افریقہ کے صحت سے متعلقہ
ادارے ’منکی پاکس‘ کے عوامی جمہوریہ کانگو سے پڑوسی ممالک میں پھیلنے پر اسے ’براعظمی سلامتی کی پبلک ہیلتھ ایمرجنسی‘ قرار دے دیا۔
افریقہ سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن (افریقہ سی ڈی سی) نے گزشتہ ہفتے وائرل انفیکشن کے پھیلاؤکی خطرناک شرح سے خبردار کیا ، جو قریبی رابطے سے پھیلتا ہے اور فلو جیسی علامات اور پیپ سے بھرےزخموں کا سبب بنتا ہے۔
زیادہ تر کیسز ہلکی نوعیت کے ہوتے ہیں لیکن یہ جان لے سکتے ہیں۔‘
کانگو میں پاکس کے پھیلنے خطرات پر قابو پانے کے لئے
ویکسین کی ایک کروڑ سے زیادہ خوراکوں کی ضرورت ہے لیکن صرف 2 لاکھ کے قریب دستیاب ہیں۔
صحت عامہ کے ادارے نے کہا کہ اس سال براعظم میں اب تک 15 ہزار سے زیادہ کیسز اور 461 اموات کی اطلاع ملی ہے، جو گزشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 160 فیصد زیادہ ہے۔ براعظم کےکُل 18 ممالک میں کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں۔
1970 میں عوامی جمہوریہ کانگو میں انسانوں میں اس کا پہلی بار پتا چلنے کے بعد کئی دہائیوں سے منکی پاکسافریقہ کے کچھ حصوں میں متعدی ہے۔
وائرس کا کم مہلک ورژن 2022 میں ایک سو سے زیادہ ممالک میں پھیل گیا تھا، زیادہ تر جنسی رابطے کےذریعے، جس نے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کو بین الاقوامی تشویش کی پبلک ہیلتھ ایمرجنسی کا اعلانکرنے پر مجبور کیا تھا، جو اس کی اعلیٰ ترین سطح کا الرٹ ہے۔
ڈبلیو ایچ او نے 10 ماہ بعد ایمرجنسی ختم کرتے ہوئے کہا تھا کہ صحت کا بحران قابو میں آگیا ہے۔
امریکی سی ڈی سی نے گزشتہ ہفتے طبی ماہرین اور محکمہ صحت کو مہلک نئی قسم کے بارے میں مطلع کرنےکے لیے دوسرا ہیلتھ الرٹ جاری کیا تھا۔
پچھلے ہفتے بھی، افریقہ سی ڈی سی نے کہا تھا کہ اسے منکی پاکس کا سامنا کرنے کے لیے افریقہ یونین سےہنگامی فنڈنگ میں ایک کروڑ 4 لاکھ ڈالر دیے گئے ہیں۔
ڈبلیو ایچ او کے سربراہ ٹیڈروس ایڈہانوم گیبریئس نے ایک ہنگامی کمیٹی بلانے کا وعدہ کیا ہے جس میں اسبات پر تبادلہ خیال کیا جائے گا کہ آیا کانگو میں وبا، بین الاقوامی تشویش کی صحت عامہ کی ہنگامی صورت حالکی نمائندگی کرتی ہے۔