مغرب اور ھم

تحریر : عتیق الرحمان


ہم اکثر موازنہ کرتے ہوئے مغربی معاشروں کی ترقی کا حوالہ دیتے ہیں کہ وہ اس طرح ہیں تو ہم کیوں نہیں- ان کا نظام تعلم دیکھ لیں ،ان کے ہسپتال، بجلی ، پانی کا نظام دیکھ لیں سب کتنا اعلی ہے- ہم نے کبھی نہی کہا ان کی عوام دیکھ لیں کتنی سلجھی ہوئی ہے، کتنی ذمہ دار ہے، کیسے قانون کی پاسداری کرتی ہے-
ہمیں ریاست سے ریاست کا موازنہ کرتے ہوئے شہریوں سے شہریوں کا موازنہ بھی کرنا چاھیے-
مغرب کی تاریخی حیثیت کا حوالہ مضبوط معیشیت اور اعلی تعلیم ہے- مشرق میں ابھی ابھی پیسہ آیا ہے اور وہ بھی ھمارے ارگرد ہی پہنچا ہے ھمارے ھاں تو ابھی آٹا لائن میں مل رھا ہے- یعنی مشرق اب جا کر نو دولتیا ہوا ہے- ہمارے ہاں کی تعلیم کی حالت اب آپ سے کوئی ڈھکی چھپی تو ہے نہیں ، ہم سب نے اپنی اعلی تعلیم ادھر ہی حاصل کی ہے-رٹا خالصتا مشرق کی ایجاد ہے- زرعی ماحول میں پلے بڑھے تعلیم یافتہ افراد، سکول انے سے پہلے اور سکول سے چھٹی کے بعد، بالترتیب بھینسوں کا دودھ دھو کر آتے تھے اور جا کر چارے کا انتظام بھی کرتے تھے-
بات اگر تعلیمی قابلیت کی ھے تو آپ خود اپنا امتحان لے لیں- سوال بنانا ہی نہی آئے گا- یعنی ہمیں اتنا بھی شعور نہیں کہ ہم نے اپنے آپ سے پوچھنا کیا ہے- جواب کا تو رہنے ہی دیں- ہمیں ٹوٹل کرنا پڑ جائے تو آج بھی "دو دونی چار”، "تن دونی چھ” کا سہارا لینا پڑتا ہے- درخواست لکھنے کے لئے ” بخدمت جناب ھیڈ ماسٹر ——” والا فارمیٹ رائج تھا اور وہی چل رھا ہے ہر طرف آج بھی-
ہمارے ہاں چیزوں کی کمی نہیں، ہمیں ان کا استعمال نہیں آتا- ہمیں سرکاری اثاثوں کا دریغ نہی ہے- ہمارے بجٹ میں ۲۲۰۰ ارب روپے کی سبسڈی حکومت دیتی ہے- کس کو دیتی ہے وہ الگ معاملہ ہے- ہمارے ھاں کسی چیز کی کمی نہیں- حکومتی سطح پر مس گوورننس ہے اور عوامی سطح پر شعور اور احساس زیاں کی کمی ہے- ہم سب مل کر ریاست کا استحصال کرتے جا رھے ہیں اور ساتھ ساتھ الزام تراشیاں کر کے اپنے آپ کو دھوکا بھی دیتے جا رھے ہیں-
مغرب نے تو کبھی سوچا بھی نہی ہو گا کہ "گھوسٹ سکول ” کیا ہوتا ہے- ہم کئی دھائیوں سے گھوسٹ سکول چلاتے آ رہے ہیں- ایک دو نہیں سینکڑوں ھزاروں-
گورا دو جنم بھی لے لے تو اس کے ذھن میں یہ ترکیب نہیں آ سکتی کہ فیک اکاؤنٹوں سے ریٹویٹ کرنے کے لئے سرکاری دفتروں میں بھرتیاں کی جائیں- جس طرح کے ٹرینڈ ہم بنا رہے ہیں ، یقین کریں ٹویٹر پہلے شرمندہ ہوتا ہے اور پھر حیران ہو کر ارد گرد دیکھتا ہے اور منہ ہی منہ میں گنگناتا ہے کہ "میرے آ مولا میں کیناں دے ہتھ آ گیا واں”-
کیا مغرب میں یہ رواج ہے کہ نئ ووھٹی ( دولہن) کا منہ پورے محلے کی عورتوں نے دیکھنا ہے-
مغربی بچوں کو کیا علم کہ بسنت کیا ہوتی ہے اور پتنگیں اور جنجیں لوٹنے کا کیا لطف ہے-
اگر مغرب کو بھی پٹواری میسر آ جائے تو انہیں لگ سمجھ جائے کہ معاشرہ بنتا کیسے ہے- ہمارے پاس سب کچھ ہے اگر نہیں تو تشکر کی عادت اور جینے کا سلیقہ-
-۰-۰-۰-

تحریرتعلیمی قابلیتریاستقانونقلم اور کالممعاشرہمغرب
Comments (0)
Add Comment