اگر آپ کو پڑھنے لکھنے کی عادت نہیں تو پریشانی کی کوئی بات نہیں- موجودہ دور میں یہ بھی ایک صلاحیت ہے- آپ وی لاگ شروع کر لیں-
اگر آپ کو پڑھنےلکھنے سے دلچسپی ہے تو
کوئی بھی تحریر پڑھتے ہوئے جہاں تحریر آپ کے دل سے دور ہٹنا شروع ہو جائے اس حصے کوhighlight کرنا شروع کریں– یہی وہ سطور ہیں جنہیں آپ کو بار بار پڑھنا ہے اور کھوج لگانا ہے کہ یہآپ کو کیوں پسند نہیں؟ جہاں سے آپ کو تحریر ناپسند لگی وہی آپ کے علم کی آخری حد ہے– یعنی آپ کاعلم stagnant ہے– آپ کی قوّت برداشت آپ کی پسند کی آخری حد ہوتی ہے– زندگی کا اصل حسن دیکھنےکے لئے ان حدوں کو پار کرنا ضروری ہے– صف بندی سے علم نہیں جنگیں لڑی جاتی ہیں- دوسروں کے نظریات کو جاننا اور سمجھنا اور پھر اپنی رائے بنانا علم کا بہترین درجہ ہے-
اگر آپ کو کسی دوسرے کی علمی استطاعت کا پتا لگانا ہے تو اس کی پانچ دس مختلف تحریں ، مضامیں یاگفتگو والی ریکارڈنگ یا آپ کے ساتھ بالمشافہ بات چیت میں سے diversity# ڈھونڈیں – جتنیdiversity بڑھتی جائے گی اتنی ہی اس کے علم کی کشادگی ہے– اگر diversity کم ہے یا نہیں ہے توعلم گدلے تالاب کے مانند ہے–
یہی دونوں کلیے آپ ریاستوں ، حکومتوں ، سیاسی نظریات اور قیادت کی پالیسیوں کو پرکھنے کے لئے لگاسکتے ہیں – ریاستی ڈسکورس ، اس ریاست کی episteme ہے-
یعنی علمی استطاعت ہے-
ہمارے علم کی کشادگی اور پالیسیز کی diversity ہمارے مسائل کا حل ہے– اگر ایک ہی pattern چلتاآ رھا ہے تو وہ بندہ، وہ ریاست وہ گروہ ابھی بیسویں صدی میں اٹکے ہوئےھے-#KnowledgeIsPower