تحریر :عتیق الرحمان
"میں نکل جاؤں باقی بیشک رہ جائیں”- یہ سوچ قوموں کی تباہی کا نقطہ آغاز ہے- مشہور سیاسی فلاسفر مورگنتھاؤ کا کہنا ہے کہ انسان بنیادی طور پر خود غرض ہے اس لئے ہر صورت طاقت پر اپنا تسلط قائم رکھنا چاہتا ہے- اور یہیں سے گوورننس غلط رخ اختیارکر جاتی ہے-
بنیادی طور پر یہ سوچ لالچ اور عدم تحفظ کی پیداوار ہے- اور یہ سوچ اب ھمارے ہاں پختہ قومی رجحان / عادت میں تبدیل ھو چکی ہے اور یہی ہمارا قومی المیہ ہے- عام آدمی سے لیکر طاقت کے اعلی ایوانوں تک ذاتی مفاد کی جنگ جاری ہے- کوئی اجتماعی مفاد کے لئے ذاتی مفاد کو قربان کرنے کو تیار نہیں
سڑک پر سفر کرتے ھوئے ہم کسی بھی طرف سے اپنی لائن توڑ کر آگے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں، ٹریفک سگنل اور ون وے توڑنا معمول بن چکا ہے، قطار میں لگ کر اپنی باری کا انتظار ہم نہیں کرتے، میرٹ کو پس پشت ڈال کر بچوں کو سکولوں کالجوں میں داخلے اور بعد ازاں نوکریوں کے لئے ھر حربہ آزماتے ہیں، شادی بیاہ کے کھانوں پر ندیدوں کی طرح ٹوٹ پڑتے ہیں، الیکشن جیتے کے لئے ہر حربہ آزماتے ہیں، کاروبار میں نفع اولین مطمع نظر ھوتا ہے، دوسروں کا نقصان ھمارے لئے کوئی معنی نہیں رکھتا-
دوسروں کے خلاف پراپیگنڈا کرتے ہوئے ہم نے کبھی نہیں سوچا کہ کل ہم خود بھی اس کی زد میں آجائیں گے-ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ خود غرضی میں وقتی فائدہ ہے- اگر آپ کی خود غرضی اج کام کر گئی ہے تو کل کسی اور کی خود غرضی آپ کو شکست دے دے گی ، کیونکہ یہی قانون قدرت ہے-
جب تک انفرادی فائدے کو پس پشت ڈال کر اجتماعی مفاد کا نہیں سوچیں گے ، قربانی کی عادت نہیں ڈالیں گے ہم سب کا نقصان ھوتا رھے گا-
فرد نہیں قوم بن کر جیو