پی ایم اے شروع شروع کے دنوں میں ایک میل دوڑ کے ٹیسٹ کے علاوہ جو کام ہمیں ذرا دل کو نہیں بھاتا تھا وہ پبلک سپیکنگ تھی- ہماری سمجھ سے بالا تھا کہ ہمارے خیالات اور وہ بھی انگلش میں پی ایم اے کے لئے اتنے اہم کیوں ہیں – بہر حال ہم اس کو کار خیر سمجھ کر انجام دیتے رھے کہ ممکن ہے ہمارے خیالات کسی ملکی پالیسی کا حصہ بن رھے ھوں –
آپ اپنی تخیل پرواز کو ذرا استعمال کریں اور سوچیں کہ کسی دور دراز گاؤں کا انیس بیس سالا دیہاتی نوجوان انگلش کے ساتھ کیا کھلواڑ کرتا ھوگا -خیر نتائج کی ذمہ داری ان کے ست تھی جو ہمیں روسٹرم پر کھڑا کرتے تھے-
پی ایم اے کے شب و روز بھی کیا مزیدار زندگی تھی- سپر فٹ اور بے غم – کچھ بھی ہو جائے ، بولنی انگلش ہی ھوتی ھے-انگلش پشتو لہجے سے مشکل سے بچ کر نکلتی ہے تو پنجابی اسے گھیر لیتی ہے، پھر سندھی، بلوچی – انگلش کو کچھ سمجھ نہیں آتی کہ کدھر پھنس گئی ھے- کچھ انگریزی سکولوں والے بھی ہوتے ہیں جو بہت احترام سے انگلش سے پیش آتے ہیں اور یہی وجہ ھے انگلش ٹکی ھوئی ھے-
دوران تربیت پی ایم اے کے رھائشی بلاکس میں کلاسز ختم ہونے کے بعد ایک عجیب اور دلکش سماں ہوتاہے- سب سے سینئرز کورس تو سپر پاور کی طرح ہے، جس کا ایک ہی کام ہی صرف دوسروں کو تنگ کرنا ہے – تیسر ی ٹرم والے سپر پاور سے نیچے والی ریاستوں کی طرح ہیں- احتیاط برتتے ہوئے بس چلتے ریں- دوسری ٹرم والے ،تیسر ی دنیا کے خوشحال ملک کی طرح ہیں ، بس گزارہ کرتے ہیں – اور جونیئر ترین کورس، افریقہ کا کوئی جنگ زدہ ملک جہاں صبح شام افراتفری ہی رھتی ہے-
سینئرز کورسز میں کچھ لائق کیڈٹس کو جونیئر کیڈٹس کے نظم و ضبظ کی ذمہ داری سونپ دی جاتی ہے- کلاسز ختم ھونے کے بعد وہ متعلقہ سینئر ، اپنی اپنی جونیئر پلاٹون کی ، حسب حال انگلش میں مرمت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں-
آپ کسی افریقی ملک کی سفاری کا تصور ذہن میں لے آئیں – کہیں بارہ چودہ ہرن ادھر سے ادھر بھاگ رھے ہیں- کہیں اکیلا زرافہ درخت سے پتے اتار کر کھا رھا ھے- کہیں دو ھاتھی ٹہل رھے ہیں – کہیں خرگوش چھپ چھپ کو منزل کی طرف بڑھ رھے ہیں – کہیں چیتا اپنے شکار کی تلاش میں گھات لگائے بیٹھا ہے- یہ جو چیتا ہے یہ وہی سینئر کیڈٹ ہے جسے ، بٹالین سارجنٹ میجر( بی ایس ایم) ، کمپنی سارجنٹ میجر ( سی ایس ایم) اور سارجنٹ کے نام سے پہچانا جاتا ھے- ان تینوں طرح کے سارجنٹ کے چہرے پر مسکراہٹ نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی- کھا جانے والی نظروں سے جونیئر کو دیکھتے ہیں – ان کی ذمہ داریوں میں سب سے اہم کام ، جونیئر کے لئے خواہ مخواہ روڑے اٹکانا اور انہیں کچھ نہ کچھ سکھاتے رہنا ہے-جیسا کہ پنٹ شرٹ اور ٹائی کے ساتھ شاور کیسے لیتے ہیں- فراگ جمپ سے گراؤنڈ فلور سے چوتھی منزل تک کیسے پہنچنا ہے- اگر کوئی زیر تعمیر بلاک کے قریب پانی کا تالاب ہے تو تیراکی کی مشق کیسے کرنی ہے-
پی ایم اے میں آپ کسی بھی جگہ ہوں آپ نے اپنے ڈریس پر ہر وقت دھیان رکھنا ھوتا ھے- سونے سمیت ، ہر لمحے کا ڈریس کوڈ ھے- پی ٹی کٹ، نارمل یونیفارم ، کمبٹ یونیفارم، پنٹ شرٹ ، ٹائی، پنٹ کوٹ، کمروں میں شلوار قمیص کے اوپر گاؤن- میس کٹ، میس میں داخل ہونے کے آداب، کھانا کھانے، اٹھنے بیٹھنے، سڑک پر چلنے، کلاس روم میں بیٹھنے، کتابوں والا بیگ اٹھانے کا طریقہ، جوتوں کے تسمے کیسے باندھنے ہیں، کہاں آپ پیدل چل سکتے ہیں ، کہاں دوڑنا ھے، ہر چیز کی ۲۴/۷ پابندی کرنی ھوتی ھے- اور اس پابندی پر عمل درآمد کے لئے دن کو سٹاف اور کلاسز کے بعد سینئرز ذمہ دار ہوتے ہیں- سینئر رات کو ایک بجے اگر برفباری بھی ہو رھی ھو تو سوٹڈ بوٹڈ نظر آئے گا- اور مائنس ٹمپریچر میں فرنٹ رول کرتے کیڈیٹس باقاعدہ ٹائیاں لگا کے سینئرز کے حکم کی تابعداری کر رھے ھونگے-
کیا مزیدار نظارہ ھوتا تھا، یاد کر کے ایک دفع تو جھرجھری سی آ جاتی ھے-
کھانا کھاتے ہوئے کانٹا کس ھاتھ میں ہو گا، ڈائنگ ٹیبل پر اٹھ کر کچھ نہیں پکڑنا، بیٹھے بیٹھے کسی دوسرے کوآرام سے بولیں ، وہ مطلونہ چیز پاس کرے گا، کرسی پر بیٹھنا کس طرف سے، اٹھتے ہوئے کرسی کی آواز نہ آئے- ہر دفع میس کے اندر داخل ھوتے وقت دیوار پر چسپاں قائد اعظم محمد علی جناح کی تصویر کر تعظیم لازمی ھے- جو ویٹر کھانا کھلاتے ہیں ان کا احترام- گالم گلوچ تو دور کی بات کسی کے ساتھ بھی بدتمیزی کی اجازت نہیں-
پی ایم اے میں گزرہ ہوا وقت بہت یاد آتا ھے- کیا خوبصورت دن تھے – بہت سے دوسرے غیر متوقع امتحانوں کے ساتھ انگلش کا پُل سراط بہرحال عبور کرنا پڑتا ھے –
۰-۰-۰-
برگیڈیئر عتیق الرحمان (ر)