عالمی سیاست کی پیچیدگیوں  اور ملٹی نیشنلکپمنیوں  کی چالاکیوں کو سمجھنے کے لئے مغربی  لٹریچر  ناکافی ہے

انٹر نیشنل ریلیشنز میں ریاست بنیادی یونٹ ہے جس کے ارد گرد گلوبل آرڈر بُنا گیا- اب دنیا میں 31 کھرب ڈالر صرف ملٹی نیشنل کمپنیوں کے پاس ہیں- ریاستوں کے اندر ،اندھا دھند امیروں کے یہ ٹولے،  گلوبل آرڈر کو آگے لگائے ہوئے ہیں-  

ان multinational کی چالاکیوں نے ریاستوں کی رٹ کو بھی کمزور کیا ہے اور دنیا کے نظام کا سارا توازن خراب کر دیا ہے- 

دراصل یہ شخصی معاشی جنگ ہے جس کو مختلف نام دیئے گئے ہیں – 

انٹرنیشنل ریلیشنز کی تھیوری میں realism مرکزی حیثیت   رکھتا ہے- اس نظرے کی بنیاد اس نقطے پر رکھی گئی  کہ حکمرانوں کی طاقت کو بڑھاتے رہنے کی خواہش  جنگ و جدل کی وجہ ہے- پھر  کہا گیا کہ کیونکہ دنیا میں کوئی مرکزی حکومت نہیں اس لئے ریاستوں کو اپنی حفاظت خود کرنی ہے تو بیلنس آف پاور  کی جدوجہد شروع ہو گئی- پھر اسلحہ و بارود خوب بکا-

پھر realism نے ہلکی کروٹ بدلی اور بیری بوزان نے سیکورٹی کے نظرے کو وسیع کر دیا – پھر  structuralism کی ایجاد ہوئی – یعنی حصہ بقدر جثہ- امریکہ جب اکیلی سپر پاور رہ گیا تو  کولڈ وار کی جگہ asymmetric جنگیں  شروع ہو گئیں- تیل کی اجارہ داری کے لئے نئے راستوں کی تلاش میں جنگیں ہو رہی ہیں- 

چاہ بہار، ریڈ سی، سری لنکا، چاروں  سٹریٹس، پیسیفک سے انڈین اوشن ،بیلٹ اینڈ روڈ- اور اب  سائبر سپیس اور انفارمیشن کی دنیا کے گرو ایمازون، گوگل ، میٹا، مائیکروسافٹ کی اجارہ داری ہے- ساتھ ہی ساتھ قومیت بھی میدان میں کود پڑی ہے- خطرات کی تبدیل ہوتی نوعیت اور ریاستوں اور بڑی بڑی کمپنیوں کی اسی کے مطابق صف بندی ہی گلوبل آرڈر کو مضطرب کئے ہوئے ہے- نئی ابھرنے والی طاقتیں امریکہ سے اپنا حصہ مانگ رہی ہیں – جب طاقت کے ماخذ بڑھ جائیں تو جاگیریں بٹنی شروع ہو جاتی ہیں-

” ڈونلڈ ٹرمپ، نریندر مودی، پیوٹن ، اردگان ، مسعود پزیشکیاں ” کا انتخاب ان ریاستوں کی بدلتی ترجیحات کی نشاندھی  کرتا ہے-

غزہ میں چالیس ھزار فلسطینیوں کا قتل بغیر کسی وجہ کے نہیں ہے؟  فرانس میں ملک کا صدر جس کے پاس ایگزیکٹو پاور ہے وہ سنٹر  والی پارٹی سے ہے اور اتحادی حکومت بننے جا رہی ھے- ایران میں ریفارمسٹ کی جیت ہو چکی ہے لیکن آدھا ملک دوسری پارٹی کا حامی ہے- برطانیہ کو یکدم خیال آیا ہے کہ کنزرویٹ پارٹی کی جگہ لیبر والے بہتر ہیں- بھارت میں آٹھ سال سے جاری انتہاء پسندوں کی حکومت یکدم اتحادی حکومت بن گئی ہے- 

پیسیفک سے انڈن اوشن کی طرف جاتے بحری راستوں پر جنگ و جدل- یہ نئی صف بندیاں  انٹر نیشنل ریلیشنز کے معاملات کو مبہم بناتی جا رہی ہیں- 

کیا یہ سوال نہیں بنتا کہ کہ عالمی پردہ سکرین پر جاری تمام  کشمکش  ایک مقصد کے تحت ہو رہی ہے- بڑی بڑی لڑائوں  اور کونے  کھدروں میں جاری   جگھڑوں  کو شامل کر یں تو  لگ بھگ 112 محاذ  وں پر جنگ و جدل جاری ہے- 

کہیں نظریات کی اجارہ داری کی جنگ چل رہی ہے تو کہیں انرجی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے راستے تلاش کئے جا رھے ہیں- 

آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، بڑی بڑی معاشی کمپنیاں یہ ہندسوں میں الجھا کر شکنجہ تنگ کرنے میں لگے ہیں –

اس سوالات کی تحیقیق کے لئے انٹرنیشنل ریلیشنز ، سٹریٹیجک سٹیڈیز کو ریسرچ کے نئے انداز کو متعارف کروانا پڑے گا-  مغربی  لٹریچر  ان پیچیدگیوں کو سمجنے کے لئے کافی نہیں- 

۰-۰-۰-۰-

ڈاکٹر عتیق الرحمان 

ChinaGlobal orderRussiaUS
Comments (0)
Add Comment