‏عوامی اضطراب- کیا وجہ؟‏چین میں سیلاب‏Ubermenschپونے دوپاکستان میں ہر سال 10 لاکھ مکانات کی ضرورت ہےایران نے اسرائیل پر ڈرون اور میزائیلوُں سے حملہ کر دیا ہےگوجرانوالہ- سیالکوٹ- وزیر آباد- گجرات اور لالہ موسی، بنا بنا اکنامک زونسیاچن کے محاز پر پاکستان کی فوجپاکستان کے شمالی علاقہ جاتمعاشرے کی سوچ کو بدلنا ریاست کو ماڈرن بنانے سے کہیں زیادہ ضروری ہےمعاشرےمعاشرے کی سوچ کو بدلنا ریاست کو ماڈرن بنانے سے کہیں زیادہ ضروری ہےاگر ہمّت ہو تو معزوری کوئی رکاوٹ نہیں ہوتیمیلہ 6 ستمبروہ لمحہ جب 7.4 شدت کے زلزلے نے تائیوان کو ہلا ڈالامہنگائی کی شرح ۲۰% پر آ گئی-اپنی صحت کا خیال رکھیں- سوشل میڈیا سے دور رہیںصدر ارگان کی پارٹی کو ترکی میں بلدیاتی انتخابات میں شکستافغان سرزمین دہشتگردوں کی محفوظ آماجگاہ ہے ؛ فنانشل ٹائمچولستان میں زمینوں کو آباد کرنے کا منصوبہسائنوٹیک سولر پرائیویٹ لمیٹڈ کی پاکستان میں سرمایہ کاریپیٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 9 روپے 66 پیسے کا اضافہ –

سیاسی، معاشی اور سماجی کسمپرسی


تجزیہ عنبرین یوسف

کسی بھی قوم کی جب سیاست اور معیشت غیر مستحکم ہو جائے اور معاشرہ تقسیم ہو جائے تو ریاست کو سخت خطرات لاحق ہو جاتے ہیں- صرف ملٹری سیکورٹی کے مستحکم ہونے سے ریاست مضبوط نہیں ہوتی- سیاست اور معاشرہ دونوں ایک دوسرے کا لازمی جزو ہیں –
ہاں البتہ یہ بات حتمی طور پر طے نہیں کی جاسکی کہ سیاست معاشرے پر حاوی ہے یا معاشرہ سیاست پر اپنی شرائط لاگو کرتا ہے تاہم یہ بات ثابت شدہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے سے الگ نہیں ہیں۔ لہٰذا، ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ قومی سیاست اور معاشرہ ہی وہ جزہیں جو کسی قوم کی طاقت کا مظہر ہوتے ہیں اور عالمی معاملات میں اصل کردار ادا کرتے ہیں ۔ ایک متحد، خوشحال اور منظم معاشرہ ایک مضبوط سیاسی کلچر کی تشکیل کا باعث ہوتا ہے-

ہمارا معاشرہ جو پہلے ہی تقسیم درتقسیم ہے، اس وقت سنی سنائی باتوں اور سیاسی نعروں کے ایک طوفان کی لپیٹ میں ہے۔ اس طوفان بدتمیزی کا مقصد عوام کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑکانا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں لوگ کسی سوچ یا نظریے کی بنیاد پر نہیں بلکہ جذبات کا شکار ہوکر اپنا ووٹ ڈالتے ہیں۔ اس لئے ان کو بھڑکانا بہت آسان ہے-

اب ہم ہر طرف سے بھانت بھانت کی بولیاں سن رہے ہیں۔ ہر کوئی ہر کسی کو سنا رہا اور سن کوئی نہیں رہا ہے۔ جب کوئی بھی ایک دوسرے کی باتوں پر دھیان نہ دے تو حالات افہام و تفہیم اور ہم آہنگی کے لیے موزوں نہیں رہتے۔ یہی وجہ ہے کہ اب تمام سنجیدہ حلقوں جن میں ترقی یافتہ ممالک اور بڑی جمہوریتیں شامل ہیں، سوشل میڈیا کے استعمال کے حوالے سے تشویش میں مبتلا ہیں۔ امریکی صدر نے حال ہی میں اس حوالے سے اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ جبکہ بھارتی پارلیمنٹ میں بھی گورننس پر سوشل میڈیا کے منفی اثرات پر آوازیں بلند کی جارہی ہیں۔

حقیقی دفاع کسی قوم کے جذبے اور حوصلے میں مضمر ہوتا ہے: یعنی ایسی سوچ اور عزم کی حامل ہوتی ہے جس کے ذریعے وہ کسی بھی بڑے دشمن اور خطرے کا مقابلہ کرتی ہے۔

حقیقت پسندانہ باشعور آوازیں، سرگوشیاں، تنقید اور تحفظات وغیرہ اقتدار کے ایوانوں میں گونجتے رہتے ہیں اور سیاسی فیصلوں پر اس کے مثبت نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ لیکن پروپیگنڈہ، بیان بازی، اور بے معنی، خود ساختہ دلائل اصلاح کی بجائے حالات کو مزید بگاڑنے کا باعث ہوتے ہیں۔ افواج شہد کی مکھیوں کے چھتے کی طرح ہوتی ہیں۔ ان کی توجہ کا مرکز صرف اور صرف ملک کی سلامتی اور تحفظ ہوتا ہے کہ جب تک انہیں باہر سے کوئی ڈسٹرب نہ کرے۔ اپنے ہی لوگوں کی بے پرکی آوازیں فوج کو اس کے بنیادی فرائض سے توجہ ہٹانے کا باعث بنتی ہیں۔ سرحد پر اپنے بنکر میں موجود سپاہی اپنی ساری توجہ دشمن کی حرکت وسکنات پر مرکوز رکھتا ہے اور اس کی کسی بھی اشتعال انگیز حرکت پر منہ توڑ جواب دینے کے لیے تیار رہتا ہے۔ اس دوران وہ اپنے موبائل کے ذریعے دنیا کے حالات پر بھی نظر رکھتا ہے۔ یہ صورتحال ماضی سے ہٹ کر ہے کہ جب کسی ابلاغی میڈیم کی عدم موجودگی کی بدولت کوئی بات ایک خاص حد سے آگے نہ بڑھ سکتی تھی۔

ایک بار جب کسی فوجی کی توجہ ہٹا دی جائے تو یہ واقعی کسی قوم کی سلامتی کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ سیکورٹی کو خطرات سے دوچار کردینے کا عمل کسی بھی قوم کے وجود کو خطرے میں ڈال دیتا ہے۔ بنکرز، قلعے، خندقیں اور بارودی سرنگیں دفاعی اقدامات ضرور ہوتے ہیں تاہم حقیقی دفاع قوم کے حوصلے اور جذبے میں مضمر ہو تا ہے۔ یعنی وہ قوم اس سوچ جس کے ذریعے وہ کسی بھی خطرے اور چیلنج کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوتی ہے۔ کسی قوم کو پارہ پارہ کرنے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ اس کی سوچ کو توڑ پھوڑ کا شکار کر دیا جائے۔ اس کے لوگوں کے ذہنوں میں شکوک شبہات کا زہر بھر دیا جائے۔ انسانی ذہن ہر پیغام کو وصول کرنے کی گنجائش رکھتا ہے لیکن یہ معلومات کی ایک خاص طرز پر جانچ پڑتال بھی کرتا ہے۔ اس عمل کے ساتھ اگر چھیڑ چھاڑ کی جائے تو ڈیزائن کردہ معلومات کے ذریعے رائے سازی مختلف نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ چونکہ ڈیجیٹل دنیا میں کوئی سرحدیں نہیں ہوتیں، اس لیے معلومات کا ایک جم غفیر امڈتا چلا آرہا ہے جو جانچ پڑتال کے عمل سے گزرے بغیر رائے عامہ کو متاثر کر رہا ہے۔ پڑھے لکھے اور منظم معاشرے ان معاشروں کی نسبت زیادہ مضبوط ہوتے ہیں جو سیاسی- نسلی اور فرقہ وارانہ تقسیم کا شکار ہوتے ہیں۔

پاکستان اس وقت جغرافیائی اور اندرونی سیاست کی گرداب میں پھنسا ہوا ہے۔ اس صورت حال میں عوامی ردعمل لاہور میں بسنت کے ’’بو کاٹا‘‘ جیسا ہی نظر آتا ہے۔ ہمارے دشمن اس مخمصے کا شکار ہیں کیونکہ ہم دفاعی لحاظ سے بہت مضبوط بلکہ ناقابل تسخیر ہیں لیکن کمزور معیشت ہماری ترقی کی راہ میں بڑی روکاوٹ ہے۔ یہی نقطہ پاکستان میں انشار اور خلل ڈالنے کا سب سے آسان راستہ فراہم کرتا ہے کہ معاشرے میں کسی بھی طریقے سے رائے عامہ کو متاثر کرکے بدامنی کو ہوا دی جائے۔ اس لیے ہماری سیاست، ہمارے اس رویے کی بدولت دشمن کے پروپیگنڈے کی زد میں ہے جس نے آج ہمیں بحران کے عین بیچ میں لاکھڑا کیا ہے۔

ملک کے اندر اور باہر سے مختلف مفاد پرست گروہ افواہوں، سیاسی الزامات، فرضی کہانیوں، پیروڈی اور نقالی کے ذریعے بداعتمادی پیدا کرنے میں مصروف ہیں۔ معلومات کی گھٹائیں گہری ہوتی جا رہی ہیں جو آراء، تبصروں، فیصلوں اور گورننس کو متاثر کررہی ہیں۔ ہم پچھلے دو سال سے اسی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں۔ اب یہ کوئی عارضی مسئلہ نہیں رہا۔

بدامنی اورغیر یقینی صورتحال دراصل دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نتائج ہیں۔ دہشت گردی کی یہ جنگ 2001 میں شروع ہوئی۔ اس دوران پاکستان مخالف قوتوں کی طرف سے ایک منظم مہم کے ذریعے ہمارے معاشرے میں بداعتمادی کے بیج بوئے گئے۔ یہ جنگ افغانستان، عراق، پاکستان اور خطے کے دیگر ممالک میں لڑی گئی۔ پاکستان، افغانستان کا پڑوسی ہونے کے ناطے براہ راست متاثر ہونے والا ملک ہے۔ افغانستان میں بیس سال سے امریکہ کی موجودگی نے خطے میں متعدد پیچیدگیاں پیدا کی ہیں۔ معاشرتی بدامنی کے فروغ کے لیے دو دہائیاں کافی ہوتی ہیں۔ کورونا وائرس نے صورتحال میں بے یقینی اور بے چینی کو مزید بڑھایا۔

اس پروپیگنڈہ جنگ میں اجتماعی ردعمل کی بجائے انفرادی ذمہ داری کلیدی اہمیت کی حامل ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم متحد ہوجائیں، غلط فہمیاں دور کرتے ہوئے درست سمت میں فیصلے کریں اور پاکستان پر مسلط کی جانے والے اس پراپیگنڈہ جنگ کو پسپا کرتے ہوئے سرخروئی حاصل کریں۔

You might also like