آن لائن سیاست

 جلسے میں  تقریر اور ٹویٹ میں وہی فرق ھے جو تندور کی گرم روٹی اور آن لائن کھانا منگوانے میں ھے-  دنیا کے بڑے بڑے سیاسی لیڈر اپنے جوش خطابت کی وجہ سے ایک  الگ پہچان رکھتے تھے- لمبی لمبی چھوڑنے کے لئے ٹویٹ مناسب فورم نہیں-  ٹویٹ سے آپ صرف مخالف کو چھیڑ  سکتے ہیں-

 کوئی بھی انسان اپنی زبان کا کھل کر استعمال یا تو سیاسی جلسوں میں کرتا ھے یا اپنے بہترین دوستوں کے ساتھ – جلسے اور دوستوں کی محفل کی  بے تُکی اور اندھا دھند گفتگو کو دنیا کی کوئی لغت جگہ دینے کی جراءت نہیں کر سکتی- 

انگریز بھلے چاند پر کافی چکّر لگا چکے ہیں لیکن ساگ کا توڑ نئیں ڈھونڈ سکے-  دنیا کے سارے فاسٹ فوڈ ،چھوٹے گوشت کے قورمے اور زردے کی   دیگ کا مقابلہ نہیں کر سکتے- اگر انگریزوں کو کونڈے والے دھی کی لسی کا نسخہ ہاتھ لگ جائے تو زندگی بھر کسی دوسرے مشروب کو ہاتھ نہ لگائیں- 

بریانی، حلیم، نہاری تو پنجایوں پر تھوپے گئے ہیں- امب چوسنا اور ادوانہ ( تربوز) کھانا کوئی پنجابیوں سے سیکھے- 

لور، سیالکوٹ ، فیصل آباد اور ٹوبھا ٹیک  سنگھ والوں کی پنجابی دور سے پہچانی جاتی ہے- لفظ کو لمبا کر کے ایسا کھینچتے ہیں ، لگتا ھے "لفظ ڈگن لگا اے”-  

لڑائی جھگڑے میں پنجابی، اپنی زبان اور ہاتھ دونوں سے کام لیتے ہیں، بلکہ ہاتھ کئی دفع تھک بھی جاتا ھے- 

انگریزوں کا ڈانس بھی انہیں کی طرح پھو کاہے- ہماری پنجابی فلموں کی اداکاراؤں  نے نے پنجابی ڈانس کو جو جّدت بخشی ہے اس کا مقابلہ شاید ہی کلاسیکل ڈانس کر سکے- ڈھول کی تھاپ اگر آپ کا بھنگڑے ڈالنے کو دل نہیں کرتا تو آپ پنجابی نئیں- 

 محاورے کسی بھی discourse کا  مرکزی خیال ہوتے  ہیں –  

محاوروں کا تحریروں میں  استعمال بالکل ایسے ہی عبارت کو چاند لگا دیتا ہے جیسے کریلوں میں قیمہ یا آلو شوربے میں گوشت- کہانی کا پورا ذائقہ تبدیل ہو جاتا ہے- 

"میرے پاس تو زہر کھانے کو بھی پیسے نہیں” غالبا   آپ اپنی  بیوی کے سامنے تنگی داماں کا رونا رو رھے ہیں– اور جواب میں   ” پھوٹی میری  قسمت” کہ کر بیگم آپ کو  شادی والے دن کی طرف توجہ دلا رہی جب آپ نے اپنے منہ کو رومال سے کور کیا ہوا تھا -"بھوسا بھرا ہونا” بولتے ہی  سمجھ آ جاتی ہے ذہانت زیر بحث ہے-بھوسا  بیوقوفی کے اعلی درجے کا استعارہ ھے-  "پڑھ لو نہیں تو فیل ھو جاؤ گے"، حالانکہ اس طرح مجبور کر کے پڑھانے سے نمبر نہیں آتے-

اگر آپ پنجابی زبان کے سیاق و سباق سمجھنے  چل پڑے تو ” چودہ طبق روشن ہو جائیں ” گے– جیسا کہ ” توں ماما لگنا اے” یہ کسی ایسے شخص کو تنبیہ کی جارھی ہے جو خوامخواہ دخل انداز ہونے کی کوشش کر رہاہو– 

گئے وقتوں میں الیکشن کے بعد اونٹ کسی کروٹ بیٹھ جایا کرتا تھا لیکن اب گھوڑے کی طرح مسلسل کھڑا ہے- 

سیاست کی طرح سیاسی نعرے اب تقریبا ختم ہوتے جا رہے ہیں- سیاست  ورچئل ہو کر  ھیش ٹیگ میں سماگئی ہے – اس لئے نتائج بھی نظر نہیں آ رہے- آن لائن سیاست کی یہی حد ہے-

۰-۰-۰

ڈاکٹر عتیق الرحمان 

Comments (0)
Add Comment