تجزیاتی رپورٹ ؛ ڈاکٹر عتیق الرحمان
پاکستان میں ھیومن ایجنسی ( شہری) دن بدن کمزور ہوتی جا رھی ہے جو کہ ایک خطرناک صورت حال ہے-معیشیت کا گورکھ دہندہ گو کہ ایک پیچیدہ معاملہ ہے لیکن معاملات کی گہرائی میں جانے سے اسے کافی حد تک سلجھایا جا سکتا ہے- ایک معروضی جائزے سے لگتا ھے مستحکم معیشیت کے لئے سٹرکچرل ریفارمز کے علاوہ، بیرونی قرضوں کی ادائیگی میں توازن ، ملکی سطح پر شرح سود میں کمی، درآمدات اور برآمدات میں توازن ، شرح ایکسینج میں مصنوعی طریقے سے کنٹرول سے اجتناب ، ٹیکس نیٹ میں اضافہ، بجلی اور گیس کی بے انتہا بڑھتی ھوئی ویمتیں لازمی جزو ہیں- ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ، سمگلنگ، گھریلو اخراجات اور آمدنی میں عدم توازن اضافی عوامل ہیں-
پاکستان کی معیشیت کی دگرگوں حالت کی اصل وجہ اشرافیہ کی ٹیکس کی چوری ہے- بینکوں نے صرف ۲۰% اکاؤنٹ فیڈرل بورڈ آف ریونیو سے شیئر کر رکھے ہیں- ایف بی آر کو 80 فیصد سے زائد بینک اکاؤنٹس میں موجود دولت اور ذرائع کے بارے میں کوئی معلومات ہی نہیں- ڈاکٹر شمشاد اختر کی حال ہی میں جاری ایک مانیٹری پالیسی کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق ٹیکس مد میں مختلف طریقے کی بدعنوانیوں سے پاکستان کو کھربوں روپے کا نقصان ہوتا ہے- صرف 2.4 فیصد آبادی ریٹرن فائل کرتی ہے ان میں سے بھی 55.6 فیصد صفر فائلرز ہیں جو کوئی ٹیکس ادا نہیں کرتے۔
سرکاری اعدادو شمار کے مطابق گزشتہ سال کی نسبت رواں برس مہنگائی میں خاصی حد تک کمی دیکھی گئی ہے۔ ان اعداد و شمار کے مطابق جنوری میں مہنگائی کی شرح 28.3 فی صد سے کم ہو کر فروری کے دوران 23.1 فی صد رہی۔ گو کہ زمینی حقائق اس دعوے کی تصدیق نہیں کرتے- ماہ رمضان میں مقامی مارکیٹوں میں مزید مہنگائی دیکھنے کو ملی ہے- لیکن مانیٹرنگ کمیٹی کا کہنا ہے کہ مہنگائی کے منظرنامے میں بڑی حد تک بہتری خوراک کی بہتر رسد، عالمی اجناس کی قیمتوں میں اعتدال کے مشترکہ اثرات کی وجہ سے ہے۔
لیکن ماھرین کا کہنا ھے کہ خوراک کی اجناس کی در آمد مہنگائی کی اصل وجہ
بر آمدات بڑھنے سے ملک میں خوراک کی قلت مہنگائی کی وجہ بن رھی ھے-
ماہ فروری میں تقریبا اکہتر کروڑ ڈالر کی اجناس غیر ممالک درآمد کی گئیں جس کی وجہ سے ملک میں خوراک کی قلت ہوئی اور مہنگائی میں ۲۰ فیصد اضافہ- سندھ سے پیاز اور کیلا غیر ممالک درآمد کیا جا رھا تھا جس سے پنجاب آنے والے پیاز کی سپلائی میں کمی پیاز کی قیمتوں میں اضافے کا باعث بنی- نگران حکومت نے پیاز کی درآمد پر پابندی لگا دی تھی جو تاحال جاری ھے-
باسمتی چاول کی درآمد میں ۸۶ فیصد اضافہ ہوا ہے جس کی بدولت ملک میں چاول کی قیمت پچھلے ایک سال میں ۱۵۰ روپے فی کلو سے بڑھ کر ۴۰۰ روپے تک پہنچ چکی ھے- بیرون ملک باسمتی چاول کی مانگ میں زیادتی کی وجہ بھارت کا چاول کی برآمد پر پابندی ہے-
اس معاشی سال میں گوشت کی بر آمد ۳۳ کروڑ ڈالر تک پہنچ چکی ھے جو کہ پچھلے سال کی نسبت ۳۰ فیصد زیادہ ہے- بر آمد میں اضافے کی وجہ متحدہ عرب امارات، اردن، مصر، سعودی عرب کی نئی منڈیاں ہیں- جہاں گوشت بھیجا جا رھا ہے -گوشت کی اندرون ملک کمی کی وجہ سے بڑے اور چھوٹے گوشت کی قیمتوں میں ۲۴ فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ھے-
ساتھ ہی ساتھ چینی، گندم اور چائے کی برآمد میں اضافے سے امپورٹ بل بڑھا ھے-
شرح سود کے حوالے سے ایک مقامی بروکریج ہاؤس میں ریسرچ ہیڈ طاہر عباس کا کہنا ہے کہ اگر قیمتوں میں کمی کا حالیہ سلسلہ جاری رہا، مہنگائی کی شرح اور موجودہ شرح سود نیچے آگئی تو مرکزی بینک 29 اپریل کو اگلی میٹنگ سے شرح سود میں کمی کا سلسلہ شروع کر دے گا۔دسمبر 2023 میں ختم ہونے والے گزشتہ مالی سال کے دوران بینکوں کے خالص منافع میں 86 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، جس سے بینکوں کی کمائی بڑھ کر 572 ارب روپے ہوگئی ہے، اضافے کی بنیادی وجہ بلند شرح سود ہے-
رواں مالی سال میں معاشی سرگرمی میں معتدل بحالی سے توقع کی جارہی ہے کہ اس سال کے اختتام پر ملک میں جی ڈی پی یعنی قومی معاشی ترقی کی رفتار دو سے تین فی صد کے درمیان رہے گی۔
پاکستان کے ایک ممتاز صحافی جن کی معیشیت پر گہری نظر ھے انہوں نے ایک تفصیلی رپورٹ میں لکھا ھے کہ گزشتہ مالی سال 2022-23 میں، پاکستان کی جی ڈی پی میں 0.2 فیصد کمی ہوئی۔ تاہم پاکستان کو زرمبادلہ کی ایک مشکل صورتحال کا سامنا ہے اور ایکسچنج کی شرح مصنوعی طریقے سے کنٹرول کی جا رھی ھے- گزشتہ برس مہنگائی 38 فیصد تک پہنچ گئی، جو پاکستان کی تاریخ کی بلند ترین سطح ہے- جو کہ اب 28 فیصد تک گر گئی ہے۔ گزشتہ مالی سال میں بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 7.8 فیصد تھا-
معاشی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت کو رواں مالی سال کُل بیرونی قرضوں 24.3 ارب ڈالر ادا کرنا تھے جس میں سے اب بھی 10.8 ارب ڈالر کی رقم مزید واپس کرنا ہے۔
حکومت کو توقع ہے کہ وہ چھ ارب ڈالر کے قرضے رول اوور کروا لے گی اور اس طرح بقیہ مالی سالوں میں ساڑھے تین ارب ڈالر کی رقم واجب الادا رہ جائے گی۔ اس طرح پاکستان کو سُود کے ساتھ رواں مالی سال کے اختتام تک لگ بھگ 4.8 ارب ڈالرز مزید واپس کرنا ہوں گے۔
ایک امریکی اہلکار کے مطابق اس سال پاکستان کی حکومت کی آمدنی کی 70 فی صد سے زائد رقم قرضوں اور ان پر سود کی ادائیگی کے لیے جانے کی توقع ہے۔
اسلام آباد کے ایک تھنک ٹینک کی گزشتہ ماہ سامنے آنے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کے ذمے 271 ارب ڈالر کے قرضے اور دیگر بیرونی ادائیگیاں ہیں۔
اُن کے بقول اس کی مالیت پاکستانی روپوں میں 77 ہزار ارب روپے سے زائد بنتی ہے اور یہ رقم پاکستان کے جی ڈی پی کا 76 فی صد سے بھی زائد ہے۔
گزشتہ سال نومبر میں امریکی ادارے ‘ایڈ ڈیٹا’ کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ سال 2000 سے 2021 کے دوران چین کی جانب سے پاکستان کو 70 ارب ڈالر سے زائد کی امداد فراہم کی گئی جس میں سے 98 فی صد مختلف منصوبوں میں قرض کی شکل میں تھی۔
رپورٹ کے مطابق دو فی صد رقم ایسی تھی جو امداد کی صورت میں دی گئی۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا تھا کہ چین کی حکومت اور مالیاتی اداروں کی جانب سے پاکستان کے لیے مجموعی طور پر 386 منصوبوں کے لیے 100 ارب امریکی ڈالر کا وعدہ کیا گیا تھا جو ایڈجسٹمنٹ کے بعد 68 ارب ڈالر رہی۔
اس میں سے توانائی کے منصوبوں پر 26 ارب ڈالر (40 فی صد)، بجٹ سپورٹ کے لیے 21 ارب ڈالر، ٹرانسپورٹ اور اسٹوریج کے شعبے میں 10 ارب ڈالر جب کہ بینکنگ اور فنانشل سروسز کی مد میں سات ارب ڈالر فراہم کیے گئے۔
ماہر معاشیات اور بین الاقوامی قانون کے ماہر ڈاکٹر اکرام الحق کا کہنا تھا کہ رواں مالی سال کے اختتام پر پاکستان کا مالی خسارہ اس کے جی ڈی پی کا نو فی صد ہونے کا اندازہ لگایا جا رہا ہے۔ اس قدر بڑے خسارے سے نہ صرف حکومت چلانا مشکل ہے -
اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کو جہاں اگلے مسلسل تین مالی سالوں میں 25۔25 ارب ڈالر واپس کرنے ہیں وہیں جاری کھاتوں (کرنٹ اکاونٹ) کا خسارہ اس سال بھی 99 کروڑ 90 لاکھ ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ جو گزشتہ سال کے پہلے آٹھ ماہ میں تو کم ہے اور اس میں 74 فی صد کی بڑی کمی دیکھی گئی ہے۔
لیکن معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس خسارے میں کمی کی بنیادی وجہ درآمدات پر غیر اعلانیہ پابندیاں ہیں۔
درآمدات میں اضافہ انتہائی کم ہے اور ملک کی برآمدات گزشتہ کئی سال سے سالانہ 30 ارب ڈالر پر کھڑی ہے۔
اسی طرح بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ملک میں بھیجنے والی رقوم میں بھی اضافے کے بجائے ایک فی صد کمی دیکھی جا رہی ہے۔ اسی طرح حکومت پاکستان کے مقامی قرضوں میں 10 فی صد کا بڑا اضافہ دیکھا گیا اور غیر ملکی قرضوں کی رفتار میں بھی ایک فی صد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
پاکستان کے مرکزی بینک نے شرح سود 22 فی صد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ گزشتہ نو ماہ سے ملک میں شرح سود 22 فی صد ہی ہے جب کہ تاجروں کا کہنا ہے کہ اس قدر بلند شرح سود کے ساتھ کاروبار بڑھانا تو دور کی بات، چلانا بھی مشکل ہے۔فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس کے قائم مقام صدر ثاقب فیاض مگوں کا کہنا ہے کہ ملکی معیشت بلند شرح سود کی وجہ سے تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔تاجر برادری کا کہنا ہے کہ گزشتہ مالی سال کے دوران بینکوں نے 572 ارب روپے کی کمائی کی- ان کے بقول، 22 فی صد شرح سود نے کاروباروں کی آپریشنل صلاحیت کو محدود کر دیا ہے، جس سے مقامی کاروباری برادری کے لیے قرضے لینے کی کاسٹ انتہائی مہنگی ہو گئی ہے۔لیکن شرح سود بلند رکھنے کے باوجود مہنگائی میں کوئی خاص کمی نہیں ہوئی جب کہ تاجروں کا کہنا ہے کہ شرح سود بڑھا کر مہنگائی قابو میں رکھنا ناکام حکمتِ عملی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ مسلسل پانچواں سال ہے جب ملک میں اوسط مہنگائی کی شرح لگ بھگ 18 فی صد سے بھی بُلند رہی ہے۔ اس دوران گزشتہ سال مئی کے مہینے میں یہ شرح 37.97 فی صد کی بلند ترین سطح پر بھی ریکارڈ کی گئی تھی۔
آئی ایم ایف موجودہ پروگرام کے جائزے کے لیے بات چیت مکمل کر چکا ہےپاکستان کو اسٹینڈ بائی ایگریمنٹ کے تحت رواں ماہ کے اختتام تک 1.1 ارب ڈالر کی حتمی قسط جاری ہونے کی توقع کی جا رہی ہے۔
مانیٹری پالیسی کمیٹی کے مطابق توانائی کی سرکاری قیمتوں میں ردّ و بدل براہِ راست اور بالواسطہ طور پر مہنگائی پر اثرانداز ہو رہا ہے
کئی معاشی تجزیہ کاروں کے خیال میں شرح سود برقرار رکھنے کا تعلق ملک کو درپیش بیرونی ادائیگیوں کے بحران سے بھی ہے۔ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو اس سے روپے کی قدر پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے تھے۔
ماھرین کا کہنا ھے کہ آئی ایم ایف کے تجویز کردہ اقدامات پر عمل پیرا ہونے سے پاکستانی معیشت کے اندر بنیادی انفراسٹرکچر مسائل کو کامیابی سے حل نہیں کیا جا سکا۔ جس کی وجہ سے میکرو اکنامک صورتِ حال بگڑتی چلی جا رہی ہے۔دوسری جانب مانیٹری پالیسی کمیٹی کے مطابق پاکستان میں گزشتہ سال کی نسبت رواں برس مہنگائی میں خاصی حد تک کمی دیکھی گئی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق جنوری میں مہنگائی کی شرح 28.3 فی صد سے کم ہو کر فروری کے دوران 23.1 فی صد رہی۔ کمیٹی کا کہنا ہے کہ مہنگائی کے منظرنامے میں بڑی حد تک بہتری خوراک کی بہتر رسد، عالمی اجناس کی قیمتوں میں اعتدال کے مشترکہ اثرات کی وجہ سے ہے۔
مقامی بروکریج ہاؤس میں ریسرچ ہیڈ طاہر عباس کا کہنا ہے کہ اگر قیمتوں میں کمی کا حالیہ سلسلہ جاری رہا، مہنگائی کی شرح اور موجودہ شرح سود نیچے آگئی تو مرکزی بینک 29 اپریل کو اگلی میٹنگ سے شرح سود میں کمی کا سلسلہ شروع کر دے گا۔
رواں مالی سال میں معاشی سرگرمی میں معتدل بحالی سے توقع کی جارہی ہے کہ اس سال کے اختتام پر ملک میں حقیقی جی ڈی پی یعنی قومی معاشی ترقی کی رفتار دو سے تین فی صد کے درمیان رہے گی۔
معاشی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت کو رواں مالی سال کُل بیرونی قرضوں 24.3 ارب ڈالر ادا کرنا تھے جس میں سے اب بھی 10.8 ارب ڈالر کی رقم مزید واپس کرنا ہے۔
سہیل عنائت اللہ، ایک پاکستانی آسٹریلیں جنہوں نے مستقبل کی بہتری کے لئے تقریبا ایک دھائی پہلے ایک تھیوری / methodology پیش کی تھی-
Causal Layered Analysis .
انہوں نے Future Studies پر بہت کام کیا ہے- اُن کے وضع کردہ تحقیق کے اس تناظر اور طریقہ کار کو بہت کامیابی سے پوری دنیا میں کامیابی سے اپنایا گیا ہے-
دنیا میں انتہائی برق رفتاری سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں، ان کو مدنظر رکھ کو مستقبل کے اھداف کا تعین کریں- مستقبل کا تعین اگر صحیح کر لیا جائے تو سب مسائل پر قابو پایا جا سکتا – اگر سٹریجی بھی ٹھیک ھے، وسائل بھی ہیں لیکن سپورٹنگ کلچر اور metaphor نہیں تو کامیابی ممکن ہی نہیں- کہانی ہی سب کچھ ھے- مستقبل کو بہتر کرنے کے لئے ایک narrative کو employ کرنا بہت ضروری ھے- اپنے آنے والے کل کو مختلف spacesمیں تلاش کریں-سارے نقطہ نظر کو بروئے کار لائیں- کسی ایک فرد یا گروپ کی سوچ کافی نہیں- کیونکہ تبدیلی کا عمل ہر جگہ اور ہر وقت ہو رہا ہے اس لئے ان تمام امور کو زیر بحث لا کر اقدامات اٹھانے ھونگے- ہمیں stakeholders بڑھانے ہو نگے-
تبدیلی لے کر آنے کے لئے صرف عزم ہی کافی نہیں – تبدیلی کے لئے سیکھنے کا ایک طریقہ وضع کرنا ( learning framework)بہت ضروری ھے اور سیکھنے کے لئے ایک بیانیہ چاہیے، مقصد چاہیے کہ ہم کرنا کیا چاہتے ہیں-
بھارت کی وزارت خزانہ کے مطابق معاشی سال ۲۰۲۴ میں بھارت کی جی ڈی پی 7.6% ریکارڈ کی گئی اور اس کی بڑی وجہ رئیل اسٹیٹ بزنس میں گھروں کی بڑھتی ڈیمانڈ سے تعمیراتی سیکٹر میں اضافہ ھے- بھارت کی سروس انڈسٹری ملکی جی ڈی پی کا 48.4% ھے-ایک محتاط اندازے کے مطابق سال ۲۰۲۲ میں تقریبا ساٹھ لاکھ سیاح بھارت آئے جس کی آمدنی ملکی جی ڈی پی کا 5.9% تھی-
امریکی کونسل آف اکنامک ایڈوائزرز کی ۲۱ مارچ ۲۰۲۴ کی رپورٹ کے مطابق امریکی معیشیت میں تمام توقعات اور اندازوں کے برعکس بہتری دیکھنے میں آئی ھے- صارفین کی گھریلو معاملات میں ایک مستحکم بیلنس شیٹ اور مضبوط ھوتی labour market نے شہریوں کی قوت خرید میں اضافہ کیا ھے- مہنگائی میں بھی 2%کمی دیکھنے میں آئی ھے-امریکہ میں اس وقت 38 لاکھ گھروں کی کمی ہے اور حکومت اس سیکٹر میں خصوصی مراعات کے بارے میں سوچ رھی ھے – رپورٹ میں عندیہ دیا ہے کہ گھروں کی کمی انفرادی اور ریاستی معیشیت کی راہ میں روکاوٹ بنتی ھے-
۰-۰-۰-