متفرق۔ سیاست، آشک اور حقوق کی جنگ

متفرق۔ سیاست، آشک اور حقوق کی جنگ

موجودہ سیاسی کشمکش میں پچھلے ادوار کے مقابلے میں ایک بات منفرد اور اچھی ھے کہ اب سب سیاسی شخصیات سیاسی قد کاٹھ میں برابر ہیں ۔ نہ کوئی کنگ میکر ھے نہ ھی کنگ۔البتہ خان کا چورن بک رھا ھے وہ تھوڑا آگے ھیں ۔ لیکن narrative کسی کا بھی اورجنل نھی اور نہ ھی اسے دوسروں پر فوقیت حاصل ھے۔ سب سیاسی بیان بازی ھے۔ پاکستان جغرافیائی لحاظ سے خطے میں اھم ترین جگہ واقع ھے۔ ھماری سیاسی ،سماجی ، معاشی اور ملٹری سیکوڑٹی کو اس وجہ سے مستقل خطرات کا سامنا ھے۔ یہ حقیقت پاکستان اور مسلح افواج کے لئے بہت بڑا امتحان بھی ہے اور قوم اور فوج کے درمیان مضبوط رشتے کی ایک اھم وجہ بھی ھے۔ انٹی امریکہ جزبات کو ابھار کے رایٹ کی ھمدردیاں حاصل کرنا پرانا نسخہ۔ الیکشن میں کام آتا ھے۔
‎پرانوں نے کرپشن کو ” ووٹ کو عزت دو میں ” کے نعرے چھپایا۔ ابھی جو گیا اس نے نا اھلی کو ” امپورٹڈ حکومت نا منظور” میں لپیٹا ھے۔
‎عوام ایسے ھی ادھوری معلومات پر اپنے رائے بنا کر آپس میں لڑتی ھے۔
‎دونوں حکومتوں نے اپنی ناکامی کو عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے سر تھوپا۔
‎کسی نے کیا خوب کہا ھے ” ھر منصوبے میں ایک fall guy ھوتا ھے”۔
ھمارے سیاستدانوں نے اپنے منصوبوں میں اپنے اداروں کو فال گائے بنا رکھا-
کالم کا موضوع متفرق ھے تو تھوڑا ذکر خواتین کا- صنف نازک کا لفظ خود نھی لکھا، کیونکہ خواتین اب جہاز بھی آڑاتی ہیں ، خاکی یونیفارم بھی پہنتی ہیں، ریسلنگ ، والی بال، کبڈی ھر کھیل میں آگے ہیں – ھمارے ایک دوست ہیں جن کا ماننا ھے کہ زرخیز ذھن صرف آرٹسٹ یا فنکاروں کا ھی نھی ھوتا، کچھ گھر داری کرنے والی خواتین کے ذھن بھی بہت ذرخیز ھوتے ہیں۔ وہ ٹماٹر کی بجائے سرکا ڈال کر بھی ھانڈی کو ٹماٹر جیسا ذائقہ دے سکتیں ہیں
گھر داری ایک سنجیدہ معاملہ ھے اس لئے اس پر نقطہ چینی نقصان دے بھی ھو سکتی ھے ۔
سنا ھے کہ خواتین میں مزاح کی حس کم ھوتی ھے۔ اس لئے وہ زیادہ تر سنجیدہ معاملات پر بات کرتی ملیں گی ، جیسے سیفائر پر آج سیل لگی ھے، نمرہ کی شادی کے لئے آپ نے کیا بنوایا ھے، وغیرہ وغیرہ ۔گھنٹوں اپنی سہیلیوں سے انتہائ سنجیدگی سے فون پر بات کرتے ھوئے ھاں میں ھاں میں ھاں اور نہ میں نہ ملاتی ھوتی نظر آئیں گی۔ موبائل فون کمپنیوں کے پیکیج ، خواتین کے کپڑوں کی برانڈڈ ورائی کے علاوہ اکیس صدی کی سب سے کامیاب ایجاد ھے۔ایک گز کپڑے اور اس کی سلائ پر خواتین بلاتعطل کے کئی گھنٹے بات کر سکتی ہیں۔ اج کیا پکایا ھے ان کا پسندیدہ موضوع ھے۔ گفتگو میں اس تسلسل اور ھمواری سے مو ضوع تبدیل کرتی ہیں کہ پاس بیٹھے ھوئے شخص کو اندازہ تک نھی ھوتا کہ موضوع تبدیل ھو چکا ھے اور گفتگو کس بات پر ھو رھی ھے۔ دو گھنٹے کی سیر حاصل بحث کے بعد خواتین یہ کہ کر فون بند کر نے کی اجازت مانگتی ہیں ” تیرے بھائی آ گئے ہیں میں بعد میں بات کرتی ھوں "۔

جیسے بڑے لوگوں کے ذاتی فزیشن ھوتے ہیں ، ھمارے خاں خواتین نے درزی رکھے ھوئے ہیں۔ مغرب میں کیونکہ سلے سلائے کپڑے مل جاتے ہیں اور درزی نھی ھوتے تو اکثر خواتین ٹامی کے ساتھ دل بہلا لیتی ہیں۔ ٹامی رکھنا ، خاوند رکھنے سے سستا پڑھتا ھے -اور دوسرا فائدہ یھ بھی ھے کچھ بھی کہتے جاؤ ، وہ پیار سے دیکھتا جائے گا۔

خواتین ھمیشہ ” آ شک” پر بھروسہ کرتی ہیں اور بار بار دھوکا کھاتی ہیں –

مستنصر حسین تاررڑ سفر کرنے کے بڑے شوقین تھے، ان کو تو خیر رنگ بھرنگی خواتین سے ملنے کا شوق ،آرام سے بیٹھنے نھی دیتا تھا – وہ خود کہتے ہیں کہ انھیں بچپن سے ھی شوق تھا کہ وہ دنیا کی سیر کو نکلیں لیکن وجہ نھی بتاتے تھے۔ اب تھک ھار کے لاھور میں ھی اپنی زوجہ کے ساتھ قیام پزیر ھیں اور کہتے ہیں لاھور شہر اور پاکستان سے بہتر کوئی جگہ نھیں۔
انسانی سوچ کی انتہاء یہ ھے کہ اگر کسی نے کتا رکھا ھے تو اسی آزاد خیال سمجھتے ہیں اور اگر بھینس رکھی ھے تو اسے پینڈو کہیں گے۔ بلی کی رکھوالی بھی آزاد خیالی تصور ھوتی ھے لیکن بلے کی قربت کو کیا سمجھنا ھے اس کا ابھی تک فیصلہ نھی ھو پایا-
پاکستان میں وی لاگ اور کالم نگاری ، فال نکانے کے مترادف ھے۔ صرف آپ نے یہ اندازہ لگانا اور لگاتے چلے جانا ھے کہ حکومت کتنے دن کی مہمان ھے اور نیا وزیر اعظم کون ھو گا۔ جیسے ہی نیا وزیر اعظم بن جائے آپ نے اپنی گردان نئے سرے سے شروع کر دینی ھے۔
کچھ سیاست دانوں، صحافیوں اور وکیلوں کو لگتا ھے کہ وہ پاکستان کے جوائی ہیں۔

ھمارے ہاں بہت پائے کے تجزیہ نگار بھی پائے جاتے ہیں۔ سونامی کی طرح ان کا پتا نھی چلتا کہ ھوا میں نمی کا تناسب کتنا ھے۔ کبھی گرجتے گرجتے برس پڑتے ہیں اور کبھی برستے برستے ، گرج پڑھتے ہیں۔ اب تو گھر والے اپنے بچوں کو جو یونیورسٹی تک نہ پہنچ پائے یہ تک کہتے سنے گئے ہیں بیٹا وی لاگ شروع کر لو ، فارغ بیٹھنے سے تو بہتر ھے۔

سیاست اور صحافت باقاعدہ بٹی ھوئی ھے۔ اندازہ لگانا مشکل ھے کہ زیادہ بدقسمت کون ھے ، سیاست یا صحافت۔
پاکستان میں لفظ ” اسٹیبلشمنٹ "پر اگر پابندی لگ جائے تو بہت سارے صحافیوں کی صحافت ختم ھوجائے گی۔ جیسے ٹرمپ کے جانے کے بعد امریکی صحافت پھیکی پڑھ گئی ھے اسی طرح پاکستانی صحافت اور تجزیہ نگاری فوج کے ذکر کے بغیر ادھوری لگتی ھے۔ کچھ لوگوں کی تو واقعی علمی استطاعت فوج پر تنقید سے آگے نھی بڑھ پائی۔
میں انسانی حقوق اور خاص طور پر خواتین کے حقوق کا بہت بڑا حامی ھوں۔ میری ایک تجویز ھے کہ عورتوں کو اپنے حق کی جنگ ماں باپ کے گھر سے شروع کرنی چاھیے اور بچپن سے ھی بھائیوں کے مقابلے میں ترجیحی سلوک، موروثی جائیداد سے بے دخلی، پسند نا پسند کی شادی ، پردہ کرنے اور نہ کرنے کا خود کا فیصلہ اور والدین کے صبح و شام نصیحت اموز لیکچرز وغیرہ وغیرہ پر کھل کر مقابلہ کرنا چاھیے۔ #Feminism ایک بروقت اور بھر پور تحریک ھے۔ لیکن خواتین کو اپنے سسرال ، میکے اور دفاتر سے حقوق حاصل کرنے کے لئے یکساں دباؤ ڈالنا چاھئے۔ صرف خاوند سے حقوق کی جنگ نہ طرف بہت بڑا ظلم ھے بلکہ گرے ھوئے کو مارنے کے مترادف ھے۔

بے دخلی، پسند نا پسند کی شادی ، پردہ کرنے اور نہ کرنے کا خود کا فیصلہ اور والدین کے صبح و شام نصیحت اموز لیکچرز وغیرہ وغیرہ پر کھل کر مقابلہ کرنا چاھیے۔ #Feminism ایک بروقت اور بھر پور تحریک ھے۔ لیکن خواتین کو اپنے سسرال ، میکے اور دفاتر سے حقوق حاصل کرنے کے لئے یکساں دباؤ ڈالنا چاھئے۔ صرف خاوند سے حقوق کی جنگ نہ طرف بہت بڑا ظلم ھے بلکہ گرے ھوئے کو مارنے کے مترادف ھے۔

Comments (0)
Add Comment