔۔اور اس کے بہت پاس سے خیر نہیں لیکن فاصلے سے گزرتے ہوئے بھی گفتگو بند کر دی جاتی کہ کوئی جن کلاس ٹائم سے پہلے ہی نہ پہنچ گیا ہو جیسے ہم کبھی کبھار جلدی پہنچ جاتے تھے۔۔۔۔سکول کے صحن کے ایک کنارے پر بڑا سا کنواں تھا جو کبھی طلبہ کے لیے پینے کا پانی فراہم کرتا تھا۔۔لیکن۔سکول میں نلکا لگنے کے بعد وہ متروکہ شمار میں تھا۔۔۔۔ازراہ تکلف سکول انتظامیہ نے تین تین فٹ دیوار لگا رکھی تھی کہ کوئی بچہ نہ گر جائے اندر۔۔۔بچہ تو خیر کوئی نہیں گرا لیکن ہمارے ایک استادہ کسی دوسرے استاد سے لڑائی کے بعد اس میں کود جانے کا ڈرامہ اکثر کیا کرتے ۔۔۔۔جو مخالف کو خوف زدہ کرنے کے لیے ان کا موثر ہتھیار تھا۔۔۔اسی طرح کی ایک لٹرائی کے دوران جب وہ کودنے والا سین سیٹ کرنے کی کوشش کر رھے تھے ان کے مخالف استاد نے انہیں پیچھے سے دبوچ لیا اور نعرہ بلند کیا ۔۔۔
پورو اوئے کھو اج ایدا تے بندوبست کراں میں۔۔۔(یعنی کنواں بھر دو۔ ) تمام سکول کے طلبا اپنی تختیاں لیے اسی جن والے کمرے سے مٹی اٹھانے بے خطر داخل ہوئے اور مٹی بھر بھر کے کنواں میں ڈالنے لگے۔۔۔شاید عام حالات میں اس دلیرانہ کاروائی کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی لیکن ایک تو ہم تعداد میں بہت زیادہ تھے۔۔۔دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ صبح کا وقت تھا اور ابھی جنوں کی کلاس کا وقت بھی نہیں تھا۔۔۔خیر جتنا بھرا جا سکتا تھا۔۔۔بھرا۔۔۔باقی والہ حصہ اس سے اگلے دن باقاعدہ مٹی منگوا کر اسے مزدوروں نے بھر دیا ۔۔۔اس طرح وہ ہتھیار دفن کیا گیا۔۔۔اس عظیم واقع کے بعد وہ استاد کبھی لڑتے نہیں دیکھے گئے۔۔۔جیسے ان کی تلوار چھن گئی ہو۔۔۔ان اساتذہ کے نام بھی بوجہ احترام ہدف شدہ ہیں۔۔۔۔صحن کے دوسری طرف ایک نیم کا بڑا سا درخت تھا۔۔۔۔جس کے پتے حاصل کرنے اکثر باہر سے مختلف وزٹر آتے۔۔جنہیں کبھی کبھار ہی پتے لینے کی اجازت ملتی۔۔۔اس درخت کے متعلق بھی یہ رومر تھا کہ انتظامیہ اس کو بھی کٹوانے کی کوشش کر رھی ہے۔۔۔۔سکول میں بجانے والی ایک گھنٹی کے متعلق بھی دلچسپ باتیں گردش میں رہتیں تھیں۔۔۔گھنٹی نہیں بلکہ وہ ایک بڑا سا گھنٹہ تھا جو گول شکل کا تھا۔۔باہروالے کنارے فوجی ہیٹ کی طرح باہر نکلے ہوئے اور ان کناروں کے درمیانی حصہ پہ دو کٹ تھے۔۔۔اس کی ہئیت کی باریکیاں تو سمجھ سے باہر تھیں اس وقت ۔۔لیکن ابھی چند سال پہلے ہی سننے میں ایا ہے کہ 1965 کی جنگ کے بعد ملنے والے کسی بمب کا ٹکٹرا ہے۔۔۔۔لیکن اس وقت اس گھنٹی کا یہ استعمال بہت پسندیدہ تھا کہ وہ چھت کے اوپر تھی اس لیے اس کو کوئی بھی بجا سکتا تھا۔۔۔خاص طور پر چھٹی والی گھنٹی تو بہت سے طلبہ مل کو بجاتے۔۔۔
داستان شھدائے چوندہ پبلک لائبریری۔۔۔کتاب کہانی
قسط نمبر 8...
پرائمری سکول نمبر 1۔۔۔یعنی ہمارے بڑے سکول میں اساتزہ کی ٹیم چھوٹے سکول کے مقابلہ میں کافی بڑی تھی۔۔ہیڈ ماسٹر صاحب خاص طور پر بہت بارعب اور باعمل شخصیت تھے ان کا پورا نام تو بھول گیا۔۔۔کیوں کہ سب انہیں حکیم صاحب کہتے تھے۔۔۔صبح اسمبلی وہ کسی نہ کسی اخلاقی موضوع پر بات ضرور کرتے اور بہت پر تاثیر لیجے میں۔۔شیروانی اور جناح کیپ ان کا ملبوس تھا اور قائد اعظم۔کی طرح ہی دبلے پتلے تھے۔۔۔آج بھی قائد کا نام سنتے ہی ان کی طرف دھیان جاتا ہے کہ دکھنے میں ایسے ہوتے ہوں گے۔۔۔۔۔۔۔چہارم کلاس میں اردو ریاضی اور اسلامیات کے علاؤہ معاشرتی علوم کا بھی اصافہ ہو چکا تھا۔۔۔۔میجر عزیر بھٹی شھید کی کہانی اسی دور کی یاد کہ ہوئی کہانی ہے۔۔۔جغرافیہ کا مضمون خشک سا تھا۔۔سطح مرتفع پوٹھوہار اور اسی طرح کے دوسرے عجیب سے الفاظ سے اچھی خاصی بیزاری کی کیفیت تھی۔۔۔۔۔اور حساب کی بھی ایک بہت ہی نا مناسب سی ریاضت سے سامنا ہونے لگا۔۔۔۔دوکانداروں سے مختلف اشیا کی خریدوفروخت کے بعد۔۔۔ان سے جو ممکنہ تنازع جات پیدا ہو سکتے تھے ان کی مسلسل تقرار ۔۔۔اتنے روپے درجن مالٹے لیے اگر ان کی خرید پر دوکاندار کو 15فیصد منافع ہو تو آپ کی ڈیڑھ درجن پر اس کو کتنے پیسے بچیں گے۔۔۔۔۔ہمارے سینئر طالب علم ہماری گھبراہٹ دیکھ کر اور ڈراتے کہ یہ تو کچھہ بھی نہیں۔۔۔۔ابھی تو مربہ کے سوال آئیں گے پانچویں میں بچو جی۔۔۔وہ دیکھنا کتنے مشکل ہیں
۔۔اور پانچویں میں ایک اور پل۔صراط تھا وظیفہ کا امتحان ۔۔مربہ کے سوالات کی نوعیت تو یاد نہیں رھی کیسے تھے۔۔۔شاید پیمائش کے متعلق کچھ حساب کتاب تھا۔۔۔۔اور زبانی املاء بھی تو تھی۔۔۔۔خیر تین سال کی ریاضت کے بعد وظیفہ کا امتحان بھی آ پہنچا۔۔۔وظیفہ کے امتحان کے لیے اس وقت پسرور جانا پڑتا تھا۔۔۔فی طالب علم دس یا پندرہ روپے کلاس انچارج کو جمع کروا دیتا اور ہر کلاس سے تین چار طالب علم اس علمی مقابلہ کے لیے شامل ہوتے اج تک کسی کا وظیفہ لگتے نہ دیکھا نہ سنا۔۔۔۔ہو سکتا ہے کچھ عظیم طالب علم اس منزل کو سر کرتے ہوں ۔۔۔۔۔اس بڑے سے ھال کمرے کی یاد البتہ ذہن میں اج بھی تازہ ہے سیکنڑوں طالب علم اپنے اپنے گتے۔۔۔پیمانہ اور سیاھی والے ایگل کے قلم لیے زمین پر پاوں کے بل لائن در لائن بیٹے ہوئے۔۔۔۔ایک ہی دن میں تین پرچے ہوتے تھے جن میں ایک پرچہ زبانی املا بھی شامل تھا۔۔۔۔اس املا کا ایک بھاری کم لفظ اج بھی بازگشت کی طرح ذہن میں گونجتا ہے۔۔۔۔۔حب الوطنی۔۔۔۔۔سن کرجیسے پورے ھال کے طلبہ کو سانپ سونگھ گیا۔۔۔۔۔اور ایک بھنبھناہٹ گونجے لگی یہ تو پڑا ہی نہیں کبھی۔۔۔۔یعنی اوٹ آف سلیبس ہے۔۔۔ اس امتحان کا رزلٹ بھی ہمیں کبھی نہیں پتا چلہ کہ کیا ہوا ۔۔۔صرف یہ بتایا جاتا تھا کہ شامل تمام طبہ پاس ہیں۔۔۔یعنی اضافی سا امتحان تھا بہت ذہین طالبہ کو چھانٹی کرنے کے لیے۔۔۔خدا کا شکر ہے ہمارا شمار عام سے طلبہ میں ہوتا تھا اس لیے ۔۔۔چھٹی کلاس میں پہنچنے کا موقعہ مل گیا۔۔۔اسلامیہ ھائی سکول میں داخلہ بہت مشکل تصور کیا جاتا تھا ۔۔۔کیونکہ اس سکول میں بیٹھنے کے لیے ڈیسک ملتے تھے ۔۔جبکہ ڈی سی ھائی سکول کے طلبہ زمین پر بیٹھتے تھے۔۔۔البتہ سننے میں اتا تھا حصہ ھائی میں طلبہ کو بیٹھنے کے لیے اینٹیں دستیاب ہوتی ہیں ۔۔۔کیونکہ یہ دونوں سہولیات اتنی چارمنگ نہ تھیں اس لیے۔۔۔۔ہر طالب علم کو کوشش ہوتی کہ تبلیغ السام ھائی سکول میں داخلہ ملے۔۔۔لیکن وہاں داخلہ سے پہلے ٹیسٹ لیا جاتا اور پاس طلبہ کو ہی داخلہ ملتا تھا۔۔۔کم از کم پہلے چار پانچ روز تو اس میرٹ کو مین ٹین رکھا جاتا۔۔۔البتہ چند دونوں بعد ناکام طلبہ اپنے محلے والے اساتزہ کا جینا دوبر کر دیتے۔۔۔۔سفارش تلاش کرنا کون سا مشکل کام تھا ۔۔۔کیونکہ تمام اساتزہ لوکل ہی ہوتے تھے یا نزدیکی گاوں سے لحاظہ تمام ناکام طلبہ بھی دوبارہ کلاس میں دیکھتے ہی۔۔۔۔امتحان میں پاس طلبہ کو سخت مایوسی ہوتی کہ محلے میں نیچے بیٹھنے کا طعنہ کس کو دیکھ کر لطف حاصل کرتے۔۔جب۔میرٹ کی اس طرح دھجیاں بکھیری جاتی ہوں تو نتیجہ واضح۔ ےھا۔۔۔ہم۔سب نالائق طلبہ دوبارہ چھٹی میں ایک عظیم کلاس کی صورت میں موجود تھے۔۔۔(۔جاری)
داستان شھدائے چونڈہ پبلک لائبریری۔ کتاب کہانی
قسط نمبر 9
جس سال ہم چھٹی میں پہنچے اسی سال مولا جٹ بھی رلیز ہوئی۔۔۔۔قیام پاکستان کے بعد یہ سب سے اہم ثقافتی واقعہ تھا جس نے پاکستانیوں کی زندگی پر بہت گہرے اثرات چھوڑے۔۔۔تفصیل سے کچھ گذارشات سن لیں پھر جو جی میں ائے تاثر قائم کیجیے گا۔۔۔۔۔جب مولا جٹ رلیز ہوئی تو ہر چار سو اسی کے چرچے تھے۔۔۔اس وقت ذہنی عیاشی کے دو ہی میڈیم تھے ایک اخبار دوسرا ریڈیو۔۔۔۔بلیک اینڈ وائٹ ٹیلی ویژن اپنی جگہ بنانے کی کوشش کر رھا تھا اور پورے قصبہ کے صرف ایک دو گھروں تک ہی پہنچ پایا تھا۔۔۔اوروہ خوش قسمت گھر پورے محلہ بلکہ قصبہ کی توجہ کا مرکز ہوتے تھے۔۔۔مغل اعظیم مشہور بھارتی فلم اور وارث ڈرامہ کی قسط پورا پورا محلہ اور نزدیکی رشتہ دار چھوٹی سی بیٹھک میں زمین پر بیٹھے لطف اندوز ہوتے دیکھے۔۔۔یہ باتیں اج شاید عجیب سی اور نا قابل یقین لگیں لیکن اس امید پر باعث تحریر ہیں کہ اس کے بہت سے گواہ ابھی موجود ہیں تصدیق کے لیے۔۔۔گو جو بھی سچی گواھی دے گا وہ یا تو مکمل بوڑھا ہو چکا ہے یا ابھی بڑھاپے کا بچپن گزار رھا ہے۔۔۔
خیر ہر روز مولا جٹ کا ٹریلر ریڈیو پر 12بجے کے خبر نامہ سے پہلے اور بعد میں چلایا جاتا تھا۔۔۔۔ہر ذہن پر نوری نت اور مولا جٹ کے ڈائیلاگ نقش ہو چکے تھے۔۔۔۔نواں آیاں سونیا۔۔۔۔تو زبان زد عام تھا۔۔۔۔فلم دیکھنے سے پہلے ہی تمام اھم واقعات سے آگاھی ہو چکی تھی۔۔۔میرا شمار تو خیر ان چند خوش قسمت لوگوں میں تھا کہ رلیز پر ہی اپنے ایک رشتہ دار کی بدولت یہ تاریخی معرکہ سر چکا تھا۔۔۔اور ریڈیو پر چلنے والی ایڈ عجیب سے لطف اور سرشاری میں بدل جاتی تھی۔۔۔
اس تاریخی ورثہ کی اھمیت کا اندازہ اس سے لگا لیجیے کہ لاھور کے ایک سینما میں چالیس سال تک یہ فلم نمائش کے لیے پیش کی جاتی رھی۔۔۔معاملہ تو خیر نمائش کے بہت اگے ہے لیکن ۔۔۔چھٹی کے مزید اھم واقعات کی طرف بڑھتے ہیں۔۔۔ابھی ہماری کلاس شروع ہوئے کچھ ہی ماہ گزرے تھے کہ ہمارے ایک ہم جماعت کی شادی ہو گئی۔۔۔جی بالکل باقاعدہ شادی اور رخصتی اکٹھے ہی انجام پائے۔۔۔جس طرح اپ پڑھ کر حیران ہوئے ہیں۔۔۔۔ہم تمام ہم جماعت تو مارے حیرت اور خوشی کے پھولے نہیں سما رھے تھے۔۔۔۔ہمارے ہم جماعت کا نام بوجہ صیغہ راز ہی رھے گا۔۔۔۔اچانک پوری کلاس اس سے دوستی کے لیے بے قرار تھی۔۔۔پہلے اس بچارے کو کوئی پوچھتا بھی نہیں تھا۔۔۔اور جب وہ چند دن شادی کی چھٹی کے بعد کلاس میں دوبارہ آیا تو اس کے ہاتھوں پہ مہندی لگی تھی۔۔۔اور دائیں ہاتھ پہ ایک پھولوں کا مرجھایا ہورا گجرا بھی تھا جو شاید اس نے نشانی کے طور پر ہمیں جلانے کے لیے رکھ چھوڑا تھا جس میں وہ مکمل کامیاب بھی تھا۔۔۔۔اس کے کلاس میں اتے ہی پہلے تو گہرا سکوت چھا گیا ۔۔جب وہ اپنی جگہ پہ بیٹھ گیا تو سب اس کی گرد اکٹھے ہو گئے۔۔۔اتنا غیر ضروری رش یا تو ہم نے مفت کی چیز لیتے ہوئے ہوا دیکھا یا اس خوش قسمت کے گرد۔۔۔۔اس وقت یہی لگا کہ یہ کوئی مقدر کی سکندری جیسا ہے۔۔۔یہ راز تو خیر بعد میں آنے والی زندگی نے اشکار کیا کہ وہ بیچارہ خوش قسمت تو پتہ نہیں تھا کہ نہیں البتہ بچن میں ہی اس کو عمر قید کی سزا سنا دی گئی ۔۔۔(جاری)
داستان شھدائے چونڈہ پبلک لائبریری۔ کتاب کہانی
قسط نمبر 10
سکول کی دنیا کے باہر ہمارے قصبہ کی ایک ثقافتی دنیا بھی تھی ۔۔۔۔جو نصاب کی دنیا سے زیادہ رنگین زیادہ خوبصورت تھی ۔۔۔اور اکثر نظر ادھر ہی لوٹ جاتی تھی۔۔۔یوں کہنا چاہیے رہتی ہی وہاں ۔۔تھی۔۔عید کے دو تہوار اور جشن عید میلاد النبی پر سجنے والی خوبصورت پہاڑیوں کے علاوہ سال میں منعقد ہونے والے دو میلے ۔۔۔۔ایک میلہ چوکیاں کے نام سے مشہور تھا اور دوسرا1965کی یاد میں لگنے والا چھ ستمبر کا بڑا میلہ جو پورے چھ دن چونڈہ کی زندگی کو رنگین بنائے رکھتا۔۔۔سکول تو کیا دنیا ہی سمٹ کر میلے میں گھس جاتی۔۔۔دو تین ماہ پہلے ہی پاکٹ منی سے تھوڑی تھوڑی رقم بچا کر میلے کی تیاری شروع ہو جاتی تمام بچے بے صبری سے انتظار شروع کر دیتے۔۔۔۔چوک شھیداں سے لے کر ریلوے پھاٹک تک تقریبا ایک کلو میٹر کا علاقہ ۔۔۔مٹھا ئی والی عارضی دوکانوں سے سج جاتا۔۔۔دو تین چڑیا گھر ۔۔بے شمار سینما ھال( جن کو کچی ٹاکی کہتے تھے)۔۔۔سرکس۔۔۔میجک شو( کنجر خانہ…جہاں عارضی طور پر تماش بینوں کے لیے مجرہ کا انتظام ہوتا)۔۔۔۔موت کا کنواں اور بہت سے مداری ۔۔۔چھوٹے چھوٹے کسینو۔۔۔(۔جوا خانہ) …رات کو لائیو ڈرامہ پیش کرنے والی چھوئی کمپنیاں ان کو( راستاری) یعنی ساری رات کام کرنے والے کہتے تھے۔۔۔۔۔غرض میلے کی اپنی الگ ہی دنیا تھی۔۔۔۔۔۔بڑے بڑے جھولے ۔۔کھلونوں کی دوکانیں۔۔۔آہ ۔۔۔کہاں ہے وہ خوبصورت دنیا۔۔۔۔دنیا کتنی بھیانک ہو چکی ہے۔۔۔بجلی کے بل ۔۔بچوں کی فیس۔۔۔کچن کا سامان۔۔۔۔پٹرول کی خریداری۔۔۔شادیوں میں شرکت کا گھریلو دباو۔۔۔۔بیگم کے شکوے۔۔۔۔خاں صاحب کے کبھی نہ پورے والے جھوٹے وعدے۔۔۔باو جی کی واپسی۔۔۔سپریم۔کورٹ کی بے عزتی۔۔۔رزداری کی ایمانداری۔۔۔۔کتنی میلی ہو چکی ہے زندگی رام کی گنگا سے بھی زیادہ پلوٹڈ ۔۔۔خیر میلے کی کہانی سنئیے۔۔۔اس زندگی سے فرار کا اسان راستہ ہے۔۔۔۔چڑیا گھر سے شروع کرتے ہیں۔۔۔۔۔کیوں کہ سب سے پہلے یہی اتا تھا تقریبا مہینہ پہلے ہی بمعہ اہل وعیال ۔۔۔چند جانوروں کے پنجرے لے کر ا دھمکتے تھے۔۔۔۔ہم بچوں کو لوٹنے کے لیے۔۔۔۔ایک روپیہ ٹکٹ تھی ۔۔۔ہم ہر روز تین چار بار وھی جانور دیکھتے ۔۔۔ایک دو بار پیسے دے کر اور بعض دفعہ پچھواڑے والا تمبو اٹھا کر۔۔۔بے ایمانی اور دھوکہ دہی کی ابتدا ہو چکی تھی۔۔۔۔۔وھی بندر وھی لومٹر اور کمزور سا شیر جو چھوٹے سے پنجرے میں جہاں وہ صرف کھڑا ہو سکتا تھا اور صرف ایک ٹرن گھوم سکتا ہے وھی کھڑے کھڑے۔۔۔۔اس مجبور قیدی کو ہم بار بار دیکھتے۔۔۔کہنے کو وہ شیر تھا بالکل اپنے باو جی جیسا۔۔۔۔
لیکن حالت ان سے بھی پتلی تھی۔۔۔۔۔یہ حالات کے قیدی ہیں وہ سلاخوں میں بند تھا۔۔۔۔شیر کے پنجرے کے ساتھ ہی بندر والا پنجرہ ہوتا تھا۔۔۔۔جو قید میں بھی دباو محسوس نہیں کرتا اور ہاتھ لمبا کر کے ہم سے کھانے پینے کی چیزیں وصول کر کے اپنا پیٹ اور ہمارا دل خوش کرتا رہتا۔۔۔۔۔باقی جانور بھی جو عمر قید کاٹ رھے ہوتے ۔۔۔ان خانہ بدوش لوگوں کا کاروبار تھا۔۔۔۔ان کی اپنی زندگی بھی بہت الگ سی تھی ہم شہر والوں سے بالکل جدا۔۔۔۔عورتیں اپنے خیموں کے اندر بچے سنبھالتیں تھیں اور ان کے مرد باہر چڑیا گھر اور جھولے کا کاروبار کرتے۔۔۔۔موت کا کنواں ۔۔۔اندر موٹر سائیکل سوار کرتب دیکھاتا اور باہر کھسرے من چلوں کا دل بہلاتے۔۔۔۔چار لکڑی کے بڑے پائے۔۔۔ان کے اوپر چھ تختے جوڑ کر رقص کے لیے سٹیج تیار کیا جاتا۔۔۔۔زمین سے چھ فٹ بلند جب چھ سات ہٹے کٹے خواجہ سرا اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تو لکٹری کے تختوں کی وھی حالت ہو جاتی جو اج ہماری ریاستی حالت ہے۔۔۔۔سوائے کانپنے اور ٹوٹنے سے بچنے کی کوشش کے اور کوئی جائے پناہ نہیں۔۔۔۔۔من چلے جب ان کو مست انکھوں سے دیکھتے ہوئے نوٹ تھماتے تو لالچ اور التجائیں بھی ساتھ ہی پکٹرانے کی کوشش کرتے۔۔۔جیسے الیکشن سے پہلے سیاست دان کسی کے ڈیرے پر آ کر کرتے ہیں۔۔۔۔۔جب تک موٹر سائیکل اندر چلتی یہ خواجہ سرا باہر رقص پیش کرتے اور جیسے ہی اندر شو ختم ہوتا ۔۔۔یہ اندر تشریف لے جاتے ۔۔۔۔وہ دورانیہ سٹیج پہ بڑا خالی خالی سا ماحول بنا رہتا ۔۔۔جیسے الیکشن کے فوری بعد اپنے ہاں ہوتا ہے۔۔۔(جاری)
داستان شھدائے چونڈہ پبلک لائبریری۔ کتاب کہانی
قسط نمبر 11
عارضی دکانوں کے علاؤہ بے شمار چھابڑی والے بھی زمین پر چھوٹے چھوٹے شو کیس میں انگوٹھیاں اور نگینے سجا کر گاہکوں کو راغب کرتے۔۔۔ساتھ ہی انہوں نے چھوٹی سی موٹر نما مشین رکھی ہوتی جو بازو پر نام لکھنے میں کام اتی تھی ۔۔۔اکثر من چلے بہت شوق سے کلائی پر اپنی محبوبہ کا نام لکھاتے جو ساری زندگی دل پر لگے زخموں کی طرح بازو سے مٹنے کا نام نہیں لیتا ۔۔۔۔اور بعد میں ساری زندگی بیوی سے اس نام کی وجہ سے اعزازی گالیاں سنتے ۔۔۔گزار دیتے ۔۔۔ٹیٹوز کیا تھے ناکام عشق کا چلتا پھرتا اشہار ہی ہوتا تھا۔۔۔۔۔بچوں کے بچے ہونے سے پہلے اس کو پلاسٹک سرجری سے مٹانے کی خوبصورت روایت انہی میلوں کی بدولت قائم ہوئی۔۔۔۔جب اس طرح کی عیاشیوں میں اپنی تین چار ماہ کی ساری جمع پونجی ۔۔۔لٹا بیٹھتے تو تماشہ دیکھنے کی باری آتی ۔۔۔۔۔یہ مفت کی ہاتھ آئی سب سے بڑی عیاشی تھی ۔۔۔ہاتھ میں ڈمبھرو ۔منہ میں بانسری بجاتے بجاتے مداری پہلے تماش بین اکھٹے کرتا۔۔۔۔۔اس کے بعد دلچسپ سے ڈائیلاگ اپنے جمورے سے ادا کرتے ہوئے وہ جس طرح تماشائیوں کو سحر میں مبتلا کر دیتا۔۔۔۔دیکھنے والے منظر ہوتا۔۔۔۔۔دلچسپ اور پیچیدہ سی گفتگو کے بعد جب چالیس پچاس تماشائی مکمل ٹرانس میں جکڑے جاتے تو وہ اچانک مجمع سے ایسی گفتگو کرتا کہ بہت سے مرد اس کی باتیں سن کر تشویش میں مبتلا ہو جاتے ۔۔۔یہ مرحلہ اتے ہی وہ ہم۔بچوں کو اکثر پہلے مجمع سے نکل جانے کا اشارہ کرتا۔۔۔۔تجسس کے مارے برا حال ہو جاتا اور مجمع سے نکلنے کو بالکل جہ نہ چاہتا تھا۔۔۔۔لیکن اکثر بے آبرو ہو کر جانا ہی پڑتا تھا۔۔۔۔۔یہ راز تب کھلا جب اتنے بڑے ہو گئے کہ گاہک ہی شمار کیے جانے لگے۔۔۔۔کہ اس سے بعد کی گفتگو کے بعد ہی وہ خوف زدہ گاہکوں کو پھکی یا جعلی سلاجیت بیچ کر دام کھرے کرتا ۔۔۔۔۔بہت ہی ماہرانہ دوکان داری کی کوئی قسم تھی۔۔۔۔ایسے مداری آج بھی بس اڈہ یا دوسری پبلک مقامات پر مل جائیں گے۔۔۔۔۔۔گاوں سے ائے لوگوں کو جلیبیاں کھاتے دیکھنا بھی اپنی نوعیت کی الگ ہی دلچسپی تھی۔۔۔۔میلے والے میدان کے ساتھ ہی قبرستان تھا۔۔۔۔جس میں اکثر ٹولیاں بناکرتین چار لوگ دائرہ کی شکل میں بیٹھے ہوئے اور درمیان میں پانچ چھ کلو جلیبیوں کا ایک ڈھیر سا لگا ہوتا۔۔۔اور جس دل جمی سے وہ یہ دعوت اڑاتے ۔۔۔ان کو کھاتے دیکھ کر تماشہ سے زیادہ لطف آتا۔۔۔۔بعض ٹولیاں جو پھلوں کی رسیا ہوتیں وہ جلیبیوں والا کام تربوز سے لیتے تھے۔۔۔۔اپنے انگوٹھے کے ناخن سے وہ کچھ اس طرح رگڑ کر تربوز کا گودا نکالتے کہ باقی بچ جانے والا تربوز کا خول باہر سے سبز اور اندر سے مکمل سفید کھانے والی کی ۔۔۔مہارت کا ثبوت چھوڑ جاتا۔۔۔۔اسی میلے کی آڑ میں مویشیوں کی تاجر بھی گراونڈ میں گائے بھینسوں کی تجارت خوب زورو شور سے جاری رکھتے۔۔۔۔میلے کے دنوں میں باولی۔۔۔۔۔(بچھڑا پیدائش کے بعد پہلا دودھ) بھی اکثر کھانے کو ملتی ۔۔۔اور اسی سے ان مہمانوں کی تواضع بھی کی جاتی جو میلہ دیکھنے کے لیے ملک کے طول وعرض سے ان دنوں اکثر گھروں کے لیے وبال جان بنے رہتے۔۔۔وجہ یہ تھی کہ اکیلا مہمان کوئی بھی نہیں اتا تھا اپنے ساتھ پانچ چھ دوستوں کو لاتا کہ او تمہیں میلا دیکھا لاوں۔۔۔۔اور چار پانچ دن کے قیام کے بعد۔۔۔۔اکثر گھروں میں میلہ عجیب سا ماحول پیدا کر دیتا تھا۔۔۔نہ سونے کو جگہ ملتی نہ ہانڈی میں سالن۔۔۔۔۔(۔جاری)
داستان شھدائے پبلک لائبریری۔ کتاب کہانی
قسط نمبر 12
میلوں کے ساتھ ساتھ عید کے تہوار کی یاد بھی دل میں جلترنگ کی طرح ہے۔۔۔۔کل چھوٹی بڑی عیدی ملا کر سو روپیہ کی رقم ۔۔۔۔کسی خزانے سے کم نہ سمجھی جاتی تھی ۔۔۔۔اتنی بڑی رقم کو خرچ کرنا خطرہ سے خالی نہ تھا۔۔چند باڈی گارڈ نما دوست بھی ساتھ رکھنے پڑتے تھے۔۔۔جیسے میلے پہ پہلے ہی بچت پروگرام بنانا پڑتا تھا ایسے ہی عید پر خاص طور پر چھوٹی عید( جو رمضان کے بعد اتی ہے) پر بھی خصوصی بچت پروگرام سارا مہینہ جاری رہتا۔۔۔تب جا کر کہیں یہ بڑا ٹارگٹ پورا ہوتا۔۔۔۔اس لاکر کی تصویر بھی پیش خدمت ہے۔۔یہ صندوق میری دادی جان کا ہے ۔۔۔جس میں سارا مہینہ روپیہ دو ۔۔۔ اکٹھے ہوتے رہتے۔۔۔دادی جان کے پاس سب بچوں کی رقم جمع ہوتی تھی ۔۔۔۔اسی ٹرنک میں۔۔۔۔ہر بچے کی الگ گھتلی(کپٹرے کی ایک تھیلی جس کے اوپر کپٹرے کا ہی دھاگہ بنا ہوتا جسے کھینچ کر کھولا اور بند کیا جاتا تھا) تھی جس میں اس کی دی ہوئی رقم جمع ہوتی رہتی۔۔۔جیسےآج کل لاکرز کا رواج ہے بینک میں۔۔۔۔دادی اماں کے پاس رقم جمع کروانا آسان نہ تھا۔۔۔جو بچے بار بار اپنی رقم چیک کرنے پہنچ جاتے تھے ان کا اکاونٹ ڈارمونٹ کر دیا جاتا تھا۔۔۔اور اگر وہ رقم واپس لیتے تو ان کو بلیک لسٹ کر دیا جاتا۔۔۔۔۔مجھے یہ فخر حاصل ہے کہ میں اپنی پیاری دادو کا سب سے اچھا کلائنٹ تھا ۔۔مہینے کے اخر پہ ہی رقم وصول کرتا۔۔۔۔یہ رقم جمع کی ہوئی رقم سے ہمیشہ زیادہ ہی ملتی دادی کے پاس سے صبر کا خاص بونس بھی ملتا تھا۔۔۔۔۔۔یہ راز آج نصف صدی بعد عیاں کر رھا ہوں۔۔۔۔۔دادا جان کی طرف سے نئے نوٹوں کی دس بیس کی عیدی بھی ڈھیر ساری خوشی کا باعث بنتی۔۔۔۔اس عیدی کو خرچ کرنے کے لیے جب نئے کپٹروں اور نئے جوتوں کے ساتھ باہر نکلتے تو خوشی کا وہ پیک ٹائم ہوتا تھا۔۔۔۔۔۔بچپن کے بعد کسی عید میں وہ لطف نہ آیا۔۔۔۔ہمارے محلہ میں گھر کے سامنے ہی عبدالطیف بٹ صاحب کی کریانہ کی دوکان تھی ۔۔۔اللہ جنت میں جگہ دیے ۔۔۔ہم بچوں کے لیے وہ عید پر نئے کھلونے بھی لاتے۔۔۔اور ان کی ڈسپلے چاند رات کو کرتے ۔۔۔۔۔جسے تمام محلے کے بچے با جماعت دیکھتے اور صبح خریداری کے لیے رات کو ہی کھلونا منتخب کر لیتے کہ صبح کیا خریدنا ہے۔۔۔بٹ صاحب رات کو ریٹ بھی الاونس کر دیتے کہ صبح پہلی فرصت میں خریداری میں آسانی ہو۔۔۔۔چند ایک کھلونے دستیاب تھے۔۔۔۔چھوٹا لکٹری کے دستہ والا چاقو۔۔۔ایک سیٹی کی اواز والی بلبل۔۔۔۔۔گڑیا صرف ایک قسم کی۔۔۔۔کاغز کا پٹاخہ رکھ کر چلانے والی پستول۔۔۔۔موٹر سائیکل پہ بیٹھا ہوا بڈاوا۔۔۔۔۔۔اور غبارے۔۔۔۔ یہ سادہ سی خوشی بھری دنیا تھا۔۔۔۔چونڈہ میں مکمل کھلونا ورائٹی صرف ایک دوکان پر دستباب تھی عبداللہ صاحب ایک بزرگ تھے ان کی ۔۔۔۔ان کی ڈیلنگ بچوں سے اتنی خوشگوار نہیں تھی ۔۔۔لیکن دلکش ورائٹی کے باعث بچوں کی مجبوری تھی ان سے خریداری کرنا۔۔۔اس مناپلی سے وہ خوب فائدہ اٹھاتے۔۔۔۔منہ مانگے دام وصول کرتے۔۔۔۔اس لیے بچوں کی دنیا میں ان کی دوکان کا نام تباھی سٹور کے نام سے مشہور تھا۔۔۔۔پہلی شفٹ میں کھلونوں کی خریداری اولین ترجیح تھی کہ بعد میں پیسے ختم ہو جائیں تو سارا سال پچھتاواے کی اندھیری رات میں بسر ہو۔۔۔۔اس کے بعد اپنی گلی میں ہی میلہ سا لگا ہوتا بلکہ فوڈ سٹریٹ سی سجی ہوتی۔۔۔محلے کا تقریبا ہر بچہ لوبیا کی چھوٹی سی دوکان زمین پہ سجائے بیٹھا ہوتا۔۔۔۔یہ چھوٹی چھوٹی چھابڑیاں اتنے زیادہ بچوں نے لگائی ہوتیں کہ گاہک کم اور دوکاندار زیادہ والا معاملہ چل رھا ہوتا۔۔۔۔اور ستم یہ کہ سبھی دوکاندار اپنے سنگی ساتھی ہوتے اور ہر ایک نے پہلے سے وعدہ لیا ہوتا کہ مجھ سے سودا خریدنا۔۔۔۔اور سب ایک ہی پرڈکٹ بھیچ رھے ہوتے۔۔۔۔لوبیا۔۔۔۔۔جو وہ کاغز کے ٹکڑے پہ رکھ کے دیتے اور اس کے اوپر ذائقہ کھٹا کرنے کے لیے ٹاٹری ملا پانی۔۔۔۔اس لیے ہر ایک کو خوش کرنے کے لیے ہر ایک سے خرید کے کھانا پڑتا۔۔۔اور اگر کسی سے خریداری میں کوتاہی ہوتی تو سارا سال اس سے جنگی ماحول بنا رہتا جو اگلی عید تک جاری رہتا اور اس سے خریداری پہ ہی تعلقات بحال ہوتے۔۔۔۔۔عید پر اتنا لوبیا کھانے اور ٹاٹری والا پانی پینے کے دو ہفتے بستر علالت پر ہی بسر ہوتے۔۔۔۔گلے میں سوزش ۔۔۔پیٹ خراب۔۔۔۔بہت تکلیف دہ ماحول بنا رہتا۔۔۔۔۔۔۔لیکن۔اس کے باوجود دل سے آج بھی یہ دعا نکلتی ہے کاش ان میں سے کوئی ایک عید واپس لوٹ آئے۔۔۔ ( جاری)
داستان شھدائے چونڈہ پبلک لائبریری۔ کتاب کہانی
قسط نمبر 14
دو درختوں کی ایک کہانی ۔۔۔سکول کے صحن کے مشرقی کنارے شیشم کے یہ دو درخت آج بھی ویسے کے ویسے ہی کھڑے ہیں ۔۔۔۔وقت جہاں پتھروں سے بنی عمارت کھا گیا وہ یہ لکٹری کے دو درخت نگلنے سے قاصر رھا۔۔۔بلکہ گزرتے وقت کے ساتھ یہ اور بھی نکھر گئے ہیں۔۔۔۔ان کے عین پیچھے سائنس روم ہوا کرتا تھا۔۔۔۔درمیان میں بڑے ٹیبل چاروں طرف
الماریاں ۔۔۔ان کے اندر رکھا اپریٹس۔۔۔۔۔جہاں دسویں کلاس کے طلبہ سائنسی نا مکمل تجربات کرتے ۔۔۔۔آج یہاں دوکانیں واقع ہیں۔۔۔۔اور سائنس روم کی عمارت کا ملبہ اج بھی ان شیشم کے درختوں نے اپنی آغوش میں لے رکھا ۔ہے۔۔رفاقت نبھانے کی آخری کوشش کرتے یہ درخت شاید نہیں جانتے کہ ان کی اپنی زندگی بھی خطرے میں ہے۔۔۔۔جلد ہی ان کا قتل بھی طہ ہے ۔۔۔۔۔ان کی لکٹری سے فرنیچر بن کر کسی کے ڈرائنگ روم کی زینت بنے لگا۔۔۔۔اسی درخت سے شاخیں اتار کر ہمارے ایک استاد ہماری مرمت کے لیے اوزار بنایا کرتے تھے۔۔۔۔اس کے باوجود ان درختوں سے محبت کا رشتہ قائم ہے اور میں اکیلا نہیں ہزاروں طلبہ ایسے ہوں گے جو ان سے پیار کرتے ہوں گے ۔۔۔میں شیشم کے ان دو درختوں سے پیشگی معافی کا طلب گار ہوں کہ ان کے قتل کے پروگرام بن رھے ہیں لیکن میں سوائے تماشائی کا کردار ادا کرنے کے کچھ نہ کر پاوں گا۔۔۔۔ھلاکوخاں جب بغداد پر حملہ اور ہوا تو اس نے جہاں انسانوں کو قتل کرنے کا فرمان جاری کیا وہاں خصوصی طور پر مرکزی لائبریری اور درسگاہ کو نظر آتش کرنے کی بھی خاص تاکید کی۔۔۔۔انجمن تبلیغ السلام ۔۔۔کی عمارت تجارتی مرکز بن جائے گی۔۔۔۔۔اچھا ہے۔۔۔۔یہ علم اضطراب کے سوا دیتا بھی کیا ہے۔۔۔۔اس کا یہی انجام ہونا چاہیے۔۔۔۔نہ روٹی نہ کپٹرا نہ مکان۔۔۔۔۔ستون دار پہ رکھتے چلو سروں کے چراغ جہاں تلک یہ غم کی سیاہ رات چلے۔۔۔۔۔ظلم بقدر ظرف کی روایت قائم تھی قائم ہے اور قائم رھے گی۔۔۔۔۔جزباتی ہونے کے لیے معزرت اپ کہانی کی طرف دھیان رکھیں۔۔۔بات کرتے ہیں ہیڈ ماسٹر نذیر صاحب کی۔۔۔۔۔۔شاندار پرسنیلٹی۔۔۔۔۔ بارعب چال ۔۔۔۔کاٹرائی کی پینٹ۔۔۔جو تھوڑی سے ٹخنوں کے اوپر رکھتے۔۔۔۔صاف ستھری سادہ سی شرٹ۔۔۔۔نیچے چمکتے ڈریس شوز۔۔۔۔۔کبھی کبھی ہاتھ میں ڈنڈا لیے جب دفتر سے معائنہ کے لیے نکلتے تو خاموشی سی چھا جاتی۔۔۔خود بھی نظم و ضبط کے پابند تھے اور کسی کو توڑنے بھی نہیں دیتے تھے۔۔۔۔تمام سکول کے اساتزہ اور طلبہ ان کا بے حد احترام کرتے۔۔۔۔۔سکول کی اچھی تعلیمی شہرت میں ان کا کردار مرکزی اہمیت کا حامل تھا (جاری)
داستان شھدائے چونڈہ پبلک لائبریری۔ کتاب کہانی
قسط نمبر 15
ہائی سکول میں ۔۔۔مرغا بننے۔۔۔کی ٹریننگ ۔۔۔۔بغیر مشق کے ہی پچتہ تر ہو جاتی ہے۔۔۔۔اپنے سکول کے تقریبا سبھی اساتزہ مرغا بنانے کے فن میں یکتا تھے۔۔۔۔سبق نہیں یاد۔۔۔مرغا۔۔۔کتاب نہیں پاس مرغا۔۔چھٹیوں کا کام نہیں کیا ہر روز مرغا۔۔۔۔اگلی چھٹیوں تک۔۔۔بنچ فیلو کو دھکا ۔۔مرغا ۔۔۔۔ہر جرم کی ایک ہی سزا تھی مرغا ۔۔۔۔بننا۔۔۔البتہ زیادہ سنگین جرم سرزد ہونے کی صورت میں اسی پوزیشن میں چھڑی کا استعمال ناگزیر سمجھا جاتا تھا۔۔۔۔آئیڈیل مرغا بننا ہر کسی کے بس کا روگ بھی نہ تھا۔۔۔۔اس کے لیے خصوصی ٹینلنٹ چاہیے تھا۔۔۔ہم جیسے تو مرغا بننے کے بعد بھی ڈانٹ ہی کھاتے تھے۔۔۔کان پورے پکڑو۔۔۔تشریف کو بلند کرو۔۔۔دراصل اس میں پوزیشن میں ٹانگیں اکٹر جاتیں۔۔۔دس منٹ کان پکڑنا۔۔۔۔ کمال فن تھا۔۔۔۔چھ سات ماہ میں یہ فن سیکھنے والے ہونہار طلبہ کے لیے یہ سزا ۔۔سزا نہیں رہتی مہارت بن جاتی تھی۔۔۔۔ہر سزا کو ہوا میں اڑا کے اپنی سرگرمیاں جاری رکھنا۔۔۔۔ہمارے زمانہ میں درس و تدریس کا لازمی حصہ تھا۔۔۔۔اچھا پڑھانے والا اساتزہ کا اپنامقام تھا ۔۔۔لیکن زیادہ سزا دینے والے استاد بھی کوئی کم نام نہیں کماتے۔۔۔۔۔تھے زبان زد نالائق طلبا رہتے۔۔۔۔تھے۔۔۔خوش نصیبی کی اس منزل سے گزرتے گزرتے دس سال لگ جاتے تھے۔۔۔۔اسی سکول کے زمانہ میں اپنے ہیڈ ماسٹر چوہدری نزیر صاحب کا ایک واقعہ ہمیشہ کے لیے یادوں کا حصہ ہے۔۔۔۔جو لوگ ان کو جانتے ہیں ان کی شخصیت کے رعب ووقار سے اگاہ ہیں ۔۔۔جب ہم آٹھویں جماعت میں تھے تو ان کا درمیان والا بیٹا ۔۔جمشید ہمارا کلاس فیلو تھا۔۔۔اکثر میرا اور اس کا جھگڑا جاری رہتا۔۔۔یہ ہمارا تقریبا ہفتہ وار معمول تھا۔۔۔۔دو تین مکے چلنے کے بعد ہم خود ہی سیز فائر کر کے اپنی اپنی سابقہ پوزیشین پہ چلے جاتے ۔۔۔ہماری اس لڑائی میں کوئی بھی ہم جماعت مداخلت نہیں کرتا تھا۔۔۔یعنی بیچ بچاو کرانے کی کوشش نہیں کرتا تھا۔۔۔ہم دونوں کو پوری جماعت پہ یہی غصہ تھا لیکن یہ گلہ سننے کو کوئی تیار نہ تھا۔۔۔ایک دن دوران لڑائی جمشید کا ایک مکہ میری آنکھ کے پاس لگا۔۔۔۔ضرب اتنی شدید نہیں تھی لیکن مقام جہاں ضرب پڑی کوئی مناسب نہ تھا۔۔۔۔آنکھ فورا سوج گئی۔۔۔۔یہ خفت نما شکست میرے لیے بہت پریشان کن تھی ۔۔۔۔یہ جھڑپ کیوں کے ہم چھٹی سے کچھ دیر پہلے شروع کرتےتھے کیوں کہ چھٹی سے کچھ دیر پہلے اساتزہ بھی رلیکس موڈ میں چلے جاتے تھے اور کلاس میں ایسی سرگرمیوں کے لیے بہت عمدہ ماحول ہوتا تھا۔۔۔۔۔گھر پہنچتے پہنچتے آنکھ مکمل سوج گئی۔۔۔۔اب اس شکست سے زیادہ پریشانی کی یہ بات تھی کہ گھر کیا بہانہ بنانا ہے۔۔۔۔کیوں کہ اس زمانے میں ۔۔۔یہ بہت معیوب سمجھا جاتا تھا کہ بہادر اپنی پھینٹی کا چرچا ہر سو کریں۔۔۔۔اگلے دن سکول سے چھٹی کا پروگرام البتہ فورا ہی بن گیا کہ سارا دن پوری کلاس کے سامنے شیم واک کرنا پڑتی۔۔۔۔۔۔صبح ابھی سکول کی کئی گئی چھٹی کو انجوائے کرنے کا پروگرام بنا ہی رہا تھا تاکہ غم بھی غلط ہو سکے۔۔۔۔اتنی دیر میں ہمارے پی ٹی کے استاد ۔۔۔محمد حسین صاحب ہمارے دروازے کے سامنے موجود تھے کہ سکول کیوں نہیں آئے۔۔۔میں بہت ڈر گیا کہ یہ غیر معمولی بات تھی ۔۔۔جمشید ہیڈ ماسٹر کا بیٹا تھا۔۔۔۔لیکن وہ مجھے زبردستی سکول لے گئے اور سیدھا ہیڈ ماسٹر صاحب کے روبرو ان کے دفتر میں پیش کر دیا۔۔۔۔بہت دھشت ناک لمحہ تھا کہ اب یہاں سے بھی مار پڑے گی۔۔۔۔نزیر صاحب نے ایک دو مختصر سے سوالات کیے کہ انکھ کیسے سوجھی۔۔۔میں جمشید کا نام نہیں لینا چاہتا تھا۔۔۔کہ وہ میرا دشمن نما دوست تھا گہرے والا۔۔۔لیکن پورا واقعہ ہیڈ ماسٹر صاحب کو کسی خاص مخبر کے ذریعے پہلے ہی معلوم تھا۔۔۔مجھ سے وہ رسمی سی انکوائری کر رھے تھے۔۔۔۔یہ گفتگو ختم کرنے کے بعد وہ سیٹ سے اٹھے اور سامنے الماری سے اپنا مشہور بیت کا ڈنڈا نکلا ۔۔۔یہ ہتھیار وہ بہت کم نکالتے تھے لیکن تاریخ گواہ ہے یہ جب بھی باہر آیا کوئی داستان رقم کر کے ہی میان میں واپس پہنچا۔۔۔۔میں ڈر کر پیچھے ہٹا۔۔۔۔وہ میرے پاس سے گزرتے ہوئے دفتر سے باہر نکل گئے اور مجھے ساتھ انے کا اشارہ کیا۔۔۔۔۔نیچے صحن میں اسمبلی جاری تھی۔۔۔۔قومی ترانہ ختم ہونے کے بعد جب طلبا کلاسوں کو جانے لگے تو انہوں نے روک دیا۔۔۔۔سبھی استاد اور طلبہ دم بخود تھے ۔۔۔انہوں نے جمشید کو اس کے نک نیم سے آواز دی اوئے بلے ۔۔۔باہر آو۔۔۔۔۔جمیشد ڈرتے ڈرتے ان کے پاس پہنچا۔۔۔۔۔نزیر صاحب نے ڈنڈوں کی برسات کر دی۔۔۔۔۔جمشید کو ساتھ مارتے جاتے اور ایک ہی بات دہرا رھے تھے۔۔۔توں کی سمجھنا سیں تو ہیڈ ماسٹر دا پتر ایں۔۔(تم نے کیا سمجھ رکھا تھا کہ تم ہیڈ ماسٹر کے بیٹے ہو)۔۔۔۔کچھ اساتزہ نے روکنے کی کوشش کی لیکن نزیز صاحب کے تیور دیکھ کر پیچھے ہٹ گئے۔۔۔۔مجھ میں پتہ نہیں اس وقت کہاں سے اتنی ہمت آ گئی میں نے آگے بڑھ کر اونچی آوازمیں کہا۔۔۔۔سر میں نے بھی اسے مارا تھا سارا قصور اسی کا نہیں۔۔۔۔انہوں نے غصہ سے میری طرف دیکھا اور کہا۔۔۔۔۔یہ ضروری تھا۔۔۔۔یہ انصاف کا وہ معیار تھا جو صرف کتابوں میں لکھا ملتا ہے لیکن یہ سعادت ہے کہ ایسے عظیم انسانوں سے فیض یاب ہونے کا موقعہ ملا۔۔۔۔اس واقعہ کے بعد جمشید سے میری گہری دوستی کی ابتدا ہوئی۔۔۔جو آج تک جاری ہے
داستان شھدائے چونڈہ پبلک لائبریری۔ کتاب کہانی
قسط نمبر 16
سکول اور کالج کی زندگی میں اتنا ہی فرق ہے جتنا کوٹ کوٹ لکھپت کے زندان سے رہائی کے بعد فورا شنگریلا میں چھ ماہ کی فل پیکج سرکاری تعطیلات گزارنے میں ہے۔۔۔۔مرلے کالج کا نام۔ہی کشش آمیز تھا۔۔۔۔نہ مرغا بننے کاڈر ۔۔۔نہ اساتزہ کا خوف ۔۔۔باہر اندر آنے جانے کی ازادی اور سب سے عیاشی والا کام سکول یونی فارم سے نجات۔۔۔۔ڈیزی کی جینز ۔۔سفید شرٹ اور سپورٹس شوز۔۔۔۔صبح جب ٹرین پر کالج پہنچنے کے لیے نکلتے تو نشہ سا طاری ہو جاتا ہے ۔۔۔سکول کی گزاری ہوئی تقریبا ذلت آمیز زندگی کے بعد ۔۔۔اپنی نظروں میں کھوئی ہوئی عزت بحال ہونا شروع ہوئی۔۔۔تو زندگی نئے رنگ میں جلوہ افروز تھی۔۔۔تمام تر ممنوعہ کاموں سمیت نہ ختم ہونے والی آزادی نے جو سب سے پہلا تحفہ عنایت کیا وہ تھا گولڈ لیف کا سگریٹ۔۔۔۔اس وقت جو عیاشی سگریٹ کے کش لگانے میں محسوس ہوتی تھی نہیں معلوم تھا کہ انے والی زندگی کی بدترین قید بننے والی تھی۔۔۔۔تمباکو نوشی پھیپھڑوں کے ساتھ ساتھ جیب خرچ کے لیے بھی کینسر سے بڑھ کر تھی۔۔۔تقریبا ادھا بجٹ تو اسی مکروہ دھندے کی نظر ہوجاتا تھا۔۔۔۔کنٹین میں ایک آدھ چائے پینا بھی نیا تجربہ تھا۔۔۔ جس دن جیب خرچ زیادہ ملتا۔۔۔۔سٹیشن کے سامنے کوڈو کے مشہور کباب ۔۔۔کمال کا ذالقہ تھا۔۔۔کوڈو اپنے نام کی طرح ہی کوڈو سا تھا لیکن کباب بہت مزے کے بناتا تھا۔۔۔۔اس کا اپنا قد تو اتنا جاذب نظر نہ تھا لیکن کباب بہت ہی صحت مند اور مزے کے بناتا تھا ۔۔دس روپے میں ایک کباب دو روٹی اور پلیٹ بھر چٹنی۔۔۔۔سارے دن کی تھکاوٹ بھول جاتے۔۔۔۔اپنے اپنے خرچہ پر سبھی دوست لنچ اکثر وھیں کرتے۔۔۔۔دوستی یاری اپنی جگہ لیکن کوڈو کی دوکان پر بڑے بڑوں کو بے مروت ہی دیکھا کوئی کسی کو کھانے کی تکلف سے بھی دعوت نہ دیتا کہ کوئی بھی انکار نہیں کرتا تھا۔۔۔۔اسی خوف کے باعث سبھی نظریں پلیٹ پر رکھے کھانا کھاتے ۔۔۔کوڈو کے ہاتھ میں جو لذت تھی اس کے علاوہ بھی اللا کریم نے اس کو ایک خوبی ایسی دے رکھی تھی جو سو خوبیوں سے بڑھ کر تھی۔۔۔اگر کسی کے پاس پیسے کم بھی ہوتے تو وہ زیادہ تردد نہیں کرتا۔۔۔۔تھا۔۔۔۔
مرے کالج کی وسیع لائبریری بھی زندگی میں انے والی نئی بہار کی طرح تھی۔۔۔۔زیادہ تر کتب انگریزی زیان میں تھیں۔۔۔اردو کی کتب کا اتنا ذخیرہ نہیں تھا اور زیادہ تر کتب تھی بھی بہت پرانی۔۔۔۔صادق مسیح لائبریرین اس عظیم خزانے کا دروغہ تھا۔۔۔۔اس کے پاس ہر الماری کی چابیوں کا ایک بڑا سا گچھا تھا ۔۔۔۔نظر اس کی بہت کم۔تھی اس لیے کتاب کو انکھوں کے بہت پاس لا کے نام پڑھتا تھا کتاب کا۔۔۔۔لائبریری میں ہزاروں کتب موجود تھیں اور صادق کو ہر کتاب کا پتہ تھا کہ کون سی الماری میں کس دراز میں کون سے نمبر پر وہ کتاب رکھی ہے۔۔۔۔صادق پوری لائبریری کیٹلاگ تھا۔۔۔۔۔لوگوں کو لاکھوں کتاب الماریوں سے نکال کر دیں لیکن خود کبھی کوئی کتاب نہیں پڑی۔۔۔کیوں کہ وہ پڑنا نہیں جانتا تھا۔۔۔۔بہت ہی خشک سا ادمی تھا اپنے کام سے کام رکھنے والا۔۔۔۔لیکن وہ کتابوں کا خزانچی تھا سو اس سے دوستی ناگزیر تھی۔۔۔ (جاری)