تحریر: ڈاکٹر عتیق الرحمان
ہمیں کیسا دکھنا ہے اور دنیا ہمارے بارے میں کیسا سوچے یہ بیانیہ ہے- اور ھم کر کیا رہے ہیں یہ ہماری پالیسی ہے- بیانے کی یہ جنگ موجودہ دور کا سب سے بڑا فتنہ ہے ۔ اگر بیانیہ وہی ھے جیسی پالیسیاں ہیں تو اھداف کا حصول بھی اسان ھو گا اور دنیا میں عزت بھی ہو گی – اور اگر بول اور عمل میں تضاد ہے تو یہ تباہی کا بہترین نسخہ ہے- امریکہ جتنا چاھے انسانی حقوق اور جمہوریت کا پرچار کر لے ، دنیا امریکہ کو ایراق، افغانستان، فلسطین، کشمیر ،افغانستان اور یوکرائن میں ان کی پالیسیوں کی بنیاد پر ہی ان کو پرکھے گی-بھارت جتنا چاھے سیکولر ملک ھونے کا ڈرامہ کر لے دنیا اسے انتہاء پسند ملک کے طور پر ہی جانے گی- بیانیہ آج کی سیاست میں ایک فن کی حیثیت اختیار کر چکا ھے- اخبارات کے پہلے اور آخری صفحہ پر خبریں کم اور سیاسی بیانے کی شکل میں لطیفے زیادہ نظر آتے ھیں – مثلا م” جرموں کو کیفیکردار تک پہنچا کر دم لیں گے”؛ ائ جی پولیس۔ اب اس بیان کو پڑھ کر پیٹ میں بل نہ پڑھیں تو کیا ھو-اب یہ دیکھیں "ھمیں اقتدار نھی جمہوریت چاھیے”؛جے یو آی ایف- وغیرہ موجودہ دور میں ٹیکنالوجی نے جھوٹا بیانیا بنانے کی صلاحیت کو ضرور تقویت بخشی ھے لیکن یہ بیانیہ عارضی ہوتا ہے اور زیادہ دیر تر اصل چہرے کو نہیں چھپا سکتا- کسی قوم کو پارہ پارہ کرنے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ اس کی سوچ کو توڑ پھوڑ کا شکار کر دیا جائے۔ اس کے لوگوں کے ذہنوں میں شکوک شبہات کا زہر بھر دیا جائے۔حقیقی دفاع کسی قوم کے جذبے اور حوصلے میں مضمر ہوتا ہے- جس کے ذریعے وہ کسی بھی بڑے دشمن اور خطرے کا مقابلہ کرتی ہے۔بیانے اور پالیسی کے علاوہ کسی بھی کام، معرکے اور جدوجہد میں کامیابی کے لئے تینوں چیزوں کا ملاپ بہت ضروری ھے- آپ کے وسائل، آپ کی صلاحیتں اور مقاصد – ان تینوں میں سے کوئی چیز بھی اگر باقی دو سے مطابقت نہ رکھتی ھو تو کامیابی مشکل ہے- پاکستان کے مسائل، ھمارے وسائل سے کہیں زیادہ ہیں – بدقسمتی سے ان مسائل کا حل ھماری ترجیح نہہیں- ھم وسائل بڑھانے کے لئے نہیں ان کی تقسیم کے لئے کوشاں ہیں- ھمیں تربیت یافتہ نوجوانوں کی ضرورت ھے جو مشینیں اور کمپیوٹر چلا سکیں اور ھم ڈگری کے نام پر بچوں کو کاغذ کے ٹکڑے تھما کر ان کو مارکیٹ میں پھینکتے جا رھے ہیں- جب مشکلات اور دشمن بڑھ جائیں تو اکٹھے ہو کر ان کا مقابلہ کیا جاتا ہے نہ کہ تقسیم ھو کر- بدقسمتی سے جیسے جیسے ہمارے مسائل بڑھ رہے ہیں ، بجائے یکجا ھونے کے ہم تقسیم ہوتے جا رھے ہیں – بکھری ہوئی قوم چھلنی کے مانند ھوتی ہے ، جو کچھ بھی اندر ڈالیں گے وہ باہر نکلتا جائے گا- سٹریجیٹی یہی ہے کہ وسائل کو زیادہ کریں اور ھیومن ریسورس کو قابل بنائیں اور اھداف چھوٹے رکھیں اور قدم بقدم اوپر کی طرف سفر جاری رکھیں – قابلیت ھو ، وسائل ہوں اور ھدف چھوٹا ہو تو کامیابی ۱۰۰% ھے لیکن اگر وسائل نہ ھوں لیکن قابلیت ھو تو ھدف مشکل ھو جاتا ھے- اور اگر نہ قابلیت ھو، نہ وسائل تو بربادی یقیننا ھے-لیڈرشپ کا امتحان یہی ہے کہ اپنی ترجیحات ٹھیک کر لیں- اگر لیڈر غلط سمت کا تعین کر لے گا تو قوم کا رخ بھی اسی طرف ہو گا- کھینچا تانی، شورو غوغا ، لالچ ، جھوٹ کی سیاسی صرف تباہی ہے- سیاسی اکابرین کو مخالفین کو ٹھیک کرنے کی بجائے ، اپنے آپ کو ٹھیک کرنا چاھیے- بیانیے بنانے کی بجائے بہتر سوچ اور اچھی منصوبہ بندی کریں جس سے عوام کو بھی فائدہ ہو- ہاں البتہ آپ میں اتنی صلاحیت ضرور ہونی چاہیے کہ دشمن کے جھوٹے بیانیے کو ناکام بنا سکیں۔