تحریر: حسن شاہد
ریاست کے وجود میں آتے ہی طاقت کے حصول کے لئے جدوجہد شروع ھو گئ تھی کہ حکمرانی کون کرے گا، کس کے پاس کتنی طاقت ھو گی اور وہ کیسے استعمال کرے گا۔ اصول تو وضع ھو گئے اور حکمرانی کے طریقے بھی وجود میں آگئے لیکن طاقت کے استعمال میں توازن پیدا نہ ھو سکا۔ طاقت کا حصول انسان کی جبلت میں ازل سے شامل ھے۔ انسان اپنی حفاظت اور پیٹ پوجا کے بعد سب سے پہلا کام اپنی طاقت بڑھانے کے لئےسعی کرتا ھے۔ اور یھیں سے پھر فسادات کاآغاز ھوتا ھے۔ طاقت ھی وہی بنیادی نقطہ ھے جس کے لئے انسان اور ریاستیں جنگ و جدل کرتی ہیں۔
سیاست عرف عام میں حکومتی سازی کے لئے کئے گئے تمام اقدامات کو کہتے ہیں جس میں تمام معاشرہ مل اپنا کردار ادا کرتا ھے۔ ریاست کےقیام کے بعد جمھوریت کا تصور اب تک کا بہترین طرز حکومت ھے۔ انسانوں کی بھلائی کے لئے جمہوریت کی شکل میں انسانی معاشرے کی تشکیل اپنی انتہا کو پہنچ چکی ۔ پاکستان بحثیت ریاست تو وجود میں آگیا لیکن سیاست کے پیچ وخم ابھی ترقی کی منازل طے کر رھے ہیں۔سویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد سیاسی مفکرین جن میں فوکویاما پیش پیش تھا کا یہ دعوی تھا کہ جمہوریت سے بہتر نظام حکومت ھو ھی نھی سکتا۔ سویت یونین کی تقسیم کو کیمونیزم کی شکست قرار دیا گیا- البتہ ۲۰۰۸ کے امریکہ میں معاشی بحران نے کیپیٹلزم کی بہتری پر بہت سے سوال کھڑے کر دئیے۔ اور ساتھ ھی ساتھ چیں کی معاشی میدان میں حیرت انگیز ترقی نے دنیا کو وطیرہ حیرت میں ڈال رکھا ھےکہ کون سا نظام ،انسانی معاشرے کی فلاح کے لئے بہتر ھے۔ حال ھی میں چین نے اپنے ملک سے غربت کے مکمل خاتمے کا اعلان کیا ھے، جبکہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت سمیت دنیا بھر میں وسائل کی کمی اور بے روزگاری کے باعث غربت دن بدن بڑھ رھی ھے۔
ریاستی امور چلانے کے لئے اختیارات کا دائرہ کار اور ان کا استعمال ھمارے ہاں ایک مسئلہ رھا ھے۔ اور اختیارات کی یھی تقسیم بہت سارے مسائل کی وجہ ھے۔ اختیار یا طاقت سیسے کی مانند ھوتی ھے -جب تک آپ محسوس کرتے ہیں کہ یہ ھے تب تک یہ کہیں اور جا چکی ھوتی ھے- یہ ایک جگہ پر ٹھہرتی نھی ھے بالکل جیسے سیسے کو ھاتھ پر سجانے کے لئے تلی کو گہرا کرنا پڑتا ھے اسی طرح طاقت کو سنھبال کر رکھنے کے لئے چھپا چھپائی کا کھیل کھیلنا پڑتا ھے۔ ریاستی امور چلانا بہت کٹھن کام ھے-اختیارات کا استعمال ایک ھنر ھے ۔ معاشروں کی بہتر تشکیل کے لئے چند افراد کے ھاتھ میں طاقت کا استعمال ضروری ھےلیکن انسانی جبلت میں ھے کہ طاقت کا استعمال کبھی محدود نھی رھتا اور یہ اھستہ اھستہ حکمرانوں کو بربادی اور فنا کی طرف کھینچ کے لے جاتاھے ، جس کا براہ راست نقصان ببحثیت مجموعی ریاست اور معاشرے کو ھوتا ھے۔
طاقت کا یھی فلسفہ انسانوں میں ھی نھیں بلکہ عالمی سطح پر ریاستوں کے درمیان کشمکش کی شکل بھی میں نظر آتا ھے، جو کہ دنیا بھر میں کشدگی کا باعث ھے۔ طاقتور ملک عالمی امور میں اپنی من ماری کرتے ہیں ۔ معیشت پر بھی انھی کا قبضہ ھے ۔ معاشی طور پر غریب ممالک ، طاقت ور ملکوں کے آگے سرنگوں رھتے ہیں – میکاولی جو کہ سیاست کے میدان کا مانا ھوا مفکر گردانا جاتا ھے ، کہا تھا کہاپنی ریاست کی طاقت بڑھانے کے لئے حکمران کو تمام جائز اور ناجائز حربے استعمال کرنے چاہیں ۔ عالمی سیاست میں اپنے ملک کا حصہ وصول کرنے کے لئے یھی حربہ استعمال کرنا پڑتا ھے۔دو عالمی جنگیں ،ایٹم بم کااستعمال ، افغانستان اور ایراق کے علاوہ شام، لیبیا اور یمن میں بیس سال تک جاری رھنے والی بے نتیجہ دھشتگردی کی جنگ بھی طاقت کے ناجائز استعمال کا ایک زندہ ثبوت ھے۔ عالمی جنگ دوئم کے بعد دنیا کو سمجھ آیا ھے کہ جنگ مسائل کا حل نھیں اس لئےامن اور ریاستوں کے تعاون کے بارے میں بھی سوچ بچار کرنی چاہیے ۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد کوئی بڑی جنگ تو نھیں ھوئی لیکن امریکہ اور روس نے چھوٹی چھوٹی ریاستوں پر اپنے مفاد ات کے حصول کےلئے اپنے ھاتھ سیدھے ضرور کئے ہیں۔افغانستان میں دو دھائیوں تک بغیر مقصد کے لڑی جانے والی جنگ نے عالمی نظام پر بے انتہا سوالات اٹھا دئے ہیں۔ کیا عالمی نظام چند بڑے ممالک کے چند امیر ترین لوگوں کے رحم وکرم پر ھی رھے گا یا استعماری قوتوں کے خلاف بھی کوئی ادارہ یا قانون عمل میں آئے گا۔ یو این ، بری طرح عالمی قوتوں خاص طور پر امریکہ کے سامنے بے بس ھے۔
اب جبکہ معاشی طاقت مغرب سے مشرق کی طرف تیزی سے منتقل ھو رھی ھے تو مغرب میں ایک تلاطم برپا ھے۔ امریکہ جب دھشت گردی کے خلاف افغانستان، ایراق، شام اور لیبیا میں بم گرا رھا تھا تو چین اپنی صنعت اور تجارت کو بڑھانے کے لئے کوشاں تھا۔
کرونا نے عالمی معیشت اور معاشرتی تبدیلیوں کی شکل میں جو دھچکا پہنچایا ھے اس سے نکلنے کے لئے دنیا کو طویل وقت لگے گا۔ چین اور کسی حد تک پاکستان وہ دو ملک ہیں جو کرونا کے اثرات سے کافی حد تک بچے ھوئے ہیں۔
یورپ سمیت ، مڈل ایسٹ اور جنوب ایشیا اور جنوب مغربی ایشیا میں تیزی سے تبدیلیاں ھو رھی ھیں۔ امریکہ کے افغانستان سے انخلاء کے بعد خطے میں حالات بے یقینی کا شکار نظر آتے ہیں۔ افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت کے خاتمے اور امریکی انخلاہ سے بھارت کو براہ راست دھچکا لگا ھے۔ بھارت نے افغانستان میں پاکستان کے خلاف ایک بہت بڑا نیٹ ورک بنا رکھا تھا۔ پاکستان میں دھشت گردی کی کاروائیوں سمیت ایک منظم پراپیگنڈہ مہم پاکستان کے خلاف چلائی جا رھی تھی۔ بھارت ایک عرصے سے پورے خطے میں عدم توازن کے لئے کوشاں ھے۔ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کا ممبر بننے کے لئے بھارت کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار ھے۔ جنوبی ایشیا میں بھارت امریکہ کے فرنٹ میں کا کردار کرتا رھا ھے اور پس پردہ دھشت گردی کو پروان چڑھانے میں بھی اھم کردار ادا کر رھا ھے۔ کافی حد تک بھارتی چالیں پچھلے دو سال میں آشکار ھوئی ہیں۔ پاکستان کے خلاف پروپیگندہ کے لئے بھارت نے یورپ اور امریکہ میں ایک وسیع جال بنا رکھا ھے۔
پاکستان کے خلاف امریکہ میں لوبینگ کے لئے بھارت سب سے آگے ھے۔ پاکستان کے خلاف پراپیگنڈہ کے لئے بھارت اور امریکہ باھم ایک ھی نقطے پرہیں۔ افغانستان سے امریکی افواج کا انخلاء دھشت گردی کے خلاف جاری جنگ کا خاتمہ بھی ھے اور خطے میں عدم استحکام کا طبل جنگ بھی ۔ افغانستان وسائل کی عدم دستیابی کے بعد شدید بحرانی کیفیت میں مبتلاء ھے۔ ان حالات میں ایس سی او ممالک کے اجلاس میں عالمی سربراھان کی افغانستان اور خطے کے لئے پریشانی باعث تشویش ھے۔ خاص طور پر چینی صدر نے بغیر نام لئے امریکہ کو ریاستوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے باز رھنے کی تنبیہ کی ھے۔ یہ ایک اھم پیش رفت ھے کہ چین اب برملا امریکی ھٹ دھرمیوں کا اظہار کر رھا ھے۔ خطے میں امن کے لئے روس اور چین کا اشتراک ایک اھم پیش رفت ھے جس سے امریکہ کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ھے- آنے والے چند ماہ، جنوبی ایشیا، ایران، وسطی ایشیائی اور جنوب مشرقی ایشیائی خطوں کے لئے بہت اھم ثابت ھوں گے جس کے اثرات براہ راست چین اور پاکستان کی شراکت داری کے منصوبے سی پیک پر مرتب ھونگے۔ ان حالات میں پاکستان کی اندرونی سیاست اور یک جہتی ایک اھم کردار ادا کرے گی۔ استحصالی قوتوں کے ھاتھوں عالمی چیرہ دستیاں ھمیشہ سے جاری ہیں اور رھیں گی ۔ ان کا مقابکہ کرنے کے لئے ریاستوں کو اندرونی محاذ پر مضبوط ھونا پڑے گا