یقین کریں کسی کو کسی سے کوئی خطرہ نہیں- ہر ایک کو اپنے آپ سے خوف کھانا چاہیے، کیونکہ انسان سب سے زیادہ نقصان اپنے آپ کو پہنچاتا ہے-
ہم ساری عمر اپنی کوتاہیوں کو دوسروں کے سر تھونے کا جواز ڈھونڈتے رہتے ہیں- حالانکہ امتحانی مرکز میں پرچے ہم نے خود دئے تھے، نوکری کے لئے انٹرویو خود دیتے رہے ہیں، شادی سے پہلے محبت ہمیں خود ہوئی تھی، اپنا بھانگڑو ہم اپنے ہاتھ سے چنتے ہیں، ہم جس گورنمنٹ کو گالیاں دیتے ہیں اسے ہم نے نعرے مار مار کر خود جتوایا ہوتا ہے- کوئی ایک بھی ردعمل ایسا نہیں جو ہمارے اپنے عمل کا نتیجہ ہو-
مسئلہ یہ ھے کہ ہم آئینے کے سامنے صرف سجنے سنورنے کے لئے کھڑا ہوتے ہیں اور پورا زور مزید سے مزید خوبصورت ہونے پر لگا دیتے ہیں تاکہ دوسرے ہمیں پہچان نہ سکیں -کبھی دو منٹ صرف اور صرف اپنے شفاف چہرے کو دیکھیں تو سارے معاملات بہتر ہو جائیں
انسان بنیادی طورپر خود غرض اور انا پرست ھے،ہے اسی لئے بحثیت حکمران اپنی طاقت بڑھانے کا متمنی رھتا ہے اور یہی صفت پھر ریاستی امور میں منتقل ہو جاتی ہے- انسان کے مختلف روپ اور طاقت کی خواھش اسے عمر بھر گھیرے رھتی ھے اور تگنی کا ناچ نچاتی ھے- بنیادی طور پر انسان اداکار ہے- گھر میں باپ، خاوند، بھائی، بیٹا -دفتر پہنچتے ہی صاحب ، سیٹھ، ڈاکٹر ، پروفیسر – دوست سے ملتے ہی جگر ، یار- شام کو گھر لوٹتے ہی پھر ایک ذمہ دار باپ اور بھیگی بلی نما خاوند کی ڈرامے بازیاں – اسی ادھیڑ بن میں بیوقوفیاں، ڈرامے بازی سب کرتا جاتا ھے-