وہ پانچ انکشافات جن کی وجہ سے فیس بک کو مختلف الزامات کا سامنا

معروف سوشل میڈیا پلیٹ فارم فیس بک کو رواں ہفتے سے اپنے اندرونی معاملات سے متعلق لگاتار الزامات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور اس کی بنیاد اخبار ’وال سٹریٹ جرنل‘ اور دیگر ذرائع ابلاغ کے ذریعے ہونے والے انکشافات ہیں۔

زیادہ تر معلومات فیس بک کی اپنی اندرونی دستاویزات سے حاصل ہوئی ہیں جو اس بات کا اظہار ہیں کہ کمپنی کی صفوں میں کچھ ایسے لوگ ہیں جو مخبری کر کے مسائل کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔

یہ دستاویزات حکومتوں اور ریگولیٹرز (ضابطہ کاروں) کو ان کی اگلی چالوں پر غور کرنے کے لیے بہت کچھ فراہم کریں گی تاہم فیس بک نے تمام الزامات کے خلاف اپنا دفاع کیا ہے۔

رواں ہفتے سامنے آنے والی پانچ چیزیں مندرجہ ذیل ہیں:

فیس بک کا مشہور شخصیات کے ساتھ الگ سلوک کیا

وال سٹریٹ جرنل کی رپورٹ کردہ دستاویزات کے مطابق فیس بک میں سلیبریٹیز، سیاست دانوں اور ہائی پروفائل صارفین کے لیے مختلف قوانین تھے کہ وہ کون سا مواد پوسٹ کر سکتے ہیں اور اسے ’ایکس چیک‘ (یا کراس چیک) کے نام سے جانا جاتا ہے۔

فیس بک نے اپنے کراس چیک سسٹم پر ہونے والی تنقید کو تسلیم کر کے ’جائز‘ کہا ہے مگر اس کا کہنا ہے کہ یہ ’ایک اضافی مرحلہ‘ تھا تاکہ پوسٹ کردہ مواد کو بہتر سمجھا جا سکے۔

اس نے کہا کہ ’اس میں تشدد کے واقعات کے بارے میں شعور بیدار کرنے والے کارکن یا جنگ زدہ علاقوں سے رپورٹنگ کرنے والے صحافی بھی شامل ہوسکتے ہیں۔‘

اس نے کہا کہ وال سٹریٹ جرنل کی طرف سے حوالہ کے طور پر پیش کی گئی بہت سی دستاویزات ’پرانی ہیں اور انھیں اس طرح پرو کر ایک ایسا بیانیہ تیار کیا گیا ہے کہ جو کہ سب سے اہم نقطہ نظر پر روشنی ڈالتا ہے: فیس بک نے خود ان مسائل کی نشاندہی کی اور کراس چیک کی خامیوں سے نمٹنے کے لیے کام کر رہا ہے۔‘

ان الزامات کو پس پشت ڈالنے کے باوجود فیس بک کے اپنے نگرانی بورڈ نے، جسے مشکل مواد پر فیصلے کرنے کے لیے قائم کیا گیا ہے، مزید شفافیت کا مطالبہ کیا ہے۔

رواں ہفتے ایک بلاگ میں اس نے کہا کہ ان انکشافات نے ’بظاہر متضاد طریقے سے کمپنی کے فیصلے کرنے کی طرف پھر سے توجہ مبذول کرائی ہے۔‘

کراس چیک سسٹم کیسے کام کرتا ہے کے متعلق اس نے تفصیلی وضاحت مانگی ہے۔

اس نے متنبہ کیا ہے کہ کراس چیک پر وضاحت کی کمی اس خیال کو فروغ دے سکتی ہے کہ فیس بک ’سیاسی اور تجارتی مصلحتوں کے پیش نظر غیر ضروری طور پر متاثر ہوا ہے۔‘

جب سے اس نے اپنا کام شروع کیا ہے کہ فیس بک کس طرح مواد کو ماڈریٹ کرتا ہے، فیس بک کے مالی تعاون سے چلنے والے نگرانی بورڈ نے 70 سفارشات کی ہیں کہ کمپنی کو اپنی پالیسیوں کو کس طرح بہتر بنانا چاہیے۔ اس نے اب ایک ٹیم تشکیل دی ہے تاکہ اندازہ لگایا جا سکے کہ سوشل نیٹ ورک ان سفارشات کو کس طرح نافذ کرتا ہے۔

انسانی سمگلنگ کے بارے میں ملازمین کے خدشات پر اس کا ردعمل اکثر ’کمزور‘ رہا ہے۔

وال سٹریٹ جرنل کی طرف سے رپورٹ کردہ دستاویزات میں یہ بھی تجویز کیا گیا ہے کہ فیس بک ملازمین باقاعدگی سے پلیٹ فارم پر منشیات کے کارٹلوں اور انسانی سمگلروں کے بارے میں معلومات کو اجاگر کرتے رہے ہیں لیکن اس پر کمپنی کا ردعمل ’کمزور‘ تھا۔

نومبر سنہ 2019 میں بی بی سی عربی نیوز نے انسٹاگرام پر فروخت کے لیے گھریلو ملازمین کے مسئلے کو اجاگر کرنے والی ایک رپورٹ نشر کی تھی۔

اندرونی دستاویزات کے مطابق فیس بک پہلے ہی سے اس مسئلے سے اچھی طرح واقف تھا۔ وال سٹریٹ جرنل نے رپورٹ کیا کہ فیس بک نے صرف اس وقت تک محدود کارروائی کی جب تک کہ ٹیکنالوجی کمپنی ایپل نے اپنے ایپ سٹور سے اپنی مصنوعات کو ہٹانے کی دھمکی نہ دی۔

اپنے دفاع میں فیس بک نے کہا کہ اس کے پاس لوگوں کو محفوظ رکھنے کی ‘جامع حکمت عملی’ ہے جن میں ’50 سے زائد زبانوں کے دیسی ماہرین کی عالمی ٹیمیں ہیں اور تعلیمی وسائل اور تیسری پارٹی کے حقائق چیک کرنے والوں کے ساتھ شراکت بھی شامل ہیں۔’

ناقدین نے خبردار کیا کہ فیس بک کے پاس اپنے پلیٹ فارم پر موجود تمام مواد کو ماڈریٹ کرنے اور اپنے 2.8 بلین صارفین کی حفاظت کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔

دی فیس بک ایفیکٹ کے مصنف ڈیوڈ کرک پیٹرک نے بی بی سی کے ٹیک ٹینٹ پوڈ کاسٹ کو بتایا کہ ان کے خیال میں فیس بک کی امریکہ سے باہر ’نقصانات میں ثالثی کرنے کے لیے کوئی تحرک نہیں رکھتا‘۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’ان کے پاس بہت ساری چیزیں ہیں جو انھوں نے کی ہیں جن میں دسیوں ہزار افراد کا مواد کا جائزہ لینے کے لیے خدمات کا حاصل کرنا ہے۔

لیکن وال سٹریٹ جرنل سے میرے لیے ایک اعدادوشمار یہ نکلا کہ 2020 میں ان کے تمام غلط خبروں اور جھوٹی معلومات کی چھان بین کے لیے جتنا کام کیا اس کام کا صرف 13 فیصد امریکہ سے باہر کیا گیا۔

ان کے مطابق ایک ایسی سروس کے لیے جو 90 فیصد سے زائد امریکہ سے باہر کے ممالک کے لیے ہے اور جس کا فلپائن، پولینڈ، برازیل، ہنگری، ترکی جیسے ممالک کی سیاست پر انتہائی منفی انداز میں بہت زیادہ اثر پڑا ہے تو وہاں بہتری کے لیے فیس بک والے کچھ نہیں کر رہے ہیں۔

کرک پیٹرک نے مشورہ دیا ہے کہ فیس بک امریکہ میں صرف ’پی آر دباؤ پر متحرک ہے‘ کیونکہ ایسا نہ کرنے سے اس کو مالی نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔

اس وقت بھی فیس بک کو شیئر ہولڈرز کی طرف سے کئی قانونی مقدمات کا سامنا ہے۔ اس کے علاوہ فیس بک کو اس وقت اپنے شیئرہولڈرز کے ایک گروپ کی جانب سے ایک پیچیدہ مقدمے کا سامنا ہے۔

اس گروپ نے دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ فیس بک کی ’کیمبرج اینالیٹیکا ڈیٹا سکینڈل‘ کے مسئلے کے تصفیے کے لیے امریکی فیڈرل ٹریڈ کمیشن کو پانچ بلین ڈالر کی بڑی ادائیگی کی تھی کیونکہ یہ سب مارک زکربرگ کو مقدمے میں ملوث ہونے سے بچانے کے لیے کیا گیا تھا۔

فیس بک نے اس قانونی مقدمے پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے۔

کیا فیس بک اپنے متعلق مثبت خبروں کی پروموشن خود کرتا ہے؟

اس ہفتے نیو یارک ٹائمز کے مطابق فیس بک نے اپنی شبیہ کو بہتر کرنے کے لیے فیس بک سے متعلق مثبت مواد کو لوگوں کی نیوز فیڈز میں کا حصہ بنانے کا آغاز کیا ہے۔

اخبار کے مطابق ’پروجیکٹ ایمپلیفائی‘ لوگوں کو سوشل نیٹ ورک کے بارے میں مثبت کہانیاں دکھانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔

فیس بک انتظامیہ نے کہا ہے کہ اس کے نیوز فیڈ رینکنگ سسٹم میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے۔

ٹوئٹر پر پیغامات کی ایک سیریز میں ترجمان جو اوسبورن نے کہا ہے کہ جس چیز کو ’فیس بک پر ایک معلوماتی یونٹ‘ کہا جاتا ہے اس کا محدود پیمانے پر تین شہروں میں تجربہ کیا گیا تھا، جس میں واضح طور پر فرم کی طرف سے آنے والے پیغامات کے لیبل لگے تھے۔

انھوں نے کہا کہ یہ ’کارپوریٹ ذمہ داری کے اقدامات کی طرح ہے جو لوگ دوسری ٹیکنالوجی اور صارفین کی مصنوعات میں دیکھتے ہیں۔‘

فیس بک جانتا تھا کہ انسٹا گرام کمسن افراد کے لیے زہریلا ہے؟

فیس بک فائلز سے کیا جانے والا ایک اور اہم انکشاف یہ تھا کہ کمپنی کی جانب سے اس موضوع پر خصوصی تحقیق کی گئی تھی کہ انسٹاگرام کمسن نوجوانوں پر کیا اثرات ڈالتا ہے لیکن اس تحقیق کے نتائج عام نہیں کیے جن میں یہ واضح طور پر لکھا گیا تھا کہ یہ پلیٹ فارم نوجوانوں کی ذہنی صحت متاثر کر سکتا ہے۔

امریکی جریدے وال سٹریٹ جرنل کی جانب شائع کی جانے والی سلائیڈز کے مطابق سروے میں حصہ لینے والی 32 فیصد نوجوان لڑکیوں کا خیال ہے کہ جب وہ اپنے جسم کے بارے میں برا محسوس کر رہی تھیں تو انسٹاگرام نے انھیں اس حوالے سے مزید برا محسوس کروایا۔

اس ہفتے فاکس نیوز کے مطابق لیک ہونے والی دستاویز کو سامنے لانے والا (وسل بلوئر) ان کی شناخت ظاہر کرے گا اور کانگریس کے ساتھ تعاون کرے گا۔

اس سے درکنار کے یہ ہوگا یا نہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ فیس بک اپنے پلیٹ فارم کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کے بارے میں اپنے تفصیلی مطالعے کے نتائج شئیر کرنے میں ناکام رہا اور یہ امریکی سیاستدانوں کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے۔

Comments (0)
Add Comment