پسِ غبار بھی کیا کیا دکھائی دیتا ہے۔۔۔۔


کمانڈنٹ: فوج میں کیوں آنا چاہتے ہو ؟
امیدوار: To Serve The Nation Sir
ماہر نفسیات۔ تو پھر کہیں استاد کیوں نہیں لگ جاتے؟
امیدوار: لمبی خاموشی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ وہ مکالمہ ہے جو فوج میں جانے کے لیے انٹرویو دینے والے 80 فیصد سے زائد امیدواروں سے پہلے ہی پینل میں ہوتا ہے۔
وہ جو اس سوال کا واقعی جواب ہے 20 فیصد سے بھی کم ہی دے پاتے ہیں۔۔۔
” سر فوج ایک Prestigious ادارہ ہے، باوقار نوکری ہے،Save, Secure and Contended پروفیشن ہے۔۔۔۔۔۔”
اسکا یہ ہر گز مطلب نہیں کہ یہ ساری خوبیاں باقی اداروں میں نہیں ہوتیں، یا To Serve The Nation کا لاحقہ / سابقہ باقی اداروں کے ساتھ نہیں لگتا۔ صحت، تعلیم، واپڈا وغیرہ وغیرہ سب ہی محکمے یہ سب کچھ کرتے ہیں۔۔۔
لیکن پاک فوج کو جو چیز ممتاز بناتی ہے وہ یہ ہے کہ یہاں کوئی بھی صرف اپنی صلاحیتوں کے زور پرآسکتا ہے، اپنی صلاحیت اور مزاج کی بنا پر ترقی پاکر اونچے عہدوں پر فائز ہوسکتا ہے، یہاں سچ بولنے پر نوکری نہیں جاتی، گردن نہیں کٹتی، ظلم کرنے پر کوئی مجبور نہیں کرسکتا، حلال رزق کی راہ کھلی ہے، جہاں ایک اعلیٰ مقصد زندگی سامنے رکھ سکتے ہیں، جہاں آج بھی حسین خواب پلتے ہیں، جہاں آج بھی امیدِ سحر زندہ ہے۔۔۔۔۔۔

یہاں آج بھی معاشرے سے دو افسران ایک ساتھ آتے ہیں کہ ایک ایسے طبقے سے جس نے اپنے گھرمیں کبھی پانی بھی خود سے اٹھ کر نہیں پیاہوتا اور دوسرا ایسے طبقے سے جس نے پکا بیت الخلا ہی اکیڈمی میں آکر دیکھا ہوتا ہے۔ یہاں ہم نے ایسے لوگ دیکھے ہیں جو اپنے بال بچے ساتھ ہوتے ہوئے بھی آدھی تنخواہ گھر بھیجتے ہیں کہ ماں باپ اور بہن بھائیوں کا بھی گزر بسر ہو، اور ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں جن کا گزارا تنخواہ سے نہیں ہوتا اور اضافی پیسے گھر سے منگواتے ہیں۔۔یہاں یہ بھی دکھائی دیتا ہے کہ ایک سپاہی کا بیٹا اپنے والد کی یونٹ میں ایک جنرل کے بیٹے کو اسی یونٹ میں کمانڈ کرتا ہے جہاں اس کے والد کبھی جنرل صاحب کے انڈر کمانڈ رہے ہوتے ہیں۔۔۔۔
فوج کی تنخواہ آج بھی کئی محکموں سے بہت کم ہے، 8 سال تک نوکری کرنے والے 18 گریڈ کے افسر کی تنخواہ پرائیویٹ سیکٹر میں کام کرنے والے افسروں سے انتہائی کم ہوتی ہے۔
یہاں نوکری پیسے، شہرت اور لائف اسٹائل کے لیے ہوتی تو کمانڈر کے حکم پر کوئی اپنے آپ کو گولیوں کی بوچھاڑ کے سامنے نہ کرتا ۔۔میرے باس کی پہلی اولاد پیدا ہوئی اور ایک ماہ میں ہی اسکا انتقال ہوگیا۔۔۔ اولاد کو دیکھ بھی نہ سکے کیوں کہ وہ اس وقت بطور کپتان کارگل کی جنگ میں تھے ۔وہ چاہتے تو گھر چکر لگا سکتے تھے، لیکن یہCommitment کے خلاف تھا۔
ایک بہت قریبی رفیق وزیرستان میں کمانڈنگ آفیسر تھے، 9 سالہ بیٹے کو تیسرے درجے کا کینسر تشخیص ہوا، اہلیہ لاہور سی ایم ایچ کے زچگی وارڈ میں تھی، چھٹی لے کر نکلے۔ ابھی ڈیرہ اسماعیل خان ہی پہنچے تھے خبر ملی کہ ساتھ والی یونٹ پر حملہ ہوا ہے۔11 جوان شہید ہوئے۔۔۔ اپنی چھٹی از خود منسوخ کی اور یونٹ پہنچ گئے، اگلی چھٹی اور روڈ کارواں کے ساتھ موقع 35 دن کے بعد کا ملا۔۔۔۔ حملہ اسکی یونٹ پر نہیں ہوا تھا، ہوا بھی ہوتا تب بھی وہ چھٹی پر جاسکتا تھا۔۔ لیکن یہ Disgrace Of Command ہوتی۔

ایک بہت قریبی رفیق وزیرستان میں کمانڈنگ آفیسر تھے، 9 سالہ بیٹے کو تیسرے درجے کا کینسر تشخیص ہوا، اہلیہ لاہور سی ایم ایچ کے زچگی وارڈ میں تھی، چھٹی لے کر نکلے۔ ابھی ڈیرہ اسماعیل خان ہی پہنچے تھے خبر ملی کہ ساتھ والی یونٹ پر حملہ ہوا ہے۔11 جوان شہید ہوئے۔۔۔ اپنی چھٹی از خود منسوخ کی اور یونٹ پہنچ گئے، اگلی چھٹی اور روڈ کارواں کے ساتھ موقع 35 دن کے بعد کا ملا۔۔۔۔ حملہ اسکی یونٹ پر نہیں ہوا تھا، ہوا بھی ہوتا تب بھی وہ چھٹی پر جاسکتا تھا۔۔ لیکن یہ Disgrace Of Command ہوتی۔

اسی فوج میں ایک میجر جنرل ماضی قریب میں ایک لڑاکا ڈویژن اس طرح کمانڈ کررہے تھے کہ ان کی ایک ٹانگ مصنوعی لگی ہوئی تھی ۔۔۔ وہ کسی آپریشنل ڈیوٹی سے معذرت کرسکتے تھے۔ لیکن یہ وقار کے متضاد ہوتا۔
مجھے صبح 9 بجے دوسرے سٹیشن پوسٹنگ پر نکلنا تھا، لیکن بیگم اسی صبح 7 بجے ہی ہسپتال داخل ہوگئیں، رات کے گیارہ بجے آپریشن ہوا، اسے ابھی ہوش بھی نہیں آیا اور میں اپنے نئے اسٹیشن کی طرف نکل چکا تھا۔ رات 12 سے صبح 8 بجے تک گاڑی چلائی اور ساڑھے آٹھ بجے ڈیوٹی پر تھا۔۔۔ میں ایک دن کی چھٹی فون پر لے سکتا تھا لیکن چھٹی پر ہوتے ہوئے ایک دن کی بھی چھٹی بڑھوانا ادارے کی Core Value کے خلاف جانے کے مترادف ہوتا۔۔۔۔۔
اس ادارے کو بھی بہت سے لوگ اُسی آنکھ سے ہی دیکھتے ہیں جس سے سوشل میڈیا اور بعض دیگر ذرائع ابلاغ دیکھتے ہیں۔شومئی قسمت سے فیک نیوز اور پراپیگنڈہ نے قومی اداروں کے حوالے سے جو تصویر کشی کی ہے وہ کسی بھی ملک و قوم کے لیے اچھی نہیں ہوتی۔

کالم نویس :عبدالسمیع قائم خانی

Column

PakistanArmy

DisgraceofCommand

Columnpak armyانٹرویوپاک فوجپاکستانپاکستان آرمیقلم اور کالممکالمہ
Comments (0)
Add Comment