پردہ پوشی 

عالمی سیاست میں  بڑے بڑے ایکٹرز کا گٹھ جوڑ، ملٹی نیشینل کمپنیوں کا کردار ، یہ سب پردہ پوشی سے کیا جانے والا  بیوپار ہے- 

الیکشن حجت ہے اورووٹنگ ایک عمل – بنانے والوں نے "حجت اور عمل” کے کھیل میں کوئی ایسا خلاء نہیں چھوڑا جہاں سے کوئی "چھوٹا موٹا ” بندہ اندر گھس سکے-  حیرت ہے اس سارے کھیل میں عوام  تبدیلی  ڈھونڈتی ہے

ہماری حکومت معیشیت کے سارے گورکھ دھندوں کو اس  فارمولے   [بجلی کا یونٹ + پٹرول کا لیٹر  +  ڈیوٹی +ٹیکس = ترقی ] سے حل کرنا چاہتی ہے- اللہ کے بندوں economic، economy اب سائنس بن چُکی ہے- اسے یونیورسٹیوں میں باقاعدہ ایک سائنسی مضمون سمجھ  کے پڑھایا جاتا ہے- جس فارمولے کو آپ معیشیت سمجھ رھے ہیں اسے گلی محلوں میں ” کمیٹی ڈالنا ” کہتے ہیں- پلیز ، کمیٹی اور معیشیت کو آپس میں گڈ مڈ نہ کریں-  

دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں کی تحقیق میں یہ ثابت ہو چکا ہے کہ حکومتوں کا نعرہ ” عوام کی بھلائی ، ہماری اوّلین ترجیح ہے ” کو  سیاسی discourse سے نکال کر ” مزاح کی کٹیگری میں شامل کر لیا جائے – ابھی ” عوام طاقت کا منبہ ہیں ” پر تحقیق جاری ہے کہ اسے دواساز کمپنی کا نعرہ ہونا چاہیے  یا  یونائیٹڈ نیشن کا موٹو-

عادتوں کی بخوبی علم ہے کہ ہم چائے میں ایک چمچہ چینی کم نہیں کرتے، ہم نے مسائل کے پہاڑ کو خاک سر کرنا ہے- انٹر نیٹ،  موبائل اور سوشل میڈیا ، ہڈ حرامی کو اس سطح پر لے گئے ہیں کہ اب واپسی ممکن نہیں – اس ہڈ حرامی کو مزید اوپر لے جانے کے لئے سینکڑوں کمپنیاں میدان میں کود چکی ہیں ( آن لائن شاپنگ، فوڈ پانڈہ، او ایس ایل وغیرہ)- نشے کی عادت چھڑوانے کے لئے rehabilitation کرتے تھے – موبائل اور ھڈ حرامی کی عادت چھڑوانے کا کوئی فارمولا فی الحال سامنے نہیں آیا- 

دُنیا کا سارا کچرا، سارا گند، ساری نفرت بڑی بڑی کمپنیاں  اور گروہ  چالاکی سے ،چھوٹے سے موبائل  کے ذریعے ہمیں بیجتی جا رہی ہیں اور ہم خریدتے بھی جا رہے ہیں- عقل واقعی  دور کہیں جنگل کی طرف  گھاس چرنے نکل گئی ہے- 

ہم  اپنی عمر کے بہترین حصے میں پہلے مسئلہ ڈھونڈتے ہیں پھر اس سے محبت کرتے ہیں  اور پھر نکاح -جب عمر ڈھلنے لگتی ہے تو ہمیں مسئلہ ، مسائل کا پہاڑ لگنے لگتا ہے- اس کا سادہ سا نتیجہ تو یہی ہے کہ مسئلہ،  آپ کےمسئلے کے ساتھ نہیں، یہ سارا فتور عمر کا ہے- تو ظالموں اپنی سوچ کو بدلو، مسئلوں کو کیوں خوار کر رہے ہو- 

لکی ایرانی سرکس والوں نے  احتجاج کیا ہے کہ اگر حکومتوں نے ہی وہ سب کرنا تھا جو ہم  کر رہے تھے تو ہمارے کاروبار پر کیوں لات ماری- 

۰-۰-۰-۰

ڈاکٹر عتیق الرحمان 

Comments (0)
Add Comment