محاوروں سے ھیش ٹیک تک 

پچھلی ایک دھائی میں ٹویٹر پر بیٹھ کر الفاظ کے تیز ترین سفر  کی دلچسپ کہانی- عالمی سیاست کی  چیدہ چیدہ قیادت نئی زبان کو بذات خود گھروں اور یونیورسٹیوں تک پہنچا کر آئے ہیں- 

 ماں کی لاڈیاں، ابّے کا غصہ اور پُت کی شرارتیں ، یہ وہ کمبینیشن ہے جہاں سے شخصیت کی تشکیل کا عمل شروع ہوتا ہے-مادری امّاں کی بے شمار پپیوں  اور بے انتہاء لاڈیوں سے شروع ہوتی ہے- زبان کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے ساتھ عادات بھی تبدیل ہوتی ہیں – یہ گاڑی کے کلچ اور گیئر والا معاملہ ہے- سکول شروع ہوتے ہی ابّا جان کی گھوریاں اور استاد کا ڈنڈا مادری زبان کو جلا بخشتے ہیں اور بچوں کی توتلی زبان تبدیل ہونا شروع ہو جاتی ہے اور  فقروں میں  بیک وقت ترشی اور سلاست آ جاتی ہے- مختلف گھروں کی لاڈیاں، گھوریاں جب ایک کلاس میں اکٹھی ہوتی ہیں تو زبان میں الفاظ کا استعمال اور روانی وسیع ہوتی جاتی ہے- سکول کے باہر کی دنیا بالکل الگ ہے- کوئی بھی انسان اپنی زبان کا کھل کر استعمال صرف اپنے بہترین دوستوں کے ساتھ کرتا ہے- دنیا کی کوئی محفل دوستوں کی گفتگو کو اپنے اندر سما ہی نہیں سکتی- اس  بے تُکی اور اندھا دھند گفتگو کو دنیا کی کوئی لغت جگہ دینے کی جراءت نہیں کر سکتی- کوئی باہر کا بندہ دو، تین قریبی دوستوں کی گفتگو چھپ کے سُن لے تو کانوں کو ہاتھ لگاتا ہوا واپس بھاگ جائے- 

سوشل میڈیا ، خاص طور پر ٹویٹر نے گلی محلے  کی عامیانہ  گفتگو  کو گھروں، سکولوں  اور یونیورسٹی تک پہنچا دیا ہے- اور یہ کام سیاسی قیادت نے خود انجام دیا- پاکستان کا پچھلے دس سال کا ڈسکورس ٹویٹر کا مرہون منت ہے- بغیر کسی الزام تراشی کے اس میں سب نے اپنا حصہ بقدر جثہ ڈالا ہے-

کوئی بھی ریاست، سیاست اور انصاف پر ٹکی ہوتی ہے- محاورہ ہے کہ انصاف اندھا ہے  اور  سیاست کے سینے میں  دل نہیں ہوتا – تو اشرافیہ نے اس کا نتیجہ یہ اخذ کیا کہ ریاست کی اس تکنیکی معذوری کا   خمیازہ قوم بھگتے گی -بندہ ” ہا ہائے نہ کرے تو کیا کرے”- بھائی، جہاں جس چیز کی کمی ہے اسے پورا کرو ، نہ کہ معذوری کی وجہ سے ہونے والے نقصان کو  قوم  میں بانٹنا شروع کر  دو- 

اندھے پن کو دور کرنے کے لئے تحقیقی اداروں کو مضبوط کرو اور جن کے پاس دل نہیں ان کو دماغ سے کام لینا سکھاؤ- ابھی یہ تو کوئی بات نہ ہوئی کہ ایک اندھا ہے دوسرے کے پاس دل نہیں تو ان دونوں کو نئی فراری  لے دو کہ عوام کو کچل دیں-

 محاورے کسی بھی discourse کا  مرکزی خیال ہوتے  ہیں – ان کے بغیر کہانی اور سٹوری دونوں بے مزہ لگتی ہے اور فوری The End تک پہنچ جاتی ہے-

 جیسے adjective کا استعمال معانی کو شدّت پہناتا ہے، ایسے ہی میٹافور کے استعمال سے پورے واقع کا Context واضح  ہوتا ہے اور اگر لکھنے والا چاہے تو تبدیل بھی ہو جاتا ہے- 

محاورں کے اندر  بیک وقت پوری داستان کو سمیٹنے کی طاقت بھی ہوتی  ہے اور سوچ کو محدود کر دینے کی صلاحیت بھی-

محاوروں کا تحریروں میں  استعمال بالکل ایسے ہی عبارت کو چاند لگا دیتا ہے جیسے کریلوں میں قیمہ یا آلو شوربے میں گوشت- کہانی کا پورا ذائقہ تبدیل ہو جاتا ہے- 

 انٹر نیٹ کی وجہ سے بچوں کو شیر کی آنکھ سے دیکھنے والے دن بھی گئے اور مہنگائی کی وجہ سے سونے کا نوالہ کھلانے والے بھی – وقت تو مووا ایسے  پر لگا کے اُڑ گیا کہ بھینگن کا بھرتہ کھاتے  کھاتے کب کدّو کے حلوے کے شوقین ہوئے پتا ہی نہیں چلا- 

    "انسانی حقوق” کے  ٹھیلے کو جہاں دل کرتا ہے رکھ کر آپ آوازیں لگانا شروع کر دیں- اس میٹافور میں اربوں ڈالر چھپے ہیں- 

"میرے پاس تو زہر کھانے کو بھی پیسے نہیں” غالبا   آپ اپنی  بیوی کے سامنے تنگی داماں کا رونا رو رھے ہیں– اور جواب میں   ” پھوٹی میری  قسمت” کہ کر بیگم آپ کو  شادی والے دن کی طرف توجہ دلا رہی جب آپ نے اپنے منہ کو رومال سے کور کیا ہوا تھا -"بھوسا بھرا ہونا” بولتے ہی  سمجھ آ جاتی ہے کہ کسی اعلی حکومتی عہدیدار کا ذکر ہو رہا ہے-

بھوسا،  چاولوں کی پیکنگ ہے، چاول جب تک اس پیکنگ کے اندر ہوں ” منجی” کہلاتے ہیں- جیسے ہی پیکنگ کھلتی ہے، اصل آئٹم چاول کہلاتی ہے اور  بھوسا  بیوقوفی کے اعلی درجے کے استعارے کے لئے استعمال کرتے ہیں– "پڑھ لو نہیں تو فیل ھو جاؤ گے"، حالانکہ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ” پڑھ لو نمبر زیادہ آجائیں گے"، لیکن نہیں، بس بچے  کو ڈراناہے  

اگر آپ پنجابی زبان کے سیاق و سباق سمجھنے  چل پڑے تو ” چودہ طبق روشن ہو جائیں ” گے– جیسا کہ ” توں ماما لگنا اے” یہ کسی ایسے شخص کو تنبیہ کی جارھی ہے جو خوامخواہ دخل انداز ہونے کی کوشش کر رہاہو– ” اماں ایک پراٹھہ ھور"، اس فقرے میں "ھور”  سیاق و سباق کا مکمل احاطہ کرتا ہےیہcontinuity کا اشارہ ہے، جیسے ” اک واری فیر”- 

گئے وقتوں میں الیکشن کے بعد اونٹ کسی کروٹ بیٹھ جایا کرتا تھا لیکن اب گھوڑے کی طرح مسلسل کھڑا ہے- 

سیاست کی طرح سیاسی نعرے اب تقریبا ختم ہوتے جا رہے ہیں- سیاست  ورچئل ہو کر  ھیش ٹیگ میں سماگئی ہے – اس لئے نتائج بھی نظر نہیں آ رہے- آن لائن سیاست کی یہی حد ہے-

۰-۰-۰

ڈاکٹر عتیق الرحمان 

DiscourseHumor
Comments (0)
Add Comment