تحریر:عتیق الرحمان
دہشت گردی کے خلاف جنگ، لائن آف کنٹرول پر بھارتی بلااشتعال فائرنگ کا جواب اور زہریلے پراپیگنڈے کا مقابلہ ،یہ وہ تین محاذ ہیں جن پر پاکستان اور اس کے سکیورٹی اداے بیک وقت برسرپیکار ہیں۔ ملک بھر میں اٹھنے والی دہشت گردی کے حالیہ لہر انتہائی تشویش ناک ہے تاہم سیکورٹی فورسز نے کراچی پولیس ہیڈکوارٹرزپر ہونے والے حملے کو جس مستعدی اور جرات سے ناکام بنایا ہے، وہ اس حوالے سے حوصلہ افزا ہے کہ گزشتہ سالوں میں انسداد دہشت گردی آپریشنز میں ان کا تجربہ اور مہارت اس عفریت سے نمٹنے کے لیے نہ صرف ثمر آور ثابت ہوئی ہے بلکہ آئندہ بھی اس طرح کے آپریشنز میں فیصلہ کن کردار کی حامل ہوگی۔
دنیا کی کوئی فوج، اس لحاظ سے پاکستان آرمی کا مقابلہ نہیں کرسکتی کہ اس نے غیرروایتی جنگ، دہشت گردی کے خلاف آپریشنز اور مادر وطن کی حفاظت کے لیے کم از کم دفاعی قوت کو برقرار رکھنے میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ اس کی یہ ساری کامیابیاں اعلیٰ تربیت، دوراندیش قیادت، منصوبہ بندی، آپریشنل تیاری، جذبے اور بہادر افسروں اور جوانوں کی بے شمار قربانیوں کی مرہون منت ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں، یہ سب کیسے ممکن ہوا؟
نائن الیون کے بعد افغانستان پر امریکی حملہ ہوا تو پاک فوج نے فوری حکمت عملی اپناتے ہوئے اس طویل جنگ میں پاکستان کو لاحق خطرات سےنمٹنے کے لیےجو کامیابیاں حاصل کیں، وہ اس کی اعلی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
خطے میں ہندوستان کی منفی پالیسیاں، توسیع پسندانہ عزائم اور طاقت کے ذریعے پاکستان کو مرعوب کرنے کی خواہش شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ بھارت کے ان مکروہ عزائم کا اظہار سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (SIPRI) کی رپورٹ سے ہوتا ہے، جس کے مطابق، بھارت 76.6 بلین امریکی ڈالر کے فوجی اخراجات کے ساتھ دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے۔ یہ اخراجات پاکستان کے قومی بجٹ (47 بلین ڈالر) سے دوگنا ہیں۔ بھارت اپنے حجم اور طاقت کی بدولت عالمی کردار کا متمنی ہے اور تمام علاقائی مسائل کے حل میں زورزبردستی چاہتا ہے۔ دوسری طرف پاکستان، بھارت کے ان تمام توسیع پسندانہ عزائم کا مقابلہ کرتے ہوئے علاقائی اور عالمی طاقتوں کے ساتھ اپنے آزاد اور دوطرفہ تعلقات میں سبقت لے جاتا ہے۔ بھارت کی افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت اور خطے میں بدامنی پھیلانے کے لیے علاقائی طاقتوں سے گٹھ جوڑ ایسے عوامل ہیں جو پاکستان کے لیے باعث ِتشویش ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی سلامتی اور تحفظ کے لیے مزید اقدامات اٹھانے کا تقاضا کرتے ہیں۔
گزشتہ دو دہائیوں سے پاکستان کو ‘دہشت گردی’ کے خطرے کی ایک نئی جہت کا سامنا ہے۔ اس خطرے کے ڈانڈے بیرون ملک سے بھی ملتے ہیں۔ سیکورٹی کے ان بڑھتے خطرات کے پیش نظر ایک مختلف اور جامع نقطہ نظر اپنانے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ برسوں کے دوران پاکستان کے دفاعی اخراجات میں نمایاں کمی دیکھی گئی ہے اور اب یہ جی ڈی پی کے 2.2 فیصد کی کم ترین سطح پر ہے۔ پاکستان دنیا کی ساتویں بڑی فوجی طاقت ہے تاہم کم دفاعی اخراجات کرنے والے ممالک میں یہ 29 ویں نمبر پر ہے۔ پاکستان کے سولجرز پر صرف ہونے والے اخراجات دنیا کی دیگر بہترین افواج کے مقابلے میں سب سے کم ہیں۔ امریکہ ہر فوجی پر 392,000 ڈالر، سعودی عرب 371,000، بھارت 42,000 ڈالر، ایران 23,000 اور پاکستان 12,500 ڈالر خرچ کرتا ہے۔ اس طرح کم از کم ضروری اخراجات کے ساتھ، پاک فوج بے شمار چیلنجز کے موجودگی میں بھی بہترین آپریشنل تیاری اور مستعدی کی ضمانت دیتی ہے۔
امریکہ نے 2001 میں افغانستان پر حملہ کیا اور ابتدائی کامیابی کے فوری بعد خود کو عراق میں مصروف کر لیا۔ بیک وقت دو محاذوں پر لڑنا، جو ایک دوسرے سے دور بھی ہوں، ایک اسٹریٹجک غلطی تھی۔ افغانستان میں ابتدائی کامیابی کے بعد جو وقت ضائع ہوا، اس کا ازالہ نہ ہوسکا۔ کریگ وِد لاک نے اپنی کتاب ‘دی افغانستان پیپرز، سیکرٹ ہسٹری آف دی وار’ میں اتحادی افواج اور امریکی کمانڈروں کے انٹرویوز درج کیے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ افغانستان میں جنگ، امریکی سیاسی اور فوجی کمانڈروں کی غلط فہمیوں اور غلط اندازوں کے سوا کچھ نہ تھی۔
جان ہاپکنز یونیورسٹی کے پروفیسر ولی نصر اپنی کتاب ‘دی ڈسپنس ایبل نیشن: امریکن فارن پالیسی ان ریٹریٹ’ میں اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ ان کی اس تحریر کی بنیاد پاکستان آرمی کی سینئر قیادت کی جانب سے امریکہ کو افغانستان سے انخلا کے لیے طالبان سے بات چیت کرنے کے مشورے پر مبنی ہے۔ اس کتاب میں بتایا گیا ہے کہ 2010 میں واشنگٹن کے دورے کے دوران پاک فوج کے احکام نے اپنے ہم منصبوں کو مشورہ دیا تھا کہ 2014ء تک افغان فورسز کی تعداد 400,000 تک بڑھانے کے بجائے انخلا کے لیے طالبان سے بات چیت "بہتر” ہے۔ پاکستان نے پاک افغان سرحد کے اس جانب دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ کی حکمت عملی ترتیب دے لی تھی۔ اگرچہ پاک فوج کی تربیت عموما روایتی جنگ پر مبنی تھی لیکن اس نے کم شدت تنازعات سے موثر طور پر نمٹنے اور اس حوالے سے نیاسیکھنے میں کبھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔ اس طرح دنیا کی واحد فوج تھی، جو بیک وقت دو محاذوں، ایک طرف بھارت کے ساتھ مشرقی سرحد اوردوسری جانب دہشت گردوں کے خلاف مغربی سرحد پر برسرپیکار تھی۔ پاک فوج نے دہشت گردی کے خلاف بھرپور جنگ لڑتے ہوئے دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ قربانیاں دیں۔
کم شدت تنازعات سے نمٹنے کے لیے نئے تربیتی ماڈلز کو متعارف کروانے کے ساتھ ساتھ فاٹا کا انضمام، پاک افغان سرحد کے قریبی علاقوں کی تعمیر و ترقی، انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے قومی ایکشن پلان، 2400 کلومیٹر طویل پاک افغان سرحد پر باڑ کی تنصیب، دہشت گردوں کی سرکوبی، ان کے ٹھکانوں اور مختلف علاقوں میں موجود سلیپر سیلز کا خاتمہ، وہ اہم اقدامات تھے جو دہشت گردی کی لعنت پر قابوپانےکے لیے پاک فوج نے اٹھائے۔ ایک موثر حکمت عملی کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا تسلسل اس کی اہم کامیابی ہے۔ اس کی ابتدا 2009 میں سوات آپریشن سے ہوئی جہاں دہشت گردوں کا قلع قمع کردیا گیا۔ اس کے بعد اس آپریشن کو بتدریج باجوڑ، خیبر، مہمند، جنوبی وزیرستان اور شمالی وزیرستان تک بڑھایا گیا۔ اس سلسلے میں آپریشن ضرب عضب نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ جس کے بعد آپریشن ردالفساد کا آغاز ہوا جس میں انٹیلی جنس کی بنیاد پر دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں کی گئیں۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ جب پاکستان امریکہ کے ساتھ فرنٹ لائن پارٹنر کے طور پر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف عمل تھا، بھارت پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے ایک جانب افغانستان میں دہشت گرد نیٹ ورکوں کی مدد کررہا تھا جبکہ دوسری جانب دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اس کی توجہ ہٹانے کے لیے لائن آف کنٹرول پر چھیڑ خانی کررہا تھا۔ اس دوران بین الاقوامی میڈیا میں پاکستان کے خلاف اس کی زہرافشانی بھی جاری رہی۔
دسمبر 2020 میں EUDisInfoLab کی طرف سے انڈین کرانیکلز کا انکشاف، دراصل پاکستان کے خلاف بھارتی پروپیگنڈہ، جو 2005 میں شروع ہوا اور ابھی تک جاری ہے، بھارتی مذموم عزائم کا عکاس ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان دہشت گردوں اور ان کے حمایتیوں سے لڑنے کے لیے پرعزم تھا اور آج بھی اس عفریت سے نمٹنے کے لیے اپنی توجہ مرکوز رکھے ہوئے ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جاندار موقف اور مخلص عزم کی بدولت آج پاکستان اقوام عالم میں سرخرو ہے۔ FATF کی گرے لسٹ سے پاکستان کا اخراج دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اس کے عزم کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ بہرحال ، اس وقت ہمیں معاشی خوشحالی کا خواب پورا کرنے اور قومی سلامتی کو لاحق روایتی اور غیر روایتی خطرات سے نمٹنے کے لیے قومی لائحہ عمل اپنانے کی اشد ضرورت ہے۔ سیاسی جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے سے ہی ایک محفوظ اور خوشحال پاکستان کی منزل حاصل کی جاسکتی ہے۔