پاکستان کے میڈیا اور دانشوروں کو غور سے تجزیہ کرنا ھو گا کہ جس کو یہ فوج کی سیاست میں مداخلت سمجھ رھے ہیں کہیں وہ چار دھائیوں سے ملکی دفاع کی ذمہ داریوں کی انجام دھی تو نھیں۔ دنیا میں پاکستان واحد ملک ھے جو چاروں طرف سے خطرات میں گرا ھوا ھے اور جس کی مسلح افواج ڈٹ کر ملک کا دفاع کر رھی ہیں۔ دفاع کی ذمہ داریاں نبھاتی فوج کو سیاسی قیادت کی پشت پناھی چاھیے ھوتی ھے نہ کہ تنقید۔

پاکستان کی اھم ترین جغرافیائی حیثیت ۔ خطرات اور ذمہ داریاں

تحریر -ڈاکٹر عتیق الرحمان

پاکستان کا جرافیائی حدود اربعہ بہت زیادہ غیر معمولی نوعیت کا حامل ھے ۔ پاکستان کے مشرق میں پچھلے ۷۴ سال سے بھارت پھن پھیلائے کھڑا ھے تو مغربی سرحد پر افغانستان ھے جو کہ چار دھائیوں سےبھی زائد عرصے سے اندرونی خلفشار کا شکار ھے۔ بھارت کے عزائم اور پاکستان مخالف پالیسیز شروع دن سے پاکستان کے لئے بہت بڑا چیلنج ہیں۔ شمال مشرقی سرحد کے ساتھ چین ھے جو کہ ابھرتی ھوئی عالمی طاقت ھے اور امریکی مخالفت کا سب سے بڑا حدف بھی۔ چین کے ساتھ پاکستان کے بہت گہرے تجارتی ، ثقافتی ، معاشرتی اور دفاعی تعلقات ہیں۔ جنوب مغرب میں ایران ھے جو کہ امریکہ کا براہ راست مخالف ھے اور مشرق بعید کی سیاست پر گہرا اثرو رسوخ رکھتا ھے۔ ایران کے بھارت کے ساتھ گہرے دفاعی اور تجارتی روابط بھی پاکستان کے لئے حطرہ ہیں جو کہ چاہ بہار بندرگاہ کی شکل میں پہلے ھی عیاں ھو چکے ہیں ۔

آٹھ لاکھ اکاسی ھزار کلومیٹر پر محیط پاکستان کے چاروں اطراف پاک فوج ملک کے دفاع اور سلامتی کے فرائض انجام دے رھی ھے۔ 1947 سے لیکر آجتک پاکستانی فوج لائن آف کنٹرول پر اپریشنل ذمہ داریاں ادا کر رھی ھے اور ۲۰۰۱ سے لیکر اب تک نہ صرف مغربی سرحد پر بھی اپریشنل ذمہ داریوں سے بنرد آزما ھو رھی ھے بلکہ اندرونی محاذ پر بھی دھشت گردی کی جنگ لڑ رھی ھے۔

جنوب ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا اس وقت پوری دنیا کو نگاہ کا مرکز ہیں۔ کیونکہ معاشی طاقت مغرب سے نکل کر مشرق کی طرف رواں دواں ھے۔ چین، بھارت، جاپان، سنگاپور، ویت نام ابھرتی ھوئی معاشی قوتیں ہیں۔ ان سیاسی اور معاشی حالات نے مل کر خطے میں سیکورٹی کی ایک غیر معمولی صورتحال کو جنم دیا ھے۔ ان غیر معمولی حالات میں پاک فوج بیرونی اور اندرونی محاذوں پر ملکی دفاع کے غیر معمولی فرائض انجام دے رھی ھے۔ غیر معمولی سیکورٹی کے تناظر میں غیر معمولی دفاعی ذمہ داریاں دراصل ایک منفرد کارنامہ ھے جس کے لئے پاک فوج داد کی مستحق ھے –

امریکہ اور دوسری مغربی قوتیں ، بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف سیکورٹی خدشات کو ابھارتی ہیں۔ جب پاک فوج ان اقدامات کے خلاف بھر پور کروائی کرتی ھے تو وھی قوتیں فوج کے خلاف مہم کا آغاز کر دیتی ہیں، جسے مغربی اور بھارتی میڈیا ھوا دیتا ھے۔ بلی اور چوھے کا یہ کھیل پاکستان کی مغربی اور مشرقی سرحدوں پر کھیلا جا رھا ھے اور ساتھ ھی ساتھ دوسرے عوامل جیسا کہ آئ ایم ایف، افغانستان کی صورتحال، ایف اے ٹی ایف ان کو حرکت میں لا کر پاکستان پر دباؤ بڑھانے کی کوشش کی جا رھی ھے۔

ملک کے دفاع کے لئے فوج کے دوھرے ، تہرے فرائض کی انجام دھی کے لئے کئے گئے اقدامات سے پاکستان کے انتظامی حالات میں ایک غیر متوازن صورتحال پیدا ھوتی ھے جو کہ غیر مستحکم سیاسی حالات کی وجہ بنتی ھے۔ یہ ایک نادانستہ عمل ھے۔اس غیر متوازن صورتحال کی بڑی وجہ پاکستان کی فوج کی مشرق اور مغربی سرحد پر ایکٹو/ اپریشنل ذمہ داریاں ہیں جو کہ کئی دھائیوں سے چلتی آرھی ہیں۔ مشرق میں شکر گڑھ سے لیکر ھیڈ مرالہ تک ورکنگ باؤنڈری اور پھر لائن آف کنٹرول اور پھر سیاچن کے محاذ پر لائن آف ایکچوئل کنٹکٹ ۔ مغربی سرحد، فاٹا کے اضلاع ، کے پی کے میں فوج کے اپریشن ، بلوچستان اور کراچی میں امن و امان کی بحالی میں فوج کا کردار۔ ان اپریشنل ذمہ داریوں کی وجہ سے یہ تاثر ابھرتا ھےکہ فوج شاید اپنی حدود سے تجاوز کر رھی ھے۔جب فوج ملک دشمن قوتوں کے خلاف اپریشن کرتی ھے تو مقامی حالات خود بخود فوج کے تابع ھو جاتے ہیں۔ یہ ھی وہ ایک چھوٹا سا نقطہ ھے جسے سمجھنے کی ضرورت ھے۔ جب ملک چاروں طرف سے خطرات میں گرا ھو تو سیکورٹی نافذ کرنے والے اداروں کا اپریشنل کام کرنے کی وجہ سے قد و قامت تھوڑا سا بڑا لگتا ھے۔ ایسی صورتحال میں کچھ سیاسی اداروں اور میڈیا کے لئے وہ باریق لائن مدھم ھو جاتی ھے جو فوج کے فرائض کو سیاسی کردار سے علیحدہ کرتی ھے ۔ اسی لئے پاکستانی میڈیا حکومت سے زیادہ سیکورٹی کے اداروں پر تنقید کرتا نظر آتاھے۔ اور مختلف حیلوں بہانوں سے بار بار فوج کو سیاست میں گھسیٹ لاتا ھے اور بے جا تنقید کا نشانہ بناتا ھے۔فوج بار بار وضاحت دیتی ھے اور لا محالہ سیاسی عمل کا حصہ بن جاتی ھے۔جس کی وجہ سے پاکستان کی سیکورٹی کے لئے اٹھائے گئے تمام اقدامات بھی میڈیا کی تنقید کا باعث بنتے ہیں۔ یہ روز روشن کی طرح عیاں ھے کہ پاکستان نے بیس سال سے جاری دھشت گردی کے خلاف جنگ جیتی ھے ۔ ساتھ ھی ساتھ مشرقی سرحد پر دشمن کو منہ توڑ جواب دیا ھے۔ دنیا کی واحد فوج ھے جس نے دونوں محاذوں پر مسلسل بیس سال جنگ لڑی اور جیتی ھے۔ یہ جیت پاکستانی کی عسکری قیادت کی اعلی سوچ کا واضح ثبوت ھے جس کا مظاھرہ انہوں نے دشمن کو شکست دے کر کیا ھے ۔

فوج کی سیاست میں مداخلت نھیں بلکہ اپنے فرائض کی انجام دھی کے لئے کئے گئے پیشہ وارانہ اقدامات ہیں۔ ملک کےاندرونی اور بیرونی خطرات کے لئے کئے گئے اقدامات کو سیاست میں عمل دخل کے زمرے میں پیش کرنا ایک غلط تاثر ھے- اور اس غلط تاثر کو کچھ بیرونی اور اندرونی سیاسی قوتیں طاقتیں مل کر نہ صرف ھوا دے رھی ہیں بلکہ اپنےذاتی مقاصد کے حصول کے لئے بھی استعمال کر رھی ہیں۔

صحافت کا معاشرے پر جتنا اثرو رسوخ امریکہ ، بھارت اور پاکستان میں ھے شاید ھی دنیا کے کسی ملک میں ھو۔ امریکہ اور بھارت میں مضبوط سینما انڈسٹری عوام اور میڈیا کے درمیان رابطے کا بہت بڑا ذریعہ ھے۔

ٹرمپ کے دور حکومت میں میڈیا انڈسٹری ٹرمپ حکومت سے نالاں نظر آئی۔ اس کی بڑی وجہ ٹرمپ کی میڈیا سے بے اعتنائی ھی نظر آتی ھے۔ صحافتی حلقے ٹرمپ کو سٹینڈنگ کامیڈین کے طور پر پیش کر کے عوام کو لطف اندوز کرتے رھے۔ شاید یھی ٹرمپ کا مطمع نظر بھی تھا۔لیکن پورا امریکی میڈیا حکومتی دفاعی اقدامات سے متفق تھا ماسوائے چند ناقدین کے۔

بھارت میں بھی زیادہ تر صحافتی حلقے موودی کو کا میڈی سرکس کا حصہ پیش کرتے ہیں۔ وسیع القب صحافتی حلقے بھارتی حکومت کی متشدد پالیسیوں سے نالاں نظر آتے ہیں۔ البتہ ملک کا زیادہ تر میڈیا حکومتی سیکورٹی پالیسیوں سے متفق نظر آتا ھے یا کم از کم متفق ھونے کی ایکٹنگ کرتا نظر آتا ھے۔

پاکستان کا المیہ ملک کےمجموعی اندرونی اور بیرونی سیکورٹی حالات ہیں جو کہ سیاست ، معیشت اور معاشرت پر حاوی ہیں۔ الجھی ھوئی صورتحال کو دشمن بھر پور طریقے سے اپنے مقصد کے لئے استعمال کر رھا ھے۔ مغربی اور بھارتی میڈیا کے گٹھ جوڑ نے پاکستان کے خلاف مختلف قسم کے عمومی تاثر ات کو ابھارنے میں بھر پور کردار ادا کیا ھے۔

پاکستان کے میڈیا اور دانشوروں کو غور سے تجزیہ کرنا ھو گا کہ جس کو یہ فوج کی سیاست میں مداخلت سمجھ رھے ہیں کہیں وہ چار دھائیوں سے ملکی دفاع کی ذمہ داریوں کی انجام دھی تو نھیں۔ دنیا میں پاکستان واحد ملک ھے جو چاروں طرف سے خطرات میں گرا ھوا ھے اور جس کی مسلح افواج ڈٹ کر ملک کا دفاع کر رھی ہیں۔ دفاع کی ذمہ داریاں نبھاتی فوج کو سیاسی قیادت کی پشت پناھی چاھیے ھوتی ھے نہ کہ تنقید۔

ٹرمپ کے دور حکومت میں میڈیا انڈسٹری ٹرمپ حکومت سے نالاں نظر آئی۔ اس کی بڑی وجہ ٹرمپ کی میڈیا سے بے اعتنائی ھی نظر آتی ھے۔ صحافتی حلقے ٹرمپ کو سٹینڈنگ کامیڈین کے طور پر پیش کر کے عوام کو لطف اندوز کرتے رھے۔ شاید یھی ٹرمپ کا مطمع نظر بھی تھا۔لیکن پورا امریکی میڈیا حکومتی دفاعی اقدامات سے متفق تھا ماسوائے چند ناقدین کے۔

بھارت میں بھی زیادہ تر صحافتی حلقے موودی کو کا میڈی سرکس کا حصہ پیش کرتے ہیں۔ وسیع القب صحافتی حلقے بھارتی حکومت کی متشدد پالیسیوں سے نالاں نظر آتے ہیں۔ البتہ ملک کا زیادہ تر میڈیا حکومتی سیکورٹی پالیسیوں سے متفق نظر آتا ھے یا کم از کم متفق ھونے کی ایکٹنگ کرتا نظر آتا ھے۔

پاکستان کا المیہ ملک کےمجموعی اندرونی اور بیرونی سیکورٹی حالات ہیں جو کہ سیاست ، معیشت اور معاشرت پر حاوی ہیں۔ الجھی ھوئی صورتحال کو دشمن بھر پور طریقے سے اپنے مقصد کے لئے استعمال کر رھا ھے۔ مغربی اور بھارتی میڈیا کے گٹھ جوڑ نے پاکستان کے خلاف مختلف قسم کے عمومی تاثر ات کو ابھارنے میں بھر پور کردار ادا کیا ھے۔

پاکستان کے میڈیا اور دانشوروں کو غور سے تجزیہ کرنا ھو گا کہ جس کو یہ فوج کی سیاست میں مداخلت سمجھ رھے ہیں کہیں وہ چار دھائیوں سے ملکی دفاع کی ذمہ داریوں کی انجام دھی تو نھیں۔ دنیا میں پاکستان واحد ملک ھے جو چاروں طرف سے خطرات میں گرا ھوا ھے اور جس کی مسلح افواج ڈٹ کر ملک کا دفاع کر رھی ہیں۔ دفاع کی ذمہ داریاں نبھاتی فوج کو سیاسی قیادت کی پشت پناھی چاھیے ھوتی ھے نہ کہ تنقید۔

ایرانپاکستانسیاسیفوجملک کا دفاعمیڈیا
Comments (0)
Add Comment