معیشیت یا دفاع میں سے ایک بھی کمزور ھو تو دوسرا خود بخود کمزور ہو جاتا ہے، خاص طور پر جب ایک ہمسائیہ بھارت اور دوسرا افغانستان ہو-
کلیہ بہت سادہ ہے، پیسہ محفوظ ہاتھوں میں کھیلتا ہے- پیسہ انفرادی ہو، گروہی یا ریاستی کبھی خطرے کی طرف نہیں جاتا-دھشت گردی کی جنگ نے پاکستان کی معیشیت کو بہت زیادہ متاثر کیا- جب معیشیت خراب ہو تو ہر طرف افراتفری پھیل جاتی ہے- ہر جگہ جہاں بیوپار ہوتا ہے ، بازار، ھوٹل، منڈیاں، ایئر پورٹ ، ریلوے اسٹیشن، اور جو ادارے سیکورٹی کی علامت ہیں ، تھانے، فوجی پوسٹیں، ایف سی ، رینجرز سب دھشت گردوں کے نشانے پر تھے- اتنے بڑے پیمانے پر کاروائی کے لئے منصوبہ بندی اور پیسہ چاھئیے ھوتا ہے ، جو کہ پاکستان کے دشمنوں نے دھشت گردوں کو دیا- ہمیں پتا ہی نہیں چلا کب پیسہ ہم سے روٹھ گیا- ہم شک اور ادھیڑ بن کے درمیان پھنسے رھے اور ایک تباہ کن جنگ کو بھی مسئلہ نہ سمجھا- اب بھی نہیں سمجھ رھے- نتیجہ وہی معیشیت کی تباھی- عوام کی خطرات سے اگاھی اتنی ہی ضروری ہے جتنی خطرات کے خلاف کاروائی- اتنے بڑے خطرے کو عوام کے سامنے تروڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا رھا-عوامی تائید کے بغیر کچھ بھی نہیں ہو سکتا- اس عمل کو Securitization کہا جاتا ہے-
ہمیں ( عوام) سوچنے کے لئے صرف سیاسی معرکے، لڑائیاں دے دی گئیں- ۲۰۰۹ میں سوات کا اپریشن اور ضرب عضب واحد اپریشن ہیں جس میں قوم اکٹھی نظر آئی-
کرکٹ، سینما، تھیٹر ہر چیز دھشت گردی کھا گئی- رھی سہی کسر بجلی نے نکال دی- آج ملک 63000 ارب قرضے تلے دبا ہے- طاقت کے کھیل کی رسہ کشی ہمارا اصل مسئلہ ہے- پہلے والوں کو اختلاف تھا کہ سول سپرامیسی نہی اور بعد میں آنے والے کو سیاسی مخالفین پسند نہیں تھے- میکاولی کی شاھکار تصنیف "پرنس” آج بھی سیاسی چالوں کے لئے سر راہ ھے- پرنس کا کام ہے کہ طاقت کے حصول کے لئے ہر کوشش کرے لیکن طاقت کا حصول ریاست کے فائدے کے لئے ہو ، نہ کہ شخصی فائدے کے لئے-ہمارے پرنسوں نے سیاست کو کشتی کا اکھاڑا سمجھا- دی اکانومسٹ میں چھپنے والے خط میں کچھ بھی حیرت انگیز نہیں سوائے اس کے کہ اکانومسٹ پاکستان میں پراپیگنڈا کو ھوا دے رھا ہے-
آج کے گلوبل سسٹم میں وہی ممالک معاشی اور دفاعی طور پر مضبوط ہیں جہاں سیاسی ادارے مضبوط ہیں – سینٹ کی ۱۲ ارکان پر مشتمل قرارداد ہمارے خالی پن کی طرف اشارہ ہے کہ ایک چھوٹی سے چال بھی مارکیٹ اکانومی کے لئے کتنی خطرناک ہے- سول سپرامیسی کی چھتری تلے جمہوریت اتنی ہی ضروری ھے جتنی زندگی کے لئے آکسیجن- سول سپرامیسی بھی میرٹ base سیاسی فیصلوں کی مرہون منت ھے-
کامیابی کے لئے قابلیت کی ترجیح ایک انتہائی آموزدہ "نسخہ کیمیا” ہے – قابل لیڈر، بہترین اور ھنر مند ھیومین ریسور س کی مدد سے ہی مسائل کی دلدل میں پھنسے ملک کو نکال سکتا ہے- دنیا کے تمام سیاسی ادارے، تمام کامیاب کمپنیاں ، اعلی تعلیمی ادارے ھارورڈ ، آکسفورڈ ، ایم آئی ٹی اسی کلئے پر عمل کرتے ہیں –
سیاسی اکابرین کو میرٹ کو اپنانا ہو گا- بہترین ھنر مندوں کا انتخاب کریں- میرٹ پر سمجھوتہ نہ کریں- یہی قانون قدرت بھی ہے "جو سب سے بہتر ہے وہ آگے نکلے گا”-
۰-۰
عتیق الرحمان