تحریر: عتیق الرحمان
افراتفری کے اس دور میں جب عالمی اور قومی سطح بحرانوں سے نمٹنے کے لئے جس دانشمند قیادت کی دنیا کو ضرورت وہ ناپید ہے- یا شاید یہ کہنا بھی بجا ہے کہ موجودہ بحران پیدا ہونے کی وجہ لیڈر شپ کا فقدان ہےرچرڈ نکسن اپنی کتاب ” لیڈرز” میں لکھتے ہیں کہ عظیم قیادت دراصل ایک منفرد فن ھے جس کے لئے نہ صرف بے انتہا طاقت بلکہ اولین مقصد بھی درکار ھوتا ھے۔لیڈر کی سوچ کا دائرہ نہ ھی محدود ھوتا ھے اور نہ ھی غیر لچکدار کیونکہ اس کا ھدف شخصی نھی عوامی مفاد ھوتا ھے۔ اس کا مطمع نظر لاکھوں ،کروڑوں زندگیوں کی حفاظت اور ان کو روز مرہ زندگی کے وسائل مہیا کرنا ھے۔ ریاست کاپہیہ اچھے لباس، اچھی خوشبو، بڑی بڑی گاڑیوں میں سفر کرنے یا کھو کھلےنعروں اور شعبدہ بازیوں اور نعروں سے نھی چلتا۔سیاست ایک مفاھمتی عمل ھے۔لیڈر کو اپنے فیصلوں کو عملی شکل دینے کے لئے بہت پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ لیڈر جب تک اپنی شخصی کمزورویوں اور ذاتی مفادات کی دلدل سے باھر نھی نکلتا اس کے فیصلے قومی مفاد میں نھی ھو سکتے۔ لیڈر کو اپنے لالچ اور پسند کو عوامی مفاد کے لئے قربان کرنا ھوتا ھے۔عظیم لیڈر سچ کو ساتھ لے کے چلتا ھے۔ فریب لومڑی کی فطرت ھے اور لومڑی جنگل میں رھتی ھے۔ پچھلی دو دھائیوں میں عالمی افق پر اجاگر ھونے والے گھمبیر مسائل کی ایک بڑی وجہ عالمی قیادت میں دور اندیشی کا فقدان، مسئال کے حل کے لئے غیر سنجیدہ رویہ اور غیر ضروری اھداف کا تعین ھے- جس طرح ھمارے سماجی اور معاشرتی رواج میں سے پنچائیت غائب ھو گئی ھے بلکل سی طرح دنیا میں چودھراھٹ کا خاتمہ ھوتا نظر آرھا ھے۔ امریکہ کا اقوام عالم پر آھستہ آھستہ کنٹرول ختم ھو رھا ھے۔افغانستان ھو یا ماحولیاتی تبدیلیوں کے لئے کی جانے والی کوششیں ، یا روس اور یوکرائن جیسے تنازعات ، امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور ھونے کے باوجود ان مسائل کو اپنی غیر موثر پالیسیوں اور اندرونی حالات کی وجہ سے حل کرنے سے قاصر ھے۔عالمی سطح پر چھوٹے ممالک ، بڑی طاقتوں کی پالیسیوں کی پیروی کرتے ہیں- ملکی سطح پر بھی حکومتوں کے گئے گئے فیصلوں کی بازگشت ملک میں ھر طرف گونجتی ھے۔عوام کی سوچ ، سیاسی قیادت کی سوچ کا عکس ھوتی ھے۔ کمزور ھمیشہ راھنمائی کے لئے طاقت ور کی طرف دیکھتا ھے۔ اگر عالمی طاقتوں کے اھداف میں ابہام ھو گا تو دنیا تلاطم کا شکار ھوگی۔ اسی طرح اگر ملکی اھداف واضح نھی ھونگے تو عوام میں بے چینی اور بے یقینی بڑھ جائے گی۔ اور یھی بے چینی دھائیوں سے ھمارے ساتھ سفر کرتی چلی آ رھی ھے۔ دھند ھے کہ چھٹنے کا نام ھی نھی لے رھی۔یہ صیح ھے کہ ریاست کی ترقی کا دارو مدار ، اداروں کی مضبوطی میں پنہاں ھے۔ لیکن آپ جرمنی کی انجیلا مرکل کی شخصیت اور ۱ن کے سیاسی کردار کو سامنے رکھیں تو اندازہ ھو گا کہ لیڈر کی شخصیت کس قدر ملکی ترقی پر اثر انداز ھوتی ھے۔ انجیلا مرکر کی طاقتور شخیصیت اور پاکستان کی سیاسی قیادت لیڈر کی شخیصت اس کے فیصلوں پر کس طرح اثر انداز ھوتی ھے اور قومیں کیسے سیاسی قیادت کے فیصلوں سے متاثر ھوتی ھیں۔ بورس جانسن اور مارگریٹ تھیچر کے ادوار کے برطانیہ کو سامنے رکھیں تو لیڈروں کی شخصیت اور ان کے اثرات کے مزید پہلو نمایاں ھونگے۔ وہ قومیں بہت خوش قسمت ھوتی ہیں جن کی سیاسی قیادت اکٹھے ھو کر ان کے مفاد لئے سوچے۔ مشہور کتاب ” قومیں کیوں فیل ھوتی ہیں ” میں اسی غلطی کی نشاندھی کی گئی ھے کہ عوامی مفاد کے لئے فیصلے نہ کرنا قوموں کے زوال کی سب سے بڑی وجہ ھے۔ پاکستان کی سیاست بہت خطرناک طریقے سے بٹی ھوئی ھے اور اس کی بڑی وجہ ذاتی سیاسی مفادات ہیں۔ لیڈر اگر فیصلہ کر لے تو کوئی اسے تبدیل نھی کرا سکتا۔رچرڈ نکسن نے اپنی کتاب میں دنیا کے درجن بھر عظیم لیڈروں کے کردار کا احاطہ کیا ھے۔ ان سب میں ایک چیز مشترک تھی۔ وہ اپنے ملک اور عوام کے لئے بے لوث خدمت کا جزبہ رکھتے تھے اور اپنے ملک اور قوم کے لئے کوئی بھی قربانی دینے کو تیار تھے۔ان عظیم لیڈروں نے اپنے ملکوں اور قوموں کو مشکلات سے نکالنے کے لئے خود غرضی کی چادر پھینک کر انتہائی جزبے سے کام کیا۔پاکستان کے مسائل کی بڑی وجہ بھی عوامی مسائل سے عدم توجہی اور اقتدار کے لئے رشہ کشی ھے-رچرڈ نکسن ، چرچل کا ذکر کرتے ھوئے لکھتے ہیں ونسٹن چرچل کی ڈکشنری میں شکست یا ناممکن لفظ نھی تھا۔ نکسن کے مطابق چرچل بیسویں صدی کا عظیم ترین لیڈر تھا۔چرچل ھمیشہ امن کے داعی رھے لیکن اس بات کے قائل تھے کہ اگر امن چاھیے تو دشمن کو جواب دینے کے لئے ھمیشہ تیار رھو۔ چرچل نے کبھی بھی ذاتی مفاد کے لئے طاقت کی جستجو نھی کی ، چرچل کا مطمعہ نظر ھمیشہ قومی اور ملکی مفاد تھا اور یھی اس کی کامیابی کا راز تھا۔ دنیا ان کو آج بھی عظیم لیڈر کے طور پر مانتی ھے۔فرانس کے صدر چارلس ڈیگال کا ذکر کرتے ھوئے نکسن لکھتے ہیں ڈیگال ایک انتہائی بے غرض اور مضبوط کردار کے لیڈر تھے- دس سال سے زائد عرصہ فرانس کے صدر رھے ، ھمیشہ فرانس اور فرانسیسی عوام کا مفاد مد نظر رکھا – ترقی یافتہ فرانس کی داغ بیل ڈالی اور الجیریا کی آزادی میں اھم کردار کیا- فرانسیسی قوم ان کی دل سے عزت کرتی ھے۔جنرل ڈگلس مکارتھر جو کہ امریکی تھے لیکن جنگ عظیم دوئم کے بعد ان کو جاپان کی نئے سرے سے تعمر وترقی کا کام ملا جسے انہوں نے آٹھ سال کے انتہائی قلیل وقت میں بے لوث جزبے سے دن رات محنت کر کے پورا کر دیا۔ کسی دوسرے ملک کے لئے یہ فرض شناسی کی انتہائ اعلی مثال ھے۔ ڈگلس مکارتھر امریکہ اور جاپان میں بے پناہ عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں ۔پاکستان کے مسائل بہت گھمبیر ہیں اور ظاھر ھے ان حالات کی کوئی ایک وجہ نھی ھو سکتی – اس کی بہت سی اندرونی یاور بیرونی وجوھات ہیں۔ لیکن کیا الزام تراشی ان مسائل کا حل ھے، جس سے آج پوری قوم دو چار ھے۔ کیا خود غرضی کی چادر میں لپٹی ھماری سیاسی قیادت کی بے حسی ھمارے روشن مستقبل کا تعین کرپائے گی۔ کیا روزانہ کا شکوہ اور جواب شکوہ ان مسائل کا حل ہے۔ ان مسائل کے ڈھیر کو ھم سب نے بڑی محنت کر کے پروان چڑھایا ھے – اور اب ان سے نبرد آزما ھونے کے لئے بھی اتنی ھی محنت کرنی پڑے گی۔مشکل حالات سے نکلنے کے لئے لیڈر کا کردار بہت اھم ھوتا ھے۔ لیڈر مسائل کی وجہ نھیں ، مسائل کا حل بنتے ہیں۔وسیع سوچ اور دور اندیشی لیڈر کا طرہ امتیاز ھے۔ لیڈر ماضی سے سبق سیکھتا ھے، موجودہ حالات کا تجزیہ کرتا ھے اور پھر مستقبل لا لائحہ عمل تیار کرتا ھے۔ سیاسی لیڈر کوچ نھی ھوتا جو میدان سے باھر بیٹھ اپنے پہلوانوں کو کبڈی کھلاتا ھے۔ لیڈر اپنی عوام کے کندھے سے کندھا ملا کر حالات کا سامنا کرتا ھے مسائل کا حل ڈھونڈتا ھے۔لیڈر خواھش نھی کرتے بلکہ اپنی مرضی سے اپنی قوم کے مستقبل کا فیصلہ کرتے ہیں۔ اور ان فیصلوں پر عمل کرنے کیلئے وہ کسی بھی مشکل کو نظر میں نھی لاتے اور تمام قوت مسائل کے حل پر صرف کرتے ہیں۔ قوموں کی ترقی ، ھمیشہ عظیم لیڈروں کی قیادت کی مرھون منت ھوتی ھے۔